"عباسہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
سطر 7:
| birth_date = 154ھ [[کوفہ]]
| وفات = نامعلوم
| بھائی = [[موسیٰ الہادی]] ، [[ہارون الرشید]]
| شوہر = محمد بن سلیمان بن علی ،علی، ابراہیم بن صالح بن علی
}}
آپ کے والد ماجد'''عباسہ''' تیسرے عباسی خلیفہ المہدی باللہ اور والدہام ایکولد امکے ولدبیٹے تھیں۔تھے۔ آپعباسہ ماں کی طرف سے اکلوتی اولاد تھیں۔تھے۔
== تعارف ==
آپ کا اسم گرامی عباسہ ہے۔
آپ کے والد ماجد تیسرے عباسی خلیفہ المہدی باللہ اور والدہ ایک ام ولد تھیں۔ آپ ماں کی طرف سے اکلوتی اولاد تھیں۔
 
=== بہن بھائی ===
آپعباسہ کے بھائیوں میں موسی الہدی ،الہدی، مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید ،الرشید، علی بن المہدی باللہ ،باللہ، عبیداللہ بن المہدی باللہ ،باللہ، یعقوب بن المہدی باللہ ،باللہ، اسحاق بن المہدی باللہ اور ابراہیم بن المہدی باللہ تھے اور بہنوں میں بانوقہبانوقہ، ، عالیہ ،عالیہ، منصورا اور سلیمہ شامل تھیں۔ <ref>تاریخ ملت مولف مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی ،میرٹھی، انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی جلد دوم صفحہ 165</ref>
 
== ابتدائی حالات ==
=== پیدائش ===
آپعباسہ کی پیدائش 154ھ میں کوفہ میں ہوئی۔
 
=== تعلیم و تربیت ===
آپعباسہ کی [[تعلیم و تربیت]] اعلیاعلیٰ پیمانے پر ہوئی۔ آپعباسہ نے اس درجہ تجبر حاصل کر لیا تھا کہ آپ قرآن پاک کی تفسیر اور شرح ایسی عمدگی سے کرتی تھیں کہ بڑے بڑے علما حیران رہ جاتے تھے۔ آپعباسہ قرآن پاک کی تلاوت بھی نہایت سوز اور خوش الحانی سے کرتی تھیں۔ آپ شعر و شاعری میں بھی شوق رکھتی تھیں۔
 
== ازواجی زندگی ==
آپعباسہ کی پہلی شادی '''محمد [[بن سلیمان]] بن علی''' عباسی سے بعہد خلیفہ ہارون الرشید ہوئی۔ ہارون الرشید نے آپعباسہ کے شوہر کو بصرہبصرہ، ،بحرین، بحرینفارس، ، فارس ، اہواز ،اہواز، عمان اور یمامہ کا حاکم (گورنر) بنایا تھا۔ آپعباسہ کے پہلے شوہر کی وفات 172ھ میں بمقام بصرہ ہوئی۔ آپعباسہ کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد نہیں تھی۔
پہلے شوہر کی وفات کے بعد ہارون الرشید نے آپعباسہ کا دوسرا نکاح '''ابراہیم بن صالح بن علی''' سے کر دیا وہ بھی کچھ عرصہ بعد وفات پا گئے۔
 
== ہارون الرشید کے ساتھ تعلق ==
سطر 34 ⟵ 33:
 
== اوصاف ==
آپعباسہ حسن صورتصورت، ، ذہانت ،ذہانت، سلیقہ شعاری اور معاملہ فہمی جیسے خاص اوصاف کی مالک تھیں۔ <ref>تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 141 اور 142</ref>
 
