"غزوہ بدر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:محمد بن عبد اللہ مدینہ میں
درستی
سطر 17:
{{Campaignbox Campaigns of Muhammad}}
 
'''غزوہ بدر''' {{دیگر نام|عربی=غزوة بدر الكبرى وبدر القتال ويوم الفرقان}} [[17 رمضان]] [[2ھ|2 ہجری]] بمطابق [[13 مارچ]] [[624ء]] کو [[محمد بن عبد اللہ|محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کی قیادت میں [[مسلمان]]وں اور [[ابوجہل|ابو جہل]] کی قیادت میں [[مکہ]] کے قبیلہ [[قریش]] اور دیگر عربوں کے درمیاں میں مدینہ میں جنوب مغرب میں [[بدر]] نامی مقام پر ہوا۔ اسے غزوہ بدر کبری بھی کہتے ہیں۔<ref name="الرحيق المختوم">[[الرحيق المختوم]]، [[صفی الرحمٰن مبارک پوری]]، الناشر: دار الهلال - بيروت، الطبعة الأولى</ref><ref>معجم اللغة العربية المعاصرة، أحمد مختار عبد الحميد عمر بمساعدة فريق عمل، عالم الكتب، الطبعة الأولى، 1429هـ-2008م</ref>
 
== اسباب ==
سطر 24:
=== قریش کی اسلام دشمنی ===
 
[[اسلام]] نے [[مکہ]] کی سرزمین میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کرکے داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا۔ لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام [[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور خود کو حضور [[صل اللہ علیہ وآلہ وسلم|صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم]] بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے تھے۔
 
=== تجارتی شاہراہ کا مسلمانوں کی زد میں ہونا ===
 
[[قریش]] مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے [[سرزمین شام|شام]] کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ [[بنو اوس]] کے مشہور سردار [[سعد بن معاذ]] جب طواف کعبہ کے لیے گئے تو [[ابوجہل]] نے [[خانہ کعبہ]] کے دروازے پر انہیں روکا اور کہا تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمہیں اطمینان کے ساتھ مکے میں [[طواف]] کرنے دیں؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے تھے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔
 
’’خدا کی قسم اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے اہم تر ہے یعنی مدینہ کے پاس سے تمہارا راستہ۔‘‘
سطر 34:
=== اشاعت دین میں رکاوٹ ===
 
[[حضرت محمد صلیبن عبد اللہ علیہ و الہ وسلم|حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] اور ان کے ساتھیوں کو [[مدینہ منورہ|مدینہ]] میں تبلیغ کرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے اور ان کی کوششوں سے [[بحرین]] کا ایک سردار [[عبدالقیس]] مدینہ کی طرف آ رہا تھا کہ [[قریش]] [[مکہ]] نے راستے میں اسے روک دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک خدا پرستی اور شرک میں ایک چیز ختم نہیں ہو جائے گی، کشمکش ختم نہیں ہوسکتی۔
 
=== عمر بن الحضرمی کا قتل ===
 
رجب 2 ھ میں [[حضرت محمد صلیبن عبد اللہ علیہ و الہ وسلم|حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] نے [[عبداللہ بن حجش]] کی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ [[قریش]] کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔ اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میں قریش مکہ کا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور دو گرفتار ہوئے۔ جب عبد اللہ [[حضرت محمد صلیبن عبد اللہ علیہ و الہ وسلم|حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے پاس پہنچے تو [[حضرت محمد صلیبن عبد اللہ علیہ و الہ وسلم|آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] نے اس واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ [[جنگی قیدی]] رہا کر دیے گئے اور مقتول کے لیے [[دیت|خون بہا]] ادا کیا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا نے بھی مقتول کا انتقام لینے کے لیے اہل [[مکہ]] کو [[مدینہ منورہ|مدینہ]] پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
 
=== مدینہ کی چراگاہ پر حملہ ===