"قاری شریف احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق

پاکستانی سنی عالم دین ،قاری،مبلغ وخطیب،محقق ومصنف
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
بنیاد
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 06:20، 15 ستمبر 2020ء

استاذ العلماء والقراءحضرت مولانا قاری شریف احمد نوراللہ مرقدہ, کیرانہ, ضلع مظفر نگر میں ۱۳۳۲ھ / ۱۹۱۴ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حاجی نیاز احمد ابن حضرت پیر غلام محمد ایک دین دار تاجر تھے۔ آپ کے دادا حضرت پیر غلام محمد رحمہ اللہ اپنے وقت کے شیخ اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے۔


حضرت حافظ رحمت اللہ کیرانوی سے صرف دو سال کے عرصے میں شعبان المعظم ۱۳۴۶ھ / فروری ۱۹۲۸ء میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ سترہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ تروایح میں قرآن مجید سنایا۔

[1][2]

تصانیف:

          تصنیف وتالیف کا شغف اکابر دیوبند اور اساتذہٴ کرام سے ورثے میں ملا تھا، جو زندگی بھرباقی رہا۔ پاکستان بننے کے بعد اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کرنے کے لیے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن محدث دیوبندی علیہ الرحمہ کے شاگرد رشید حضرت مولانا محمد صادق سندھی رحمہ اللہ جو سندھ اور بلوچستان میں تحریک شیخ الہند کے معتمد رہنما تھے اور بڑے کارنامے انجام دیے تھے۔ ۱۹۰۹ء میں حضرت شیخ الہند نے حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے ساتھ جمعیت الانصار کے قیام سے تحریک کے نئے دور کے آغاز کے لیے انھیں بھی دیوبند بلایا تھا۔ جمعیت علمائے ہند کے قیام کے بعد سندھ میں وہی پہلے رہنما اور سربر آوردہ شخصیت تھے۔ سب سے پہلے ان ہی کی تحریک پر حضرت قاری صاحب نے اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کیا تھا، جس کی تکمیل میں پورے دو سال لگے تھے، کیوں کہ یہ نقشہ مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر مرتب ہوا۔ شہر کراچی میں بلاتفریق مسلک یہی نقشہ مساجد میں آویزاں تھا (۱) ۔ دار العلوم امجدیہ (بریلوی مسلک) اور دار العلوم کراچی کا مرتبہ نقشہ دراصل اسی کی نقل ہے، اس نقشے کو حضرت مولانا محمد صادق سندھی، حضرت مولانا فضل اللہ شکارپوری (خلیفہٴ مجاز حضرت حکیم الامت)، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع عثمانی، محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری، مفسر قرآن خطیب الامت حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی رحمہم اللہ جیسے اصحاب فضل وکمال کی تائید وتوثیق حاصل تھی۔

          کراچی کے ایک عالم دین حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی مرحوم نے ایک عرصے کے بعد حضرت قاری صاحب اور حضرت حاجی وجیہ الدین رحمہما اللہ تعالیٰ کے مرتب کردہ نقشوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ ان کی تحقیق یہ سامنے آئی کہ فجر (صبح صادق) مذکورہ بالا نقشے میں مقرر ومتعین وقت سے دس تا پندرہ منٹ بعد ہوتی ہے اور عشا کا وقت دس بارہ منٹ پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس پر اہل علم میں ایک عرصے تک خوب بحثیں چلیں اور خصوصاً رمضان المبارک میں یہ مسئلہ کھڑا کرایا جاتا۔ اخبارات کے مراسلے اسی مسئلے سے بھرے ہوئے ہوتے؛ لیکن حضرت مفتی اعظم پاکستان اور حضرت محدث العصر نے مفتی رشید احمد لدھیانوی کی تحقیق جدید پر صاد کیا تو حضرت قاری صاحب نے اس بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا اور نقشے کی اشاعت کو روک دیا۔