== غلط فہمی کا ازالہ ==
عباسہ کے متعلق ایک غلط واقعہ مشہور ہے جس کی شہرت اردو زبان میں بھی ناول اور رسائل کے ذریعے ہوئی اس کا ماخذ تاریخ کبیر مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری المتوفی 310ھ ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک برابر مورخین ایک دوسرے سے اس واقعہ کو نقل کرتے چلے آتے ہیں لیکن کسی نے اس کی تنقید و تحقیق کی طرف توجہ نہیں دی۔ علامہ طبری نے جن الفاظ سے اس واقعہ کی روایت کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو خود اس روایت پر یقین نہیں تھا۔ وہ لکھتے ہیں
'''قد خدشی احمد بن زھیر احسہ عن عنہ زاھر بن حرب ان سب ہلاک جعفر وابرامکۃ ان الرشید کان لا یصبر عن جعفر وعن اختہ عباسہ بنت المہدی وکان یحضر ھما اذا جلس للشراب فقال لجعفر ازوجکھا لیحن لک النظر ولا یکون منھا شے سما یکون للرجال الی زوجنہ فروجھا منہ علی ذلک'''۔
* ترجمہ: مجھ سے احمد بن زہیر نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت اس نے اپنے چچا زاہر بن حرب سے کی ہے کہ سبب ہلاکت جعفر اور برامکہ کا یہ ہے کہ رشید کو بغیر جعفر اور برامکہ اور اپنی بہن عباسہ بنت المہدی کے ایک ساعت صبر نہیں آتا تھا اور یہ دونوں شراب نوشی کے جلسہ میں شریک ہوا کرتے تھے اس لیے رشید نے جعفر سے کہا کہ میں عباسہ کا عقد تمہارے ساتھ کیا چاہتا ہوں تا کہ تم کو اس کا دیکھنا مباح ہو جائے لیکن زن وشوی کے تعلقات نہ ہوں ،ہوں، چنانچہ اس شرط پر عباسہ کا عقد جعفر سے کر دیا۔
اس واقعہ کی روایت طبری نے احمد بن زہیر سے کی ہے اور احمد بن زہیر نے جس سے روایت کی اس کا حال خود طبری کو معلوم نہیں۔
* اس واقعہ کو '''اعلام الناس''' صفحہ 153 میں بروایت ابراہیم بن اسحاق نے نقل کیا ہے اور اصل راوی کا نام ابو ثور زہیر بن صقلاب اور بجائے عباسہ کے میمونہ کا نام لکھا ہے جبکہ المہدی باللہ کی کسی بیٹی کا نام میمونہ نہیں۔
<ref>تاریخ ابن خلدون مولف علامہ عبدالرحمان ابن خلدون جلد سوم صفحہ 116 اور 117</ref>
علامہ طبری نے مذید اس واقعے متعلق آگے لکھا ہے کہ چونکہ عباسہ جعفر کی محبت میں چور ہو چکی تھی اس لیے اس نے خلوت کی ایک تدبیر سوچ لی اور جعفر نے عباسہ سے صحبت کر لی۔ عباسہ حاملہ ہو گئی ،گئی، اس بات کی خبر رشید کو ہو گئی اس نے برامکہ کو عہدوں سے الگ کر کے قتل کر دیا۔
کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو عباسہ علمی مقام ،مقام، اس کی حرمت ،حرمت، اس کے والدین کا مذہبی رتبہ دوسری طرف یہ ناشائستہ حرکت؟
عباسہ کون ہے؟ خلیفہ المہدی باللہ کی بیٹی ،بیٹی، ابو جعفر النصور کی پوتی ،پوتی، محمد بن علی کی پڑوتی علی بن عبد اللہ بن عباس خلفاء کے باپ آپ کے تیسری پشت کے دادا اور ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس آپ کے چوتھی پشت کے دادا ہیں۔
آپ حکومت سے خلافت نبویہ سے ،سے، محبت رسول سے ،سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومت سے گھری ہوئی ہیں اور مذہب کا احترام ،احترام، وحی کا نور ،نور، فرشتوں کا نزول آپ کے چاروں طرف چھایا ہوا ہے اور آپ کا زمانہ عربوں کی بدویت اور دینی سادگی کے قریب ہے۔
آپ کا زمانہ عیاشانہ عادتوں شرمناک گناہوں سے دور ہے۔
دوسری طرف جعفر کون تھا؟ جعفر کا دادا فارسی غلام تھا اس کے باپ چچا کو کو چار چاند عباسیوں نے لگائے۔ عباسہ کا دادا حضرت عباس بن عبد المطلب رسول اللہ کے چچا تھے۔ ہارون الرشید جعفر سے رشتہ کرنے پر کیسے راضی ہو سکتا ہے جو جعفر ایک عجمی غلام تھا اور رشید عباسی خلفاء میں بلند ہمت ،ہمت، عالی حوصلہ خلیفہ تھے۔ وہ کیسے ایک شہزادی کا عقد ایک غلام زادے سے کر سکتے تھے۔ <ref>مقدمہ ابن خلدون مولف علامہ عبدالرحمن ابن خلدون صفحہ 122 اور 123</ref>
عباسہ پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ شیعہ مورخین نے لگایا علامہ طبری نے جس احمد بن زہیر سے واقعہ روایت کیا ہے وہ نیم شیعہ تھا۔ <ref>تاریخ ملت مولف مفتی زین العابدین سجاد میرٹھی ،میرٹھی، انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی جلد دوم صفحہ 166</ref>
اصل میں یہ واقعہ عباسی خواتین کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے کیونکہ اس واقعہ کی اصل طبری سے پہلے کے مورخین میں نہیں ملتی۔ '''اردو دائرہ معارف اسلامیہ''' میں یہ عبارت ملتی ہے: عباسہ کی یکے بعد دیگر تین شادیاں ہوئیں مگر تینوں شوہروں کا انتقال عباسہ کی زندگی میں ہی ہو گیا۔ <ref>تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 142</ref>