"محی الدین قادری زور" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 1:
{{Infobox person
|name=سید محی الدین قادری زور|image=|caption=|birth_name=سید محی الدین قادری زور|birth_date={{birth date|1905|12|25|mf=y}}|birth_place=[[حیدرآباد، دکن]] India|death_date=ستمبر 1962|death_place=سری نگر، کشمیر|nationality=ہندوستانی|known_for=اردو محقق|style=|notable_works=ہندوستانی لسانیات|signature=}}
|name=سید محی الدین قادری زور|image=|caption=|birth_name=سید محی الدین قادری زور|birth_date={{birth date|1905|12|25|mf=y}}|birth_place=[[حیدرآباد، دکن]], India|death_date=September 1962|death_place=Srinagar, Kashmir|nationality=Indian|known_for=Urdu Scholar|style=|notable_works=|signature=}}'''سید محی الدین قادری زور''' (پیدائش: [[6 دسمبر]] [[1904ء]] – وفات: [[25 ستمبر]] [[1962ء]])، ادیب، عالم، شاعر، افسانہ نگار، ادبی اور لسانی نقاد، تاریخ دان اور معاشرتی مصلح تھے۔ 25 دسمبر [[1905ء]] (بقول بعض زور صاحب کی تاریخ پیدائش 6 دسمبر [[1904ء]] ہے) حیدرآباد، بھارت میں ان کی ولادت ہوئی۔<ref>{{cite news| title = Legend of Bhagmati is the Monument's Raison D'etre| url = http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2001-10-25/hyderabad/27252102_1_urdu-books-bhagmati-urdu-literature| publisher = timesofindia.indiatimes.com| date = October 25, 2001| accessdate = 30 October 2011}}</ref> ابتدئی تعلیم مدرسہ دار العلوم سٹی اسکول میں ہوئی۔ پھر 1927ء میں عثمانیہ کالج سے " لسانی سائنس" میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ادبی اور علمی ذہانت کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد کے فرمانروا نے انھیں وظیفہ دے کر 1929ء میں لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے کے لیے روانہ کیا۔ جہاں انھوں نے " آریائی زبانوں" پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ 1930ء میں انھوں نے [[فرانس]] میں لسانی تحقیق پر خصوصی تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ ہندوستاں واپس آ گئے۔ [[ہندوستان]] واپس آکر زرو صاحب چندر گھاٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس کے بعد [[جامعہ عثمانیہ]] کے شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں وہ اپنی وفات تک کشمیر کی [[سری نگر یونیورسٹی]] میں [[اردو]] اور [[فارسی]] مطالعات کے شعبے مین درس و تدویس کے فرائص انجام دیتے رہے۔ انھوں نے اکسٹھ (61) کتابیں تصنیف کیں اور ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں اردو رائج کرنے میں بڑی خدمات سر انجام دیں۔ وہ اردو میں ماہر لسانیات کے طور پر معروف ہیں۔ انھوں نے لسانی تحقیق، معاشرتی روداد نگاری، عالمانہ تنقید کے علاوہ افسانے لکھے اور شاعری بھی کی۔ ان کی شاعری "حب ترنگ"۔۔ "گلزرا اب رہی م" کے نام سے چھپ چکی ہے۔ زرو صاحب نے اردو کی ترویج کے لیے "ادبیات اردو " (المعرف ایوان اردو) کی بھی بنیار رکھی۔ جس کا مقصد قدیم اردو کے اور علمی ورثے اور پرانے متنوں کو نیا افق فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے ابوالکلام آزاد تحقیقی انسیٹوٹ بھی قائم کیا اور ادبی اور علمی جریدہ " سب رس" جاری کیا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہوتا ہے۔ کراچی سے بھی شاہد حمید مرحوم بھی ایک عرصے تک شمالی ناظم آباد سے " سب رس" نکالتے رہے۔
 