          حضرت قاری صاحب نے اس دینی خدمت کے ایک پہلو کو اپنی زندگی میں نمایاں نہیں ہونے دیا تھا؛ لیکن حضرت کی رحلت کے بعد اس کے منکشف کردینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ اس مرحلے میں حضرت قاری صاحب نے فیصلہ کیا کہ یہ مسئلہ اخبارات میں بحث کے ذریعے طے کرنے کے بجائے مناسب ہوگا کہ عملاً اس کا تجربہ دیدہٴ روشن سے اس کا مشاہدہ کرادیا جائے تاکہ حقیقت سے کسی کے گریز کی کوئی گنجایش باقی نہ رہے۔ اس کے لیے انہوں نے مشہور ماہر فلکیات حضرت پروفیسر عبد اللطیف مدظلہم کو آمادہ کیا کہ اکابر وقت کو صبح صادق کا مشاہدہ کرایا جائے۔ موصوف نے ۱۹۷۳ء میں اس کا اہتمام کیا اور سپر ہائی وے پر گڈاپ کے قریب، میر پور ساکرو، حنبھان سومرو نزد ٹنڈو محمد خان اور مدینہٴ منورہ میں مشاہدے کرائے۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ آج تک پاک وہند اور پوری دنیا میں جو اوقات نماز کے نقشے ہیں ان میں صبح صادق اور عشا کا وقت غلط ہے؛ اس لیے مدینہٴ طیبہ میں بھی مشاہدہ کیا گیا۔ ان مشاہدات میں حافظ عبد الرشید سورتی (تلمیذ حضرت قاری صاحب)، جناب محمد یامین (مکی مسجد)، جناب محمد رفیق، مولانا مفتی محمد شاہد، ماسٹر محمد رفیق، جناب محمد علی، مولانا عبدالقیوم، حضرت مولانا محمد یحییٰ مدنی مدظلہ، حاجی محمد امین (مکی مسجد)، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، حضرت مولانا مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ، مولانا قاری مفتاح اللہ مدظلہ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا ولی حسن ٹونکی، جناب عبد الستار پین والے، جناب انوار محمد (گورنمنٹ کالج ناظم آباد)، جناب محمد شمیم، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ، مولانا بشیر احمد (میسور، انڈیا) وغیرہ شریک رہے۔ پروفیسر صاحب مدظلہم کو ان مشاہدات کو کرانے میں تین سال لگے۔

          ان مشاہدات کے بعد حضرت مفتی اعظم پاکستان اور حضرت محدث العصر نے مفتی (رشید احمد لدھیانوی) صاحب کی تحقیق جدید سے رجوع کرلیا۔ یہ حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کے حسنات میں اہم ترین نیکی ہے، جس کی وجہ سے روزے اور نمازیں درست سمت کی طرف واپس آگئیں۔

          تفصیل کے لیے دیکھئے: حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ کی مرتب کردہ ”شرعی دائمی جنتری“ اور پروفیسر عبد اللطیف مدظلہم کی کتاب ”صبح صادق وصبح کاذب“۔

          دونوں بزرگوں کے رجوع کے بعد حضرت قاری صاحب نے نقشہ کی اشاعت دوبارہ شروع کردی۔ بحمد اللہ آج بھی اس کی اشاعت ہورہی ہے اور مساجد کے لیے فی سبیل اللہ وہ نقشہ دیا جاتا ہے۔

          حیدر آباد سندھ کے احباب نے بھی حضرت قاری صاحب سے حیدر آباد کا نقشہ مرتب کرایا تھا، جو وہاں چھپ بھی گیا تھا۔

          حضرت قاری صاحب کی تقریباً تین درجن سے زاید تالیفات دینی موضوعات پر نہایت مفید وموثر شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

$ قرآنیات:

۱-       ”تاریخ قرآن“۔ اس میں تاریخ نزول قرآن، اعجاز قرآن، جمع وتدوین قرآن، حفاظت قرآن اور اس کے مختلف ذرائع، اشاعتِ قرآن، تاثیرِ قرآن، فضائلِ قرآن، آدابِ تلاوتِ قرآن انتہائی اہم موضوعات ہیں۔ اس کی تکمیل حضرت قاری صاحب نے ۲۴/رمضان المبارک ۱۳۹۷ھ / ۹/ ستمبر ۱۹۷۷ء بہ روز جمعہ نزول قرآن کی یادگار شب میں فرمائی۔ ۱۴۲۵ھ / ۲۰۰۴ء میں راقم الحروف نے اس پر نظر ثانی اور اضافہ کیا۔ ان اضافوں میں علمائے دیوبند کی تجوید میں تدریسی خدمات، فن تجوید میں علمائے دیوبند کی تصنیفی خدمات، علمائے دیوبند میں فن تجوید وقرأت کے ماہر، علمائے دیوبند اور ترجمہٴ قرآن کریم، علمائے دیوبند اور تفاسیر قرآن، کتب تفاسیر کے تراجم، اصول تفسیر وعلوم القرآن میں علمائے دیوبند کی خدمات جیسے عنوانات وابواب شامل ہیں۔

۲-       ”قرآن کی فضیلت وعظمت“۔ اس میں قرآن کریم کے حفظ کی فضیلت، قرآن پڑھنے کے بعد اس کے یاد رکھنے کی فضیلت دل نشین انداز میں تحریر فرمائی ہیں۔یہ رسالہ رمضان المبارک ۱۳۸۴ھ / ۱۹۶۴ء میں تالیف فرمایا۔

