"محمد شفیق الرحمان حقانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م خودکار: درستی املا ← دیے، ئے، کوئی
سطر 7:
 
== تعلیم ==
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ آپ کنڈاؤ مولوی صاحب آف آمازئ سے پڑھتے رہے۔ والد کی خاندان سمیت مسلم آباد ، شیر علی کورونہ ، گوہاٹی منتقلی کے بعد آپ کو پرائمری سکول فردوس آباد ، چارباغ میں داخل کرایا گیا۔ جہاں سے آپ نے چھارم جماعت پاس کیا۔ اگرچہ آپ اپنے سکول کے انتہائ ذہین و فطین طالب علم تھے اور آپ کے سکول کے اساتذہ کی خواہش تھی کہ یہ بچہ اپنا عصری تعلیمی سلسلہ جاری رکھے لیکن آپ کے والد محترم جو خود جید عالم دین تھے اور علما کرام اور دینی طبقے سے بے حد محبت کرتے تھے ، اپنے بیٹے کو عالم دین بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے اسے ایک بار پھر دینی تعلیم کی راہ پر لگایا گیا۔ ابتدائی دینی کتابیں گھر پر پڑھنے کے بعد مذید دینی تعلیم کے حصول کے لیے آپ کو اپنے زمانے کے مشہور دینی درس گاہ شیخ الدیث و بانی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک مولانا عبدالحقؒ کے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک بھیج دیۓدیے گۓگئے جہاں سے آپ نے 1965ء میں دورہ حدیث کی سند حاصل کی۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی بنیاد شیخ عبدالحق نے 1947ء میں رکھی تھی۔ مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی 1957ء سے 1965ء تک مسلسل آٹھ سال تک دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھتے رہے۔ آپ شیخ عبد الحقؒ کے اولین اور قابل ترین شاگردوں میں تھے۔<ref>سند دورہ حدیث مولانا محمد شفیق الرحمان، 1965</ref> دورہ تفسیر آپ نے مولانا محمد طاہر پنج پیریؒ سے آپ کے انقلابی طرز پر پڑھا. آپ مولانا محمد طاہر پنج پیری کے بھی اولین اور قابل ترین شاگردوں میں سے تھے۔ مولانا پنج پیری سے آپ نے توحید والسنہ اور رد شرک والبدعہ کا سبق سیکھا جسے آپ مرتے دم تک پڑھاتے رہے۔ آپ کے دیگر ممتاز اساتذہ کرام اور شیوخ میں مارتونگ باباجی ، مولانا عبدالحلیم زروبوی ، مفتی یوسف بونیری ، شیخ الدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ ، مولانا غلام اللہ خان راولپنڈی ، مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری گجراتی ، جو آپ کے پیر و مرشد بھی تھے ، قاضی نور محمد اور قاضی شمس الدین شامل ہیں۔ آپ کو اپنے جملہ اساتذہ کرام سے بہت پیار تھا۔ اساتذہ بھی اپنے اس ذہین ترین طالب علم سے شفقت فرماتے تھے۔ آپ کے جامعہ حقانیہ کے ایک استاد شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ آپ کے نام ایک خط میں آپ کو مخاطب کرتے ہوۓہوئے لکھتے ہیں کہ ”ہمیں آپ کی دینی و تدریسی خدمات پر فخر ہے۔ ہم آپ جیسے اپنے قابل اور ذہین ترین طالب علموں کو بھولتے نہیں“۔ علوم دین کے حصول سے فراغت کے بعد آپ مرتے دم تک مختلف دینی مدارس اور مساجد میں قرآن و حدیث اور توحید والسنہ کا درس دیتے رہے۔ آپ داعئ توحید والسنہ اور قاطع شرک والبدعہ تھے۔ توحید و سنت کی اشاعت ، شرکیات و بدعات اور غیر اسلامی و جاہلانہ و ہندوانہ رسومات اور توہم پرستانہ خیالات کا خاتمہ آپ کی زندگی کا مشن اولین تھا۔ جس میں آپ کافی حد تک کامیاب رہیں۔ آپ کی کوششوں کی بدولت آپ کے علاقے میں بہت ساری شرکیات ، بدعات ، توہمات اور جاہلانہ رسومات کا خاتمہ ہوا۔ آپ اس علاقے کے پہلے عالم دین تھے جس نے شرکیات ، بدعات اور جاہلانہ رسومات کا ببانگ دھل اور علی الاعلان رد کیا۔ قپل ازیں یہ علاقہ شرکیات ، بدعات اور جاہلانہ رسومات کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور کوئکوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تھا۔ اس سلسلے میں آپ نے بے شمار صغوبتیں بھی برداشت کیں لیکن آپ اللہ رب العزت اور پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ مرتے دم تک آپ نے دروس قرآن اور دروس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔ چالیس سال تک فی سبیل اللہ کامونکی، قلعہ دیدار سنگھ ، مسلم آباد ، گوہاٹی اور چارباغ ، صوابی میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیے۔ ساتھ انتیس سال تک آپ محکمہ تعلیم خیبر پختون خوا میں معلم اسلامیات کی حیثیت سے جی ایچ ایس آدینہ ، جی ایچ ایس نمبر 1 سلیم خان اور جی ایم ایس باکر ، صوابی میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔ آپ کے ہزاروں شاگرد آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ 1965ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج گوہاٹی ، صوابی میں علاقے کے بزرگوں کی مشاورت سے عید گاہ کی بنیاد رکھنا آپ کا اس علاقے کے لیے بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آج یہ عیدگاہ ضلع صوابی کی سب سے بڑی عید گاہ بن چکی ہے جو آج بھی آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ قبل ازیں علاقے کے لوگ اپنے اپنے مساجد میں نماز عید ادا کرتے تھے۔ آپ تیس سے زائد غیر مطبوعہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ جس کی اشاعت کے لیے کوششیں کی جارہی ہے۔ آپ کی کتاب ”رحمت الباری شرح صحیح البخاری“ انشاء اللہ جلد منظر عام پر آجائے گی۔ اس کتاب پر جامعہ بنوریہ ٹاؤن العالمیہ کے شیخ الحدیث عبدالحمید خان غوری تقریظ کر چکے ہیں۔ مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی اسم با مسمی تھے۔ انتہائ شفیق ، حق گو ، ملنسار ، خاکسار ، مہمان نواز اور غریب پرور انسان تھے۔ غریبوں ، یتیوں اور بیواؤں کی اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کرتے تھے۔ آپ کا عوام کے ساتھ رابطہ بڑا گہرہ تھا۔ آپ لوگوں کے دکھ درد اور غمی خوشی میں برابر شریک ہوتے تھے۔ انہی اوصاف کی بدولت علاقے کے لوگ آپ سے بے حد پیار اور محبت کرتے تھے۔ آپ کو بھی اپنے علاقے کے لوگوں سے بے حد پیار تھا۔ آپ کی مصالحانہ اور مخلصانہ کوششوں سے علاقے میں موجود بہت ساری دشمنیاں اور نفرتیں دوستیوں اور محبتوں میں بدل گئیں۔ علاقے کے لوگ اور بالخصوص علما کرام آپ کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ آپ استاد العلماء اور مفتیوں کے مفتی تھے۔ آپ نے مشرکین ، مبتدعین ، منکرین حدیث ، پرویزیوں اور قادیانیوں سمیت تمام باطل فرقوں کا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ باطل پرستوں کے ساتھ آپ نے متعدد مناظرے کیے جن میں باطل پرستوں کو منہ کی کھانی پڑھی۔ آپ تبلیغی جماعت سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ 16 جولائی 2002ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور مسلم آباد گوہاٹی کے قبرستان میں اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔<ref>علمائے صوابی، ضیاء اللہ جدون، صفحہ 131</ref><ref name=":0">روزنامہ پاکستان اسلام آباد، 16 جولائی 2004</ref>
 
== حوالہ جات ==