"واجد علی شاہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏دور حکومت: درستی املا
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
سطر 5:
ریاست [[لکھنؤ]] کا نواب۔ 30 جولائی 1822 کو اودھ کے [[شاہی خاندان]] میں اس کی پیدائش ہوئی۔ اسکا پورا نام ابو المنصور سکندر شاہ پادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر تھا۔ اپنے باپ امجد علی شاہ کے بعد تخت نشین ہوا۔ نہایت ہی عیاش، رقص و موسیقی میں دلچسپی رکھنے والا رنگین مزاج نواب تھا۔
== دور حکومت ==
واجد علی شاہ کے دور حکومت میں دراصل واجد علی شاہ کے والد امجد علی شاہ کے دور تک آتے آتے [[ایسٹ انڈیا کمپنی]] فوجی اور سیاسی حیثیت سے اودھ کے معاملات میں اتنا حاوی ہو چکی تھی کہ اب وہ محض یہ موقع تلاش کر رہی تھی کہ اس حکومت کو کس طرح سے قبضے میں لے لیا جائے۔ لیکن واجد علی شاہ کی تخت نشینی 1847کے فوراً ہی بعد اسکےانکے خلاف بدنظمی، ہیجان، انتشار اور اسکیانکی نا اہلی اور عیاشی کے الزامات لگائے گئے جس کا علاج ان کی معزولی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اسکیانکی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصہ بعد لارڈ ہارڈنگ نے نومبر 1847 میں متنبہ کر دیا تھا کہ اگر سلطنت کے حالات میں سدھا رسدھار نہ ہوا تو کمپنی اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ لیکن 1849 میں جب کرنل سلیمن کو ریزیڈنٹ بناکر لکھنؤ بھیجا گیا تو اس کا اصل مقصد یہی تھا۔ بظاہر اس نے تین مہینے تک پوری ریاست کا دورہ کرنے کے بعد رعایا کی تباہ حالی اواور رکامکام کی سر کشیسرکشی لاقانونیت اواور رقتل،قتل، لوٹ مار کی کیفیات رپورٹ کی شکل میں مرتب کی تھی اور یہی اسکیانکی معزولی کا شاخسانہ بنی۔ جس کے باعث واجد علی شاہ کو اپنے لڑکے برجیس قدر کو 1857 میں تخت نشیں کر کے جلا وطن کر دیا گیا۔
 
== فنون لطیفہ سے دلچسپی ==
واجد علی شاہ نہایت رنگین مزاج حکمران تھا۔ وہ صرف اردو کا شاعر ہی نہیں تھا بلکہ اسے رقص و سرور کے رموز پر بھی کمال حاصل تھا۔ گانے، بجانے، ڈرامے، شاعری، راگ راگنی کا ماہر تھا۔ کتھک رقص کو اس نے از سر نو زندہ کیا تھا۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کو اس نے نہ صرف زندگی دی تھی بلکہ ان کے ماہرین کو بھی اس نے لکھنﺅ میں جمع کیا تھا۔ اسے یہ رموز استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں نے سکھائے تھے۔ ان تمام چیزوں کی تربیت اور ارتقاءکے لیے اس نے لکھنﺅ میں عالیشان قیصر باغ بارہ دری بنوائی جو آج بھی قائم ہے۔ اس نے خود کئی نئے راگ اور راگنیوں کی ایجاد کی۔ اتنا ہی نہیں اس نے تمام رموز پر الگ الگ کتابچے بھی لکھے تھے جن کی تعداد سو سے بھی زائد تھی۔