۳-       ”آسان نورانی قاعدہ“۔ اس کی ترتیب ایسی آسان ہے کہ ایک مرتبہ اس کو کسی استاذ سے پڑھ لیا جائے تو قرآن مجید پڑھنا آسان ہوجاتا ہے۔

۴-       ”یسرنا القرآن“۔ یہ قاعدہ حضرت قاری صاحب نے اس زمانے میں مرتب فرمایا تھا، جب ”مکتبہٴ رشیدیہ“ قائم نہیں ہوا تھا۔ یہ سب سے پہلے حافظ عبدالمنان تھانوی نے شائع کیا تھا۔

$ حدیثیات:

۵-       ”چہل حدیث اور ان کی تشریح“۔ اس میں چالیس احادیث مبارکہ جو انتہائی اہم امور پر ہیں جمع فرمائی ہیں، بہت سے اسکول ومدارس میں شامل نصاب ہے۔

$ ارکانِ اسلام:

۶-       ”ترغیب الصلوٰة“۔ اس مختصر مگر اہم رسالے میں نماز کے فوائد، نہ پڑھنے پر وعیدیں جمع کی گئی ہیں۔

۷-       ”نماز کی کتاب“۔ احکام ومسائل پر مشتمل۔

۸-       ”نماز مترجم“۔ اسلام کے کلمے، اذان، وضو اور طریقہٴ نماز مع مسنون دعائیں۔ اس رسالے کا گجراتی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔

۹-       ”جنت کی کنجی“۔ نماز سے متعلق مسایل۔

۱۰-      ”شرعی دائمی جنتری“۔ نماز کے اوقات (کراچی کے لیے) اس کے اہم مسائل اور محکمہٴ موسمیات وعلمائے کرام کی تصدیقات۔

۱۱-      ”اوقاتِ نماز“ (حیدر آباد سندھ کے لیے)

۱۲-      ”تحفة الصیام“۔ اس میں روزے کی تاریخ، دیگر امتوں کا روزے سے تعلق، روزے کی فضیلت، روزے دار کی فضیلت، روزہ رکھنے کی فضیلت، نہ رکھنے پر وعیدیں، ان سب کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

۱۳-      ”فضائل الشہور والایام“۔ اس میں بارہ مہینوں کے فضائل، دِنوں کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اعمال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں، وہ ذکر فرمائے ہیں۔ تحفة الصیام اور فضائل الشہور والایام ایک ہی جلد میں دستیاب ہیں۔

۱۴-      ”اسلام کا نظام زکوٰة“ (دو حصے) اس میں نظام زکوٰة وعشر پر انتہائی عام فہم انداز میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

۱۵-      ”معین الحجاج“ (تین حصے) پہلے حصے میں ضروری ہدایات، دوسرے میں مسائل حج انتہائی آسان انداز میں، تیسرے حصے میں مدینہٴ منورہ اور مسجد نبوی کی فضیلت، روضہٴ اطہر پر حاضری کے آداب ومسائل بیان کیے گئے ہیں۔

۱۶-      ”معلومات حج“۔ یہ بھی حج کے مسائل پر تھی، جب ”معین الحجاج“ تالیف فرمائی تو اس کی اشاعت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

۱۷-      ”طریقہٴ حج“۔ یہ کتاب مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ حج کے مسائل کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ کم فرصت اور کم پڑھے لکھے زائرین کی سہولت کے لیے لکھی گئی۔ اس کتاب کا گجراتی اور سندھی میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔

۱۸-      ”طریقہٴ عمرہ“۔ عمرے کے مسائل پر مختصر، مگر جامع کتاب ہے۔ اس کا بھی گجراتی اور سندھی میں ترجمہ ہوا ہے۔

$ سیرت وسوانح:

۱۹-      ”ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“۔ اس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک حالات ولادت سے نبوت تک بیان کیے گئے ہیں۔

۲۰-     ”معراج رسول صلی اللہ علیہ وسلم“۔ حضور علیہ السلام کا سفرِ معراج اور اس میں پیش آنے والے واقعات سبق آموز انداز میں بیان کیے ہیں۔

۲۱-      ”سفر ہجرت کا حکم اور یارِ غار“۔

$ تاریخ وتذکرہ:

۲۲-     ”تاریخ حرمین شریفین“ (دو حصے) اس میں حرمین شریفین کے فضائل اور تاریخ بیان کی گئی ہے۔ حجاج کرام کے لیے بہترین تحفہ ہے۔

۲۳-     ”تذکرة الانبیاء علیہم السلام“ (دو جلد میں) اس میں ۲۸ جلیل القدر انبیائے کرام کا تذکرہ ہے، جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسرائیلی روایات سے پاک ہے۔

۲۴-     ”تذکرہٴ سیدنا حضرت عمر“۔ حالات زندگی اور خلافتی دور کے کمالات اور امورِ مملکت کی انجام دہی کاذکر ہے۔