|name=سید محی الدین قادری زور|image=|caption=|birth_name=سید محی الدین قادری زور|birth_date={{birth date|1905|12|25|mf=y}}|birth_place=[[حیدرآباد، دکن]], India|death_date=September 1962|death_place=Srinagar, Kashmir|nationality=Indian|known_for=Urdu Scholar|style=|notable_works=|signature=}}'''سید محی الدین قادری زور''' (پیدائش: [[6 دسمبر]] [[1904ء]] – وفات: [[25 ستمبر]] [[1962ء]])، ادیب، عالم، شاعر، افسانہ نگار، ادبی اور لسانی نقاد، تاریخ دان اور معاشرتی مصلح تھے۔ 25 دسمبر [[1905ء]] (بقول بعض زور صاحب کی تاریخ پیدائش 6 دسمبر [[1904ء]] ہے) حیدرآباد، بھارت میں ان کی ولادت ہوئی۔<ref>{{cite news| title = Legend of Bhagmati is the Monument's Raison D'etre| url = http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2001-10-25/hyderabad/27252102_1_urdu-books-bhagmati-urdu-literature| publisher = timesofindia.indiatimes.com| date = October 25, 2001| accessdate = 30 October 2011}}</ref> ابتدئی تعلیم مدرسہ دار العلوم سٹی اسکول میں ہوئی۔ پھر 1927ء میں عثمانیہ کالج سے " لسانی سائنس" میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ادبی اور علمی ذہانت کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد کے فرمانروا نے انھیں وظیفہ دے کر 1929ء میں لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے کے لیے روانہ کیا۔ جہاں انھوں نے " آریائی زبانوں" پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ 1930ء میں انھوں نے [[فرانس]] میں لسانی تحقیق پر خصوصی تعلیم حاصل کی۔ پھر وہ ہندوستاں واپس آ گئے۔ [[ہندوستان]] واپس آکر زرو صاحب چندر گھاٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس کے بعد [[جامعہ عثمانیہ]] کے شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں وہ اپنی وفات تک کشمیر کی [[سری نگر یونیورسٹی]] میں [[اردو]] اور [[فارسی]] مطالعات کے شعبے مین درس و تدویس کے فرائص انجام دیتے رہے۔ انھوں نے اکسٹھ (61) کتابیں تصنیف کیں اور ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں اردو رائج کرنے میں بڑی خدمات سر انجام دیں۔ وہ اردو میں ماہر لسانیات کے طور پر معروف ہیں۔ انھوں نے لسانی تحقیق، معاشرتی روداد نگاری، عالمانہ تنقید کے علاوہ افسانے لکھے اور شاعری بھی کی۔ ان کی شاعری "حب ترنگ"۔۔ "گلزرا اب رہی م" کے نام سے چھپ چکی ہے۔ زرو صاحب نے اردو کی ترویج کے لیے "ادبیات اردو " (المعرف ایوان اردو) کی بھی بنیار رکھی۔ جس کا مقصد قدیم اردو کے اور علمی ورثے اور پرانے متنوں کو نیا افق فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے ابوالکلام آزاد تحقیقی انسیٹوٹ بھی قائم کیا اور ادبی اور علمی جریدہ " سب رس" جاری کیا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری ہوتا ہے۔ کراچی سے بھی شاہد حمید مرحوم بھی ایک عرصے تک شمالی ناظم آباد سے " سب رس" نکالتے رہے۔
 
== تصنیف و تالیف ==
محی الدیں قادری زور کے علمی اور ادبی کارناموں پر خلیق انجم نے کتاب بھی لکھی ہے۔ ان کی سب سے معروف کتاب "ہندوستانی لسانیات" ہے۔ اس کے علارہ انھوں نے " ہندوستانی لسانیات" کے نام سے انگریزی میں بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں، " طلسمات خیال"، شاعر گولکنڈہ" " [[گولکنڈے کے ہیرے|گولکنڈہ، کے ