"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول: درستی املا (ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم) |
م خودکار: درستی املا ← جس، ان کی؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 21:
== عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول ==
آپ کی مصاحبت رسول {{درود}} کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم {{درود}} کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومنین میمونہ آپ کی خالہ تھیں اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر
{{اقتباس|ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ {{درود}} تشریف لاۓ اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوۓ، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوۓ اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کر لیا۔<ref>حضرت عبد اللہ بن عباس کے سو قصّے: مولانا اویس سرور ص 19</ref>}}
سطر 32:
یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا<ref>وصححہ الألباني في " السلسلة الصحيحة " ( 6 / 173 )</ref><ref>البخاري ( 143 ) ، ومسلم ( 2477 )</ref><ref>الإمام أحمد في " المسند " ( 4 / 225 )</ref>}}
== اولاد ==
آپ کے پانچ بیٹے تھے<ref>تاریخ ابنِ کثیر جلد 7</ref>
* [[علی بن عبد اللہ بن عباس]]
* [[عباس بن عبد اللہ بن عباس]]
* [[محمد بن عبد اللہ بن عباس]]
* [[فضل بن عبد اللہ بن عباس]]
* [[عبد اللہ بن عبد اللہ بن عباس]]
== ذکاوت و ذہانت ==
سطر 46:
ابن عباس:میں ہرگز گورنری قبول نہیں کروں گا جب تک مجھے اپنے خدشے کے بارے میں نہ بتاو۔
عمر: تجھے اس سے کیا غرض ہے؟
ابن عباس:میں اس کو جاننا چاہتا ہوں،اگر وہ خطرناک ہو تو مجھے بھی اس کے خطرے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جیسے آپ میرے بارے میں فکر مند ہوئے ہيں اور آکر میں اس سے بری ہوں اور مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ مجھ میں وہ برائي نہيں تو اس کام کو قبول کروں گا،میں نے آپ کو کم دیکھا
عمر:اے ابن عباس!میں اس چيز سے خوف زدہ ہوں کہ تیری گورنری میں کوئی حادثہ پیش آئے کہ تمہاری حکومت میں اس کو ہونا ہے کہ تو لوگوں سے کہنے لگے:ہماری طرف آؤ،اور تم اپنے بنی ہاشم کے سوا کسی کو قبول نہيں کرو گے،لیکن میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا تھا کہ تمہیں دور رکھا اور دوسروں کو کام پہ لگایا۔
ابن عباس:تجھے خدا کی قسم!اگر ایسا ہے تو گورنری کیوں دیتے ہو؟
سطر 57:
* ابن عبد ربہ اس کو ابو بکر بن ابی شیبہ م235ھ سے دوسری طرح نقل کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ خلیفہ ثانی کے ابن عباس کو گورنر نہ بنانے کی وجہ یہ بتائے کہ ابن عباس سہم ذوی القربی کے بارے میں بے جا تاویلیں کی ہوئي تھیں اور اس کے لیے امام علی کی طرف منسوب خط کو تائید کے لیے پیش کرتا ہے ابو بکر بن ابی شیبہ نے یہ نقل کیا :ابن عباس عمر کے ہاں سب سے زيادہ محبوب تھے اور عمر انہيں دیگر اصحاب نبوی سے مقدم کرتے تھے لیکن ان کو ہرگز گورنری نہيں دی ان سے ایک دن کہا:شاید میں تجھے گورنر بنادیتا لیکن مجھے ڈر ہے کہ تو تاویل کرکے مال فیئ کو حلال سمجھ لے پس جب امام علی کا دور آیا اور آپ نے ابن عباس کو بصرہ کا والی بنایا تو ابن عباس نے آیت خمس کی تاویل کرکے فیئ کو حلال کر لیا ۔
تبصرہ: ابن ابی شیبہ کی تصریح کے مطابق نبی اکرمﷺکے زمانے سے لیکر عمر کی خلافت کے آخری سال تک سہم ذوی القربی کے متولی امام علی بن ابی طالب تھے، بات ابن عباس جیسے دانشمند افراد سے پوشیدہ نہيں تھی پس وہ کس طرح امام علیؑ کی رائے کے بغیر سہم ذوی القربی میں تصرف کرسکتے تھے ثانیا اگر ابن عباس کے بارے میں تاویل کا خوف انہيں گورنر بنانے سے روکتا تھا تو معاویہ کو شام کی حکومت کے لیے کیوں انتخاب کیا کہ ان کے مالیات میں تاویلیں کرنے کے باوجود باقی رکھا؟ ثالثا ابن عبد ربہ نے جس خط کو تائید کے لیے پیش کیا وہ جعلی ہے اس سے ہرگز استدلال نہيں کیا جاسکتا۔<ref>العقد الفرید، ابن عبد ربہ،4ص354-359 ۔</ref>
== حدیث بیان کرنے میں احتیاط ==
سطر 76 ⟵ 74:
# نبی اکرم ﷺ نے امام علی کے سوا سب کے دروازے مسجد سے بند کر دیے۔
# نبی اکرم ﷺنے غدیر خم میں امام علیؑ کے بارے میں فرمایا:جس جس کا میں مولا ہو اس اس کے علی مولا ہيں۔<ref>مسند احمد بن حنبل 1 ص544 ح3052، مستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشاپوری، محمد بن عبد اللہ،3ص143 ح4652، مناقب خوارزمی،موفق بن احمد،ص125ح140، الریاض النضرۃ،احمد بن عبد اللہ طبری،3ص153، البدایۃ و النہایۃ ،اسماعیل بن عمرابن کثیر،7ص337و 7ص373 حوادث سنہ4ھ، مجمع الزوائد، ہیثمی ،علی بن ابی بکر،9ص،119، کفایۃ الطالب،محمد بن یوسف گنجی شافعی،ص241،ب62، الاصابۃ 2ص509، کنز العمال متقی ہندی،11ص603 ح32916، تفسیر ثعلبی؛ الکشف البیان آیت 67سورہ مائدہ، تفسیر رازی، 12ص49، تفسیر نیشاپوری 6ص194، خصائص نسائی ص47ح24، سنن نسائی، 5ص15ح8409، الاربعین فی فضائل امیر المومنین ص40ح13۔</ref>
== وصال ==
سطر 99 ⟵ 95:
ابن جعفر: خدا کی قسم جو کچھ میں نے کہا وہ حق و حقیقت ہے میں نے خود نبی اکرم {{درود 2}} سے سنا ہے۔{{نس}}[[معاویہ بن ابی سفیان]] نے امام حسن و حسین نیز عبد اللہ بن عباس کی طرف رخ کرکے کہا: فرزند جعفر کیا کہہ رہے ہيں؟{{نس}}
ابن عباس نے جواب دیا: اگر تمہيں ان کے بیان پر ایمان نہين تو انہوں نے جن لوگوں کا نام لیا ان سے پوچھ لو۔{{نس}}[[معاویہ بن ابی سفیان]] نے عمر بن سلمہ و اسامہ کے پاس آدمی بھیجا تو انہوں نے گواہی دی کہ فرزند جعفر نے جو کچھ کہا اسے ہم لوگوں نے بھی سنا ہے ۔{{نس}}
آخر میں عبد اللہ بن جعفر نے کہا: ہمارے رسول ؐنے یقینا بہترین افراد کو غدیر خم میں اور دوسرے مواقع پر امت کی ہدایت کے لیے متعین فرمایا، ان پر حجت قرار دیا، ان کی اطاعت کا حکم دیا، انہيں سمجھا دیا کہ علی کی نسبت رسول سے وہی ہے جو ہارون کو موسیؑ سے تھی اور یہ کہ نبی اکرمﷺ کے بعد وہ تمام مومنین کے ولی ہيں اولی بالتصرف ہيں رسول ؐکی طرح، علی جانشین رسول ؐ ہيں ،ان کے وصی ہيں،ان کی اطاعت خدا کی اطاعت
=== ابن زبیر کے مقابلے میں فرزند عباس کی قدردانی ===
|