"میلاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ
(ٹیگ: ردِّ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م Ilyas shah Hashmi (تبادلۂ خیال) کی ترامیم Faismeen کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع)
 
سطر 1:
{{ناحوالہ}}
 
'''میلاد''' یا مولد کا معنی پیدائیش یا ولادت کا وقت ہے۔ [[قرآن مجید]] میں [[یحییٰ علیہ السلام|یحییٰ بن زکریا]] اور [[عیسیٰ علیہ السلام|عیسیٰ ابن مریم]] کی ولادت کا ذکر ہےمیلاد کی لغوی و اصطلاحی تحقیقہے۔
 
لفظ میلاد کی لغوی تحقیق میلاد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’ولد )و۔ل۔د(‘‘ ہے۔ میلاد عام طور پر اس وقت ولادت کے معنوں میں مستعمل ہے۔ میلاد اسم ظرف زمان ہے۔ قرآن مجید میں مادہ ولد کل 93 مرتبہ آیا ہے اور کلمہ مولود 3 مرتبہ آیا ہے۔ )المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ص 764-763(
 
احادیث نبویﷺ میں لفظ میلاد و مولد کا استعمال احادیث نبویﷺ میں مادہ ولد )و۔ل۔د( بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی میں موجود ہے )المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الجز السابع ص 320-308(
 
اردو میں لفظ میلاد نور اللغات میں لفظ میلاد مولود۔ مولد کہ یہ معنی درج کئے گئے ہیں
 
1: میلاد ۔۔۔ پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت
 
2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔
 
وہ کتاب جس میں پیغمبر کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔
 
اصطلاحی مفہوم میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔ حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ’’حضور اکرم نور مجسم محمدﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺ کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺ ہے۔ )سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ء )جلد دوم( ص 445(
 
قرآن مجید سے جشن ولادت منانے کے دلائل *
 
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ )سورۂ تکاثر، پارہ 30 رکوع 18(
 
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔
 
خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ )پ 13رکوع 17(
 
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟
 
آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں
 
ترجمہ ’’اﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ )سورۂ آل عمران آیت 164(
 
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔ * قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
 
ترجمہ ’’تم فرماؤ اﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ )سورۃ یونس آیت 58(
 
لیجئے! اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ )پارہ 17 رکوع 7(
 
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں.
 
== یحییٰ ==