"جدید عربی ادب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
جدید عربی ادب پر سابقہ تحریر میں بہت چیزیں شامل کرنی ہے۔مجھ سے جہاں تک ہوسکا،کوشش کی ہے اورآئندہ بھی اس میں مزید اضافہ کی کوشش کروں گا۔
 
م خودکار: درستی املا ← ۔، ادبا، اور
سطر 1:
جدید عربی ادب کا باقاعدہ طورپر  1801ء سے شروع ہوتاہے اورموجودہ عہد تک آتاہے۔اس دور میں عربی ادب نے دوبارہ اپنی مقبولیت بحال کی اور تخلیق کے نت نئے زاویے کے ساتھ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا۔اس دور میں کچھ نئی اصناف بھی عربی ادب کاحصہ بنیں،مثال کے طور پر افسانہ ،ڈراما اورناول پہلی بار عربی ادب میں تخلیق ہوئے۔
 
یہ دور بھی اب تک دوسوسال کاہوچکا ہے۔اس عرصے میں شعرا اور ادباءادبا کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے تاہم چند ایک نام ایسے ہیں ،جن کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ان شاعروں میں،احمد شوقی،حافظ ابراہیم،خلیل مطران جب کہ ادیبوں میں،طحہٰ حسین،احمدامین،احمد حسن الزیات،عباس محمودالعقاد،محمد حسین ہیکل،توفیق الحکیم،نجیب محفوظ اورطیب صالح کے نمایاں نام ہیں۔حالیہ شعری منظر نامے پرمحمود درویش،سمیح القاسم اورنزار قبانی کے نام بہت مقبول ہیں۔مصر کے نجیب محفوظ کو1988ء میں نوبیل ادبی انعام سے بھی نوازا گیا۔یہ واحد مسلمان مصنف ہیں،جنہوں نے ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا اور ان کی شہرت پوری دنیا میں ہے۔
 
اردو زبان میں عربی ادب کے حوالے سے ’’محمد کاظم‘‘کی کتابیں بہت آگاہی دیتی ہیں۔ ’’انھوں نے عربی ادب کی تاریخ ‘‘اور’’عربی ادب کے مطالعے‘‘‘کے عنوان سے دو کتابیں لکھی ہیں ان کو پڑھ کر عربی ادب کی تفاصیل جاننے میں مدد ملتی ہے۔عربی ادب کی تاریخ میں دورِ جہالت شاعری کی ابتدا کے حوالے سے محمد کاظم ایک جگہ لکھتے ہیں ’’گمان کیا جاتا ہے کہ عربوں کے ہاں پہلے ’’سجع‘‘کارواج پڑا،یعنی ایسے جملے بولنا جو ہم قافیہ ہوں اور سننے والے کے کانوں کو بھلے لگیں۔سجع سے ترقی کرکے وہ ’’رَجز‘‘کہنے لگے،جو ایسا موزوں کلام ہوتا ہے،جس کے مضمون اورصوتی زیروبم سے سننے والے کے اندر جوش خروش پیداہوتاتھا اور انسان جنگ کے میدان میں بہادری کے جوہر دکھاتاتھا ۔ رجز سے آگے بڑھے،تو عربوں نے باقاعدہ قصیدہ نظم کرنا شروع کیا اوراس طرح جاہلی شاعری وجود میں آئی۔مسجع کلام کاہن اور پروہت لوگ استعمال کرتے تھے۔اس سے وہ اپنے معبودوں کے حضور دعاکرتے تھے اور اس سے اپنے سامعین پر اثر ڈالتے تھے۔اس کے بعد جب عربوں کو گنگنانے اورگانے کا شوق ہوا اورشاعری عبادت گاہوں سے نکل کر کھلے صحرا میں آئی،تو اس سے رجز اورحُدی کاکام لیاجانے لگا۔رجز لڑنے والوں کو جوش دلانے کے لیے ہوتا تھا اورحُدی سواری کے اونٹوں کو تیز چلنے پر اکساتی تھی۔‘‘<ref>{{Cite web|url=|title=|date=|accessdate=https://www.rekhta.org/ebooks/arbi-zaban-o-adab-ek-tareekhi-mutala-khalid-hamidi-ebooks?lang=ur|website=|publisher=|last=|first=}}</ref>
سطر 7:
عربی ادب میں کئی طرح کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ ابتدائی دور میں یہ بتوں کی پرستش اورقدیم رسم ورواج کی عکاسی کرتاہے۔بعد کے ادوار میں یہ جنگی، علمی، رومانوی، سیاسی اوردیگر رنگوں سے آشنا ہوتاہے۔عربی شعروادب کے کینوس پر کہیں خوشی اورمسرت کے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں اورکہیں یاس اوراذیت بھی اپنا چہرہ لیے اس میں جھلکتی ہے۔ عہدِ حاضر  میں فلسطین کی حالت زار سے متعلق بھی کچھ ایسا ہی دکھ ہے،جس کا اظہار بارہا عربی شاعری میں ہوتا ہے۔
 
اس حوالے سے ایک عالم گیر شہرت کا حامل شاعر’’محمود درویش ‘‘اس حالت زار کا عینی شاہد تھا۔یہ اپنے ہی وطن میں جنگ کے ہاتھوں مہاجر بنا۔یہ جب فلسطین میں تھا،تو اس کی رہائش جلیلی میں تھی،پھر اسرائیل میں رہنے کے بعد یہ بیروت آگیا،یہاں سے پھر پیرس چلا آیا اورآخری سانس تک یہیں رہا۔اس نے لوٹس،لینن اورنائٹ آف دی آڈرآف آرٹس اینڈ لیٹرز (فرانس کا ثقافتی اعزاز)اعزازات حاصل کیے۔ درجنوں کتابیں لکھیں ۔شاعریلکھیں۔شاعری اورنثر میں بے حساب کام کیا۔ بحیثیت شاعر اس کو بہت شہرت ملی۔یہ ہمارے شاعر احمد فراز کا ہم عصر اوراسی مزاج کا شاعر تھا۔دونوں کی تاریخ وفات میں بھی کچھ زیادہ عرصے کا فرق بھی نہیں ہے۔
 
عربی ادب میں ناول نگار کے طور پر ’’نجیب محفوظ‘‘سے جدید ادبی دنیا واقف ہے،جب کہ شاعری میں ’’محمود درویش ‘‘کے مصرعوں کو سننے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ طہٰ حسین جیسے بڑے لکھنے والوں کو بھی کوئی فراموش نہیں کرسکتا اور خلیل جبران بھی عربی ادب کا ایک لکھاری تھا اور اس کو پڑھنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں اوراس کو چاہتے بھی ہیں۔ محمود درویش اپنی ایک نظم’’شناختی کارڈ‘‘میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے ۔
 
’’لکھو،کہ میں ایک عرب ہوں،اورمیرے کارڈ کانمبر پچاس ہزار ہے،میرے بچے آٹھ ہیں،اورنواں،اس گرما کے بعد آنے والا ہے،کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگی۔لکھو،میں ایک عرب ہوں،پتھروں کی ایک کان میں ،اپنے جفاکش ساتھیوں کے ساتھ محنت کرتاہوں،میرے بچے آٹھ ہیں،ان کے لیے میں چٹان تلے سے روٹی کھینچتا ہوں،ہوں اور کپڑے، کتابیں اورکاپیاں،میں در پر خیرات کا وسیلہ نہیں ڈھونڈتا،نہ تمہاری سرزنش کی دہلیز پر،اپنے آپ کو چھوٹاہونے کی دعوت دیتا ہوں،کیا تم کو میری یہ بات بہت بُری لگی ہے؟‘‘