"ڈسکہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 10:
ڈسکہ میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیا اکرام کا کردار بھی بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ حضرت [[علی الحق(امام صاحب)|امام علی الحق]] کے [[سیالکوٹ]] کو فتح کرنے ساتھ ہی بزرگان دین اور صوفیا اکرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جن میں سید ولی شاہ، نے ڈسکہ کلاں میں کئی سوسال پہلے اسلامی افکار کو دیگر مذاہب کے اشخاص تک پہنچانے کا پرامن طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے اسلام کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈسکہ میں انہوں نے پہلی مسجد بابِ اسلام کی بنیاد رکھی جو متصل مزار شریف ہے۔ آپ کا پرامن طریقہ اختیار کرنے کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی کے ساہی جٹ [[اولیاء جٹ]] اور شیخ برادری نے اسلام قبول کیا، اب آپکا پڑپوتا سجادہ نشین سید تصور شاہ [[نورانی شاہ]] ہے ان کے علاوہ بھی دیگر ہستیاں شامل ہیں۔ ان صوفیا اکرام کے نام بابا نوبتاں والی سرکار عوامی روڈ، سید شاہ شریف نہر بی آر بی، بھولا پیر، سید احمد شاہ، کے نام بھی اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔
 
حضرت مولانا محمد فیروز خان فاضل دیوبند
 
[[دیوبندی شخصیات کی فہرست|مولانا محمد فیروز خان ثاقب دیوبندی]]
 
ضبط وتحریر مفتی اجمل محمد خان
 
03016481348
 
مولانا1958میں ڈسکہ میں تشریف لائے مولانا کا آبائی وطن آزاد کشمیر ہے. ڈسکہ میں مولانامولانافیروز خان جب تشریف لائے تو ڈسکہ میں قادیانیت اپنے عروج پر تھی
 
مولانا کے ادارے دارالعلوم مدنیہ سے چند میٹر کے فاصلے پر ظفراللہ خان قادیانی کا گھر موجود ہے.
سطر 30:
مولانا ہمیشہ امن کے داعی رہے. تمام دینی طبقات کو ہمیشہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھا.
 
مولانافان 9مارچمولانافیروزخان9مارچ 2010کودارفانی سے کوچ کرکے خلدمکین ہوئے. مولانا کا جنازہ ڈسکہ کی تاریخ کاسب سے بڑا جنازہ تھا. مولانا کاجنازہ مولانا سمیع الحق شہید نے پڑھایا.
 
مولانا زاہداجھلراججھبشجججدیزاہدالراشدی صاحب کا مضمون
 
حضرت مولانا محمد فہکیرججیکوفیروز خان خان ثاقب بھی انتقال فرما گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ شاید فضلائے دیوبند میں سے ہمارے علاقے میں آخری بزرگ تھے، اب کوئی فاضل دیوبند اس علاقہ میں میرے علم میں موجود نہیں ہے۔ چند ماہ قبل مولانا لالہ عبد العزیز سرگوھجیکددھویہی کا بھی انتقال ہو گیا ہے جو فاضل دیوءءےکبند تھے، وہ ایک عرصہ تک مدرسہ نھصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ناظم اور محکمہ اوقاف کے ڈسٹرکٹ خطیب رہے ہیں، گلی لانگریاں والی گوجرانوالہ کی مسجد کے امام و خطیب تھے، میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں طالب علمی کا سارا دور انہی کی نظامت میں گزارا ہے اور وہ میرے درس نظامی کے ابتدائی اساتذہ میں سے بھی ہیں۔ ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ان کے بعد ہم یہ کہا کرتے تھے کہ اب دیکوبیےگند کی آخری نشانی ہمارے پاس حضرت مولانا فیروز خان رہ گئے ہیں، وہ بھی آج ۹ مارچ 2010کو ہم سے رخصت ہو گئے۔
 
گزشتہ جمعہ کو میں ان کی عیادت کے لیے ڈسکہ حاضر ہوا، کچھ عرصہ سے وہ بیمار تھے مگر بیماری کے باوجود ۵ فروری کو یوم کشمیر کے جلوس سے خطاب کیا اور اس روز جمعۃ المبارک کے اجتماع میں بھی اسی مسئلہ پر تقریر کی جس کے بارے میں ان کے بعض سامعین کا کہنا ہے کہ انہوں نے جوانی کے دور کی یاد تازہ کر دی، یہ ان کا آخری عمومی خطاب تھا۔ بیماری کے ایام میں بھی اسباق پڑھاتے رہے اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے دارالعلوم مدنیہ میں ۲87 فروری بدھ کو بخاری شریف کا آخری سبق پڑھایا، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف تھی اور جگر کا عارضہ بھی تھا۔
سطر 40:
گزشتہ ہفتے ایک شب چارپائی سے اٹھتے ہوئے گر گئے جس سے ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف بڑھ گئی پھر باقی ایام بے چینی اور اضطراب میں ہی بسر کیے۔ لاہور کے میو ہسپتال لے جایا گیا، چند دن رہے مگر واپسی کے لیے بے تاب تھے چنانچہ گزشتہ بدھ کو انہیں واپس ڈسکہ لایا گیا۔ میں جمعہ کی شام کو عزیزم عمیتارہ خان اور ڈاکٹر محمد رفیق میر کے ہمراہ حاضر ہوا، بے چینی کی حالت میں تھے، بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، چند لمحے ہم نے ان کی زیارت کی اور پھر دعائے صحت کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گئے۔
 
ہماری ان سے رشتہ داری بھی تھی کہ ان کے برادر نسبتی مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی آف میرپور آزاد کشمیر میرے حقیقی خالو ہیں، جبکہ میری خالہ زاد بہن مولانا محمد فیکججروعرزفگگھفیروز خان ثاقب رحمۃاللہ کی بہو ہیں۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر کی وادیک نیلم سے تھا، غالباً ۱۹۵۶ء میں دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کیا، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد کے گاگرد تھے اور ان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ دار العلوم دیعروبکککجنددارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں آگئے اور دارالعلوم مدنیہ کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا جو اَب ضلع سیالکوٹ کے بڑے دینی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔
 
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور قادیانی امت کے عالمی لیڈر چوہدری ظفر اللہ خان کا تعلق بھی ڈسکہ سے تھا اور ان کا خاندان ایک عرصہ تک یہاں آباد چلا آ رہا ہے، مولانا فیکلرویےگگھھزفیروز خاعرلکنخان نے ان کی خاندانی حویلی کے سامنے ایک خالی جگہ وپر ڈیرہ لگا لیا، مزاج میں جلال غالب تھا، متحرک اور فعال عالم دین تھے اور دینی حمیت و غیرت کا مجسمہ تھے اس لیے خوب گہماگہمی رہی اور ’’اٹ کھڑکا‘‘ وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ ہمارا طالب علمی کا دور تھا، دار العلوم مدنیہ کا سالانہ جلسہ خاصا معرکے کا ہوتا تھا، ہم بائیسکلوں پر گوجرانوالہ سے جلسہ سننے جایا کرتے تھے۔ میں نے خطیب پاکستان حضرت مولانا طقاھبضدگگی احسان احمد شھءجتتاعتتت آگھجبادھی کے دو ہی خطاب سنے ہیں، ایک شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں اور دوسرا دار العلوم مدنیہ ڈسکہ میں۔ ڈسکہ کے خطاب کا آغاز حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی نے اس دلچسپ جملہ سے کیا تھا کہ ’’آپ کے شہر کا نام بھی عجیب ہے، کہاں چلے ہو؟ ڈس کے!‘‘
 
مولانا محمد مڑوڑفیروز مروانخان ثاقب کا بھرپور جوانی کا دور تھا اور وہ ہاتھ میں رائفل پکڑے پوری تقریر کے دوران حفاظت کے لیے اسٹیج پر کھڑے رہے۔ اس دور میں علماء کرام عام طور پر ہتھیاروں سے نا آشنا ہوتے تھے، زیادہ سے زیادہ کسی کے ہاتھ میں کلہاڑی ہوتی تھی، صرف حضرت مولانا چبییربشیر احمد پمسرجکوریپسروری ہاتھ میں تلوار رکھتے تھے اور صاحب السیف کہلاتے تھے، اس زمانے میں کسی عالم دین کے ہاتھ میں ریوالور یا رائفل کا ہونا بہت رعب اور دبدبہ کی بات سمجھی جاتی تھی اور مجھے بھی اسٹیج پر مولانا فیروز خان رائفل بدست کھڑے بڑے با رعب لگے جس کا نقشہ ابھی تک ذہن میں موجود ہے۔ دار العلوم مدنیہ کے جلسہ کا اسٹیج چودھری ظفر اللہ خان کی خاندانی حویلی کے سامنے ہوتا تھا، اس لیے اس اسٹیج پر احراری خطابت کی گھن گرج عجیب سماں پیدا کرتی تھی۔ میں نے اسی اسٹیج پر سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمد چنیوٹی کا پہلا خطاب سنا جو کئی گھنٹوں پر مشتمل تھا اور ان کے خطیبانہ جوش و خروش اور مناظرانہ کروفر کے بارے میں اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ وہ چودھری ظفر اللہ خان کی خاندانی حویلی کے سامنے کھڑے خطاب کر رہے تھے۔
 
حضرت مولانا محمد مڑورفیروز خمروانخان ثاقب اعلیٰ پائے کے یک مدرس تھے، بالخصوص ادب، عربی اور معقولات میں چوٹی کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ میں نے ان سے کوئی باقاعدہ سبق نہیں پڑھا، البتہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے سالانہ امتحان میں ہمیشہ تشریف لاتے تھے اور میں نے انہیں بعض کتابوں کا امتحان دیا ہے اس لیے میں نے ہمیشہ انہیں اپنے اساتذہ میں شمار کیا ہے اور زندگی بھر ان سے اسی نوعیت کی نیاز مندی رہی ہے۔ وہ بھی ہمیشہ شفقت فرماتے تھے، دعاؤں سے نوازتے تھے، سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور غلطیوں پر ٹوکتے بھی تھے۔ ایک موقع پر حضرت مولانا بشیر احمد پسروری نے شاہی مسجد پسرور کے سالانہ جلسہ میں مجھے خطاب کا حکم دیا، میرا نوجوانی کا دور تھا، حضرت مولانا خبیربشیر حانداحمد پسروری صدارت فرما رہے تھے، مولانا محمد مڑورز مروان اسٹیج پر تھے، مجھے خطاب کے لیے کہا گیا تو حضرت مولانا محمد فیروز خان مجھے ایک طرف لے گئے اور فرمایا کہ یہاں سوچ سمجھ کر بولنا، بابا جی جلالی بزرگ ہیں کوئی بات غلط ہو جائے تو تقریر کے درمیان کھڑے ہو کر ٹوک دیا کرتے ہیں۔ میں بحمد اللہ تقریر میں ویسے ہی محتاط رہتا ہوں مگر اس تقریر میں مجھے زیادہ محتاط ہونا پڑا، حضرت مولانا محمد فیروز خان نے یگھہ بات حضرت پسروری کے بارے میں کہی تھی مگر میں مولانا محمد مڑوڑفیروز مروانخان ثاقب کی موجودگی میں بھی محتاط رہتا تھا کہ اس طرح کے جلال کی جھلک کبھی کبھی وہ بھی دکھا دیا کرتے تھے۔
 
جمعیت علماء اسلام میں ان کے ساتھ طویل جماعتی رفاقت رہی، وہ ایک عرصہ تک جمعیت علماء اسلام سیالکوٹ کے ضلعی امیر رہے، ضلعی سیالکوٹ سے متعلقہ جماعتی معاملات کے لیے زیادہ تر انہی کی خدمت میں حاضری ہوتی تھی، دینی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، خود ان کا اپنا مزاج تحریکی تھی، جب تک صحت نے ساتھ دیا دینی معاملات میں کسی نہ کسی حوالہ سے پیشرفت کرتے رہتے تھے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰی، ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۸۷ء کی شریعت بل کی تحریک میں ہمارا ساتھ رہا۔ ان کا جوش و جذبہ اور عزم و استقلال دیکھ کر مایوس دلوں میں حوصلہ پیدا ہو جاتا تھا اور خاموش مزاج لوگوں کا بھی بولنے اور کچھ کر گزرنے کو جی چاہنے لگتا تھا۔ وہ بے باک اور دبنگ مقرر تھے، پبلک اجتماع ہو یا خصوصی محفل، کارکنوں کا اجلاس ہو یا اعلیٰ سطح کی شورائی میٹنگ ہر جگہ وہ دو ٹوک اور بے لچک بات کرتے تھے۔ غیر ضروری مصلحتوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے تھے اور جہاں ضرورت محسوس کرتے ڈٹ جاتے تھے۔ وہ قید و بند کی صعوبتوں سے کئی بار دو چار ہوئے مگر ہر آزمائش سے سرخرو نکلے۔ سر کاری افسران کے ساتھ امن کمیٹیوں میں بیٹھتے تھے اور مختلف معاملات میں مذاکرات کرتے تھے مگر عالمانہ وقار اور قائدانہ بے نیازی کا دامن ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہتا تھا اور اس موقع پر وہ حکمت و تدبر اور جرأت و جسارت کا عجیب سا امتزاج بن جاتے تھے۔
 
والد محترم حضرت مولانا محمد خرمکار خانمحمدسرفرازخان صفدر اور عم مکرم حضرت مولانا کوفیصوفی عبد الحمید ےستواگھھتیخان سواتی کے ساتھ ان کا ہمیشہ قریبی تعلق رہا۔ مسلکی، جماعتی اور تعلیمی معاملات میں مشاورت و تعاون کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ تینوں فضلاء دیوبند تھے اور تینوں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے ماگرد تھے، اس نسبت کا رابطہ الگ سے لطف دیتا تھا۔ میری ہمیشہ ان سے نیاز مندی رہی ہے اور میں نے ان سے نہ صرف بہت سے معاملات میں استفادہ کیا ہے اور راہنمائی لی ہے، آج اس روایت و مزاج کے حضرات کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں اور میں ذاتی طور پر اب زیادہ تنہائی محسوس کرنے لگا ہوں۔ ا للہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ سے نوازیں اور ان کے فرزندوں اور اہل خاندان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین
 
ن[[صوفی غلام سرور صدیقی نقشبندی|پیر صوفی غلام سرور صدیقی نقشبندی]]