"یسین مظہر صدیقی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 2:
'''پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ندوی''' (پیدائش: [[26 دسمبر]] [[1944ء]]، وفات: [[15 ستمبر]] [[2020ء]]) ایک ہندوستانی سنی مسلم اسکالر، مشہور سیرت نگار اور مؤرخ، [[دار العلوم ندوۃ العلماء]] کے فاضل تھے اور [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] میں شعبہ اسلامیات کے صدر تھے۔
 
== ابتدائی زندگی ==
== سوانح ==
پروفیسر مظہر صدیقی، [[برطانوی ہند کے متحدہ صوبے|برطانوی ہند]] میں ریاست [[اتر پردیش]] کے [[ضلع لکھیم پور کھیری]] کے گاؤں "گولا" میں 26 دسمبر سنہ 1944ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، بعد ازاں روایتی دینی تعلیم کے لیے [[لکھنؤ]] کے [[دار العلوم ندوۃ العلماء]] میں داخل ہوئے اور 1959ء میں وہاں سے عالمیت اور فضیلت مکمل کیا۔ 1960ء میں [[لکھنؤ یونیورسٹی]] سے فاضلِ ادب کیا۔ 1962ء میں [[جامعہ ملیہ اسلامیہ]]، [[دہلی]] سے ہائر سکینڈری کا امتحان پاس کیا، پھر اسی یونیورسٹی سے 1965ء میں بی-اے اور 1966ء میں بی-ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
محمد یٰسین مظہر صدیقی، 26 دسمبر 1944ء کو اُترپردیش میں پیدا ہوئے ۔ ہجری تقویم کے حساب سے تاریخ ولادت 1363ھ بنتی ہے اور مظہر صدیقی کے نا م سے مشہور ہوئے ۔اور یہ نام والد صاحب نے رکھا تھا، ان کی یہ روایت تھی کہ وہ اپنے بچوں کےنام تاریخی مناسبت سے رکھتے تھے۔ان کا نام مولوی انعام علی تھا اور اُنہیں 'بابا جان 'کہتے تھے
 
بعد ازاں انھوں نے [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] میں داخلہ لیا جہاں سے 1968ء میں ایم-اے تاریخ، 1969ء میں ایم-فل اور 1975ء میں تاریخ ہی کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان تینوں اداروں کی نسبت سے ڈاکٹر موصوف ندوی، جامعی اور علیگ تھے۔ جن اساتذہ کرام انھوں نے فیض پایا ان میں ہندوستان کی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔ ان میں سے [[ابو الحسن علی ندوی]]، [[خلیق احمد نظامی]]، اسحاق سندھلوی، [[عبد الحفیظ بلیاوی]]، [[سعید احمد خیرآبادی]]، [[عبد الوحید قریشی]]، غلام محمد قاسمی، مجاہد حسین زیدی اور [[محمد رابع حسنی ندوی]] شامل ہیں۔
اُنہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اسے عالم دین بناؤں گا۔ اللّٰہ تعالیٰ نےاُنہیں ان کی شکل میں بیٹا دے دیا۔ تعلیم کی ابتدا خود فرمائی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبہ گولا...جو کہ بڑا تاریخی قصبہ ہے ... میں حاصل کی جس کے بعد 1953ء میں لکھنؤ چلے گئے، ۔وہاں ندوۃ العلماء سے 1959ء میں 'عالم ' اور 1960ءمیں لکھنؤ یونیورسٹی سے 'فاضل ادب' کیا۔ اس کے بعد بابا جان کی خواہش پر شادی ہوگئی،
 
== تدریسی زندگی ==
اس کے بعد میڈیکل کی دکان پر بٹھا دیے گیے ۔باباجان نےمیڈیکل سٹور ان لیے کھولا تھا اس میں قطعاً دلچسپی نہ تھی ۔
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کے تدریسی سفر کا آغاز سنہ 1970ء سے ہوا۔ وہ [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] کے شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔ 1977ء میں ان کا تقرر اسی شعبہ میں بطور لیکچرار کے ہوا۔ 1983ء میں سید حامد صاحب ان کو علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے "ادارہ علوم اسلامیہ" میں لے آئے، 1991ء میں پروفیسر بنائے گئے۔ 1997ء سے 2000ء تک بطور ڈائریکٹر ادارہ علوم اسلامیہ فرائض سر انجام دیئے۔ 2001ء میں علوم اسلامیہ کے ذیلی ادارہ "شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل" کے ڈائریکٹر بھی بنا دیئے گئے۔ 31 دسمبر 2006ء میں ادارہ علوم اسلامیہ سے سبکدوش ہو گئے تاہم شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل کے ڈائریکٹر کے طور پر تقریباً دس سال کام کیا۔ اس دوران انھوں نے [[شاہ ولی اللہ|شاہ ولی اللہ محدث دہلوی]] کے مختلف پہلوؤں 2000ء سے 2010ء تک قومی و بین الاقوامی سیمینار منعقد کروائے اور 18 کے قریب چھوٹی بڑی کتب منصۂ شہور پر آئیں۔
 
اس طرح بعد میں جامعہ ملّیہ میں ہائیر سیکنڈری میں داخلہ لے لیا، 1960ء سے 1962ء تک ہائیر سیکنڈری کیا اور پھر بی اے میں داخلہ لے لیا۔ چونکہ سکالر شپ مل گیا تھا ، اس لیے بی اے میں بھی آسانی سے داخلہ مل گیا، اس کے بعد ایم اے میں داخلہ لیا ۔کچھ ساتھیوں نے بی ایڈ میں داخلہ لینا چاہا تو ان کا بھی فارم بھر دیا حالانکہ بی ایڈ کا ارادہ نہیں تھا ۔ جامعہ ملیہ میں بی ایڈ کی تعلیم بہت اچھی دی جاتی ہے، آج بھی وہاں کا ٹیچر ٹریننگ کالج بہت مشہور ہے ۔ جب اس میں داخلہ ٹیسٹ ہوا تو انہوں نے ٹاپ کیا اور اس میں بھی سکالر شپ ملا ۔ اس کے بعد 1968ء میں ایم اے تاریخ کےلیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔1969ء میں ایم فل اور 1970ء میں ملازمت مل گئی ۔ 1975ء میں پی ایچ ڈی مکمل ہوئی ۔ اس طرح ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی علی گڑھ سے کیے ۔ شعبۂ تاریخ میں تقرر ہوا تھا۔ 14سال سروس کے بعد 1983ء میں شعبہ علوم اسلامیہ میں ریڈر ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیے گیے ۔ 1991ء میں پروفیسر ہوگئے۔
 
== تصانیف ==