"عباسہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
JarBot (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
درستی |
||
سطر 7:
| birth_date = 154ھ [[کوفہ]]
| وفات = نامعلوم
| بھائی = [[موسیٰ الہادی]]
| شوہر = محمد بن سلیمان بن
}} ▲آپ کے والد ماجد تیسرے عباسی خلیفہ المہدی باللہ اور والدہ ایک ام ولد تھیں۔ آپ ماں کی طرف سے اکلوتی اولاد تھیں۔
=== بہن بھائی ===
== ابتدائی حالات ==
=== پیدائش ===
=== تعلیم و تربیت ===
== ازواجی زندگی ==
پہلے شوہر کی وفات کے بعد ہارون الرشید نے
== ہارون الرشید کے ساتھ تعلق ==
سطر 34 ⟵ 33:
== اوصاف ==
== غلط فہمی کا ازالہ ==
عباسہ کے متعلق ایک غلط واقعہ مشہور ہے جس کی شہرت اردو زبان میں بھی ناول اور رسائل کے ذریعے ہوئی اس کا ماخذ تاریخ کبیر مولف ابو جعفر محمد بن جریر طبری المتوفی 310ھ ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک برابر مورخین ایک دوسرے سے اس واقعہ کو نقل کرتے چلے آتے ہیں لیکن کسی نے اس کی تنقید و تحقیق کی طرف توجہ نہیں دی۔ علامہ طبری نے جن الفاظ سے اس واقعہ کی روایت کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو خود اس روایت پر یقین نہیں تھا۔ وہ لکھتے ہیں
'''قد خدشی احمد بن زھیر احسہ عن عنہ زاھر بن حرب ان سب ہلاک جعفر وابرامکۃ ان الرشید کان لا یصبر عن جعفر وعن اختہ عباسہ بنت المہدی وکان یحضر ھما اذا جلس للشراب فقال لجعفر ازوجکھا لیحن لک النظر ولا یکون منھا شے سما یکون للرجال الی زوجنہ فروجھا منہ علی ذلک'''۔
* ترجمہ: مجھ سے احمد بن زہیر نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت اس نے اپنے چچا زاہر بن حرب سے کی ہے کہ سبب ہلاکت جعفر اور برامکہ کا یہ ہے کہ رشید کو بغیر جعفر اور برامکہ اور اپنی بہن عباسہ بنت المہدی کے ایک ساعت صبر نہیں آتا تھا اور یہ دونوں شراب نوشی کے جلسہ میں شریک ہوا کرتے تھے اس لیے رشید نے جعفر سے کہا کہ میں عباسہ کا عقد تمہارے ساتھ کیا چاہتا ہوں تا کہ تم کو اس کا دیکھنا مباح ہو جائے لیکن زن وشوی کے تعلقات نہ
اس واقعہ کی روایت طبری نے احمد بن زہیر سے کی ہے اور احمد بن زہیر نے جس سے روایت کی اس کا حال خود طبری کو معلوم نہیں۔
* اس واقعہ کو '''اعلام الناس''' صفحہ 153 میں بروایت ابراہیم بن اسحاق نے نقل کیا ہے اور اصل راوی کا نام ابو ثور زہیر بن صقلاب اور بجائے عباسہ کے میمونہ کا نام لکھا ہے جبکہ المہدی باللہ کی کسی بیٹی کا نام میمونہ نہیں۔
<ref>تاریخ ابن خلدون مولف علامہ عبدالرحمان ابن خلدون جلد سوم صفحہ 116 اور 117</ref>
علامہ طبری نے مذید اس واقعے متعلق آگے لکھا ہے کہ چونکہ عباسہ جعفر کی محبت میں چور ہو چکی تھی اس لیے اس نے خلوت کی ایک تدبیر سوچ لی اور جعفر نے عباسہ سے صحبت کر لی۔ عباسہ حاملہ ہو
کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف تو عباسہ علمی
عباسہ کون ہے؟ خلیفہ المہدی باللہ کی
آپ حکومت سے خلافت نبویہ
آپ کا زمانہ عیاشانہ عادتوں شرمناک گناہوں سے دور ہے۔
دوسری طرف جعفر کون تھا؟ جعفر کا دادا فارسی غلام تھا اس کے باپ چچا کو کو چار چاند عباسیوں نے لگائے۔ عباسہ کا دادا حضرت عباس بن عبد المطلب رسول اللہ کے چچا تھے۔ ہارون الرشید جعفر سے رشتہ کرنے پر کیسے راضی ہو سکتا ہے جو جعفر ایک عجمی غلام تھا اور رشید عباسی خلفاء میں بلند
عباسہ پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ شیعہ مورخین نے لگایا علامہ طبری نے جس احمد بن زہیر سے واقعہ روایت کیا ہے وہ نیم شیعہ تھا۔ <ref>تاریخ ملت مولف مفتی زین العابدین سجاد
اصل میں یہ واقعہ عباسی خواتین کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے کیونکہ اس واقعہ کی اصل طبری سے پہلے کے مورخین میں نہیں ملتی۔ '''اردو دائرہ معارف اسلامیہ''' میں یہ عبارت ملتی ہے: عباسہ کی یکے بعد دیگر تین شادیاں ہوئیں مگر تینوں شوہروں کا انتقال عباسہ کی زندگی میں ہی ہو گیا۔ <ref>تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین مولف طالب الہاشمی صفحہ 142</ref>
|