"گجرات فسادات (2002ء)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
Sakku816 (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 4158968 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
(ٹیگ: رد ترمیم)
Sakku816 (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 4158967 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
(ٹیگ: رد ترمیم)
سطر 3:
|سلسلۂ_محارب= ہندو مسلم فسادات
|تصویر = [[فائل:Ahmedabad riots1.jpg|300px]]
|بیان= 2002ء [[احمد آباد]] کا ایک منظر جب گھروں کو جلا کے دن میں دھواں اور رات میں اجالے کیۓ گئے
|بیان=
|تاریخ= [[2002ء]]
‎2002 گجرات پر تشدد ہندوستانی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002 میں اجتماعی قتل عام اس وقت شروع ہوا جب 27 فروری 2002 کو ، ایودھیا سے واپس آنے والے ہندوتوا سے وابستہ 59 ہندوؤں کو گوڈرا اسٹیشن پر واقع سبرمتی ٹرین میں آگ لگنے سے ہلاک کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ اسٹیشن پر کار میں حاضر افراد اور ایک مسلمان چلنے والے کے مابین جھگڑے کے بعد پیش آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے ٹرین کے ایک خاص ڈبے کو نذر آتش کردیا ، اسی بہانے سے فرقہ پرست عناصر نے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ تشدد کی فضا پیدا کردی۔ کچھ مفسرین نے اس کو انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔ دوسرے مبصرین نے اس وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پُرتشدد حملے بے ساختہ نہیں تھے بلکہ منصوبہ بند ، اچھی طرح سے مربوط تھے اور ٹرین کی کار میں آگ لگنے سے تشدد کا قص ofہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔ اس وقت کی گجرات حکومت نے اپنے ریاستی مذہب پر عمل نہیں کیا تھا۔ اس میں 790 مسلمان اور 254 ہندو ہلاک ہوئے۔ بہت ساری مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر اور بے روزگار ہوگئے۔
|مقام= [[گجرات]]، [[ہندوستان]]
|خطۂ_اراضی=
|نتیجہ= لاتعداد بےگھر اور لاوارث
|متحارب1= مسلمان
|متحارب2= ہندو
|متحارب3=
|قائد1= گجراتی مسلمان
|قائد2= ہندو (درپردہ ریاست)
|قائد3=
|قوت1= گھریلو اشیاء، جھاڑو، برتن اور جو ہاتھ میں ہو
|قوت2= نیزے، تلواریں، پیٹرول اور آتشی ہتھیار تک
|قوت3=
|نقصانات1=2500 ہلاک (قتل عام)؛ یتیموں، بیواؤں، بےگھروں اور مہاجرین کی کھیپ تیار
|نقصانات2= 254 غنڈے اور دہشتگرد ہلاک
|نقصانات3=
|تذکرہ=
}}
{{بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد}}
[[بھارت]] کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے یہ فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب [[گودھرا ریل آتشزدگی]] سے 59 انتہاپسند [[ہندو مت|ہندو]] ہلاک ہو گئے۔ اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔
 
ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ بلکہ گجرات کے وزیر اعلی مودی نے اس قاتل و غارت کی سرپرستی کی۔<ref>
[http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2007/10/25/AR2007102501758.html واشنگٹن پوسٹ، 25 اکتوبر 2007ء،] "Hindu activists accuse their leader in India riots"
</ref>
اس وقت کی بھارت کی وفاقی حکومت، جو بی۔ جے۔ پی۔ پارٹی کی تھی، اس نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہیں کی۔
 
اب تک کسی ہندو کے خلاف عدالتی کاروائ نہیں کی گئی۔ [[یورپی اتحاد|یورپی یونین]] نے اس نسل کشی پر کھلے عام احتجاج کرنے سے گریز کیا اور یہی طرز عمل [[ریاستہائے متحدہ امریکا|امریکہ]] کا بھی رہا۔ اب بھی مسلمان اس ریاست میں مہاجروں کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔
‎قتل عام اور آتش زنی کو روکنے کے لئے ، پولیس نے تماشائی یا قاتل کا کردار ادا کیا۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے اور اٹل بہاری واجپئی مرکز میں بی جے پی کی زیرقیادت حکومت کے وزیر اعظم تھے۔
 
== مزید دیکھیے ==