"آفتاب اقبال، فرزند اقبال" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں (ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم) |
م خودکار: درستی املا ← کے لیے، کر دیا، جائداد، نشان دہی، لیے، ہو گئے، اس ک\1، لا، حیدرآباد، مہاراجا، ۔، دیے؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 1:
{{ضم|محمد اقبال}}
'''آفتاب اقبال''' [[علامہ اقبال]] کے بڑے صاحبزادے۔ آپ علامہ اقبال کی زوجہ کریم بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے۔
سطر 7:
کریم بی بی کے بطن سے علامہ کو ایک لڑکی معراج بیگم بھی ہوئی ہیں جو19سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ اگرچہ بچپن ہی سے آفتاب اور ان کی بہن معراج اپنی ماں کے ساتھ نانا کے گھر گجرات میں رہتے تھے لیکن آفتاب، اقبال کے والد نور محمد کے نور نظر تھے اور نور محمد ہی نے ان کا نام آفتاب رکھا تھا۔
علامہ اقبال نے آفتاب اقبال کو سکاچ مشن ہائی سکول میں شریک کروایا جہاں انہوں نے1916ء میں میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا۔ پھر سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے بی اے کا امتحان بھی فلسفہ میں آنرز کے ساتھ پاس کیا اور1921ء میں ایم اے کی ڈگری فلسفہ میں حاصل کی۔ آفتاب کے ماموں کیپٹن غلام محمد اور نانا ڈاکٹر عطا محمد نے انہیں اعلیٰ تعلیم
اسی دوران لنکن انزمیں داخلہ لے کر بارایٹ
یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی ہر گونہ مسائل سے دوچار تھی۔ علامہ اپنی پہلی شادی سے خوش نہیں تھے اور کریم بی بی کو طلاق دینا چاہتے تھے۔ لیکن کریم بی بی نے طلاق کے بدلے جدازندگی بسر کرنے کو ترجیح دی اور علامہ اقبال اپنی آخری عمر تک ان کے اخراجات برداشت کرتے رہے۔ اس شادی کے بارے میں9 اپریل 1909کو عطیہ فیضی کو لکھتے ہیں ’’میری تنہا آرزویہ ہے کہ اس شہر سے کہیں باہر نکل جاؤں لیکن تم جانتی ہو کہ اپنے بھائی کا احسان مند ہوں جو میرے اس شہر سے باہر جانے کے مخالف
عطیہ فیضی نے اس شادی کی شکست کی وجہ دونوں کی فکری صلاحیتوں میں شدید فرق اور طبیعتوں میں اختلاف بتایا ہے۔ اس شادی کے اختلافات اور دوری کی وجہ سے آفتاب اقبال، علامہ کی محبت اور شفقت سے محروم ہوئے اور چونکہ وہ اپنی ماں کے ہم خیال تھے اور اس شادی کی شکست کے پورے ذمہ دار علامہ کو سمجھتے تھے۔ اس
جاوید اقبال نے خود اپنی کتاب ’’زندہ رود‘‘ میں لکھا کہ میں ان مطالب کو بیان کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ علامہ نے جوروش اختیار کی تھی اگرچہ وہ عمدہ نہ تھی لیکن روش معقول تھی۔ آفتاب ضدی تھے او رہمیشہ علامہ کے خلاف کھڑے ہوتے اور علامہ کے خلاف جو اتہامات لگائے جاتے وہ ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
آفتاب اقبال اپنے انگلستان کے قیام کے دوران شدید مشکلات سے دوچار تھے چنانچہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ریاست
علامہ اقبال ہی کی نسبت سے اکبر حیدری نے یکم جنوری 1931ء کو فخر یار جنگ کو ایک سفارشی خط لکھا اور جامعہ عثمانیہ میں آفتاب کو ملازمت دلانے کا کہا لیکن اس وقت جامعہ میں کوئی مناسب جگہ خالی نہ تھی۔1931ء میں آفتاب انگلستان سے لاہور آئے اور29مارچ کو سراکبر حیدری کے خط میں اپنی مالی مشکلات علامہ کی عدم التفات اور
علامہ اقبال نے2مئی 1931ء کو اکبر حیدری کو لکھا۔
’’قصہ طولانی اور اس کا بیان اذیت ناک ہے۔ دراصل میں دہلی میں آپ سے ملاقات کرنے سے بھی اس
اگر میں کوئی مالدار آدمی ہوتا تو شاید اس کی کچھ اور مدد کردیتا اگرچہ وہ اس کا مستحق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں میرے حالات کے بارے میں آپ کوکچھ علم نہیں۔ فطرت نے مجھ کو کچھ چیزیں دیں ہیں او رکچھ نہیں دیں میں پوری طرح قانع ہوں اور میرے لبوں پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا۔ شاید آپ پہلے آدمی ہیں جسے میں نے یہ باتیں لکھی ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ نے اس کی مدد کی ہے کچھ اس
اس خط کا جواب 11مئی1931ء کو سراکبر حیدری نے دیا اور علامہ کی مجبوری کو تسلیم کیا اور انہیں یقین دلایا کہ وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں ان کو کوئی موزوں جگہ دلوانے کی اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ علامہ اقبال نے14مئی کو اس خط کے جواب میں لکھا’’ یہ نوجوان اب تک70ہزار روپے اپنے اوپر خرچ کرچکا ہے۔ اس میں سے خود
اس کی انگلستان سے واپسی کے صرف ایک دو ماہ قبل مجھے ایک ہزار روپے دینے پر مجبور کیا گیا۔
آں جگر گوشہ ہماں شدکہ من اوّل گفتم
سطر 37:
’’یعنی یہ جگر ٹکڑا وہی ہوا جو میں نے شروع میں کہا تھا کہ جب دودھ منہ سے پونچھے گا تو جگر خوار بن جائے گا‘‘
اگرچہ کچھ اطلاعات کے مطابق اکبر حیدری اور علامہ کے درمیان اس مسئلہ پر گفتگو جاری رہی۔ چنانچہ اکبرحیدری 12 فروری 1937ء کے خط میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر مجھے پہلے ہی سے ان ناخوشگوار حالات کا علم ہوتا جس کی آپ نے
آفتاب اقبال علامہ کے انتقال کے چالیس(40) سال بعد تک زندہ رہے لیکن وہ اب ہمیشہ اقبال کے مدح خواں تھے اور ہمیشہ اپنے والد کے محاسن پر گفتگو کرتے تھے۔ جن افراد نے کراچی کے یوم اقبال کے جلسوں میں شرکت کی ہے وہ جانتے ہیں کہ آفتاب اقبال ہر سال ان جلسوں میں ولنشین اور فلسفیانہ تقریر کرتے اور علامہ کے کلام پر تبصرے کرتے تھے۔
|