۲۵-     ”تذکرہٴ سیدنا حضرت عثمان“۔ حالات زندگی اور خلافتی دور کے کمالات اور امور مملکت کی انجام دہی کاذکر ہے۔

۲۶-     ”مقام شیخ الاسلام“۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  کے مقام ومرتبے پر ایک کتاب جو مکمل نہیں ہوسکی، مسودے کی صورت میں ہے۔

$ فضائل:

۲۷-     ”فضیلت شعبان وشب برأت“۔ ۱۵/ شعبان المعظم کی فضیلت وعظمت اور صحابہ کے اقوال ومعمولات ذکر کیے گئے ہیں۔

۲۸-     ”فضائل ومسائل ماہ رمضان المبارک“۔

۲۹-     ”رمضان المبارک کا آخری عشرہ“۔

$ حقوق:

۳۰-     ”اسلام اور حقوق والدین“۔ اولاد کو مخاطب بنا کر انھیں بتلایا ہے کہ ان پر والدین کے کس قدر حقوق ہیں؟ ان کی خدمت پر کیا اجر ملتا ہے؟ ان کی نافرمانی سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتنے ناراض ہوتے ہیں؟

۳۱-      ”والدین پر اولاد کے حقوق“۔ والدین کو مخاطب بنا کر انھیں بتلایا ہے کہ آپ صرف یہی نہ سوچیں کہ اولاد پر ہمارے حقوق ہیں؛ کیوں کہ آپ کے ذمے بھی اولاد کے حقوق شریعت نے بتلائے ہیں۔

$ عمومی دینیات:

۳۲-     ”معلم الدین“۔ یہ حضرت قاری صاحب کی پہلی تالیف ہے۔ ابتدائی دینیات کی تفہیم کے لیے بے نظیر ہے اور انتہائی آسان بھی ہے۔ یہ کتاب سندھی، پنجابی، پشتو، فارسی اور انگریزی میں بھی شایع ہوئی ہے۔

۳۳-     ”تعلیم النساء“۔ اس میں عورتوں کی اصلاح کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ان کے مسائل نہایت سہل انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا سندھی، فارسی اور براہوئی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔

۳۴-     ”بچوں کے اسلامی اور اچھے نام“۔

۳۵-     ”مسنون ومقبول دعائیں“۔ یہ صبح وشام پڑھی جانے والی مسنون دعاوٴں کا مجموعہ ہے۔

۳۶-     ”توشہٴ نجات“۔ نفل نمازوں کے فضائل اور ان کے پڑھنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔

۳۷-     ”قنوتِ نازلہ، احکام ومسائل“۔

۳۸-     ”تعلیماتِ اسلام“ (دو حصے)۔ سوال وجواب کی صورت میں طہارت کے مسائل اور نماز کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔

۳۹-     ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“۔ اچھائی کا پھیلانا اور برائی کا روکنا اور اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔

۴۰-     ”راہ نجات“ (تین حصے)۔ موت سے پہلے، موت کے وقت اور موت کے بعد کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔

۴۱-      اس کے علاوہ حضرت مولانا محمد ابراہیم دہلوی کی کتاب ”احوالُ الصادقة فی اخبارِ الآخرة معروف بہ قیامت کا سچا فوٹو“ کی نظر ثانی اور اضافہ بھی فرمایا ہے۔

۴۲-     حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”دین کی باتیں“ کی تخریج بہشتی زیور سے فرمائی جو ”خلاصہٴ بہشتی زیور“ کے نام سے شایع ہوتی ہے۔

۴۳- رسالہٴ ”الابقاء“ جس میں حضرت تھانوی کے مواعظ شائع ہوتے تھے، ان میں جو فارسی اشعار آتے تھے ان کا ترجمہ حضرت قاری صاحب کے قلم سے ہوتا تھا۔

          حضرت قاری صاحب کی نصف درجن کتابیں جو اگر چہ اپنی ضخامت میں مختصر ہیں؛ لیکن افادیت اور تاثیر میں بے مثال اور ایسی مقبول عام ہوئیں کہ ان کے نہ صرف بیسیوں ایڈیشن چھپ چکے ہیں؛ بلکہ اردو کے علاوہ سندھی، پنجابی، پشتو ملکی زبانوں میں اور فارسی وانگریزی غیر ملکی زبانوں کے تین، چار اور پانچ زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہوچکے ہیں۔

  1. استاذ العلماء والقراءحضرت مولانا قاری شریف احمد نوراللہ مرقدہ http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1489987816%2011_Qari%20Sharif_MDU_8&9_Aug-Sep_11.htm
  2. معلم الدین,قاری شریف احمد, ریختہ https://www.rekhta.org/ebook-detail/muallimuddin-ebooks?lang=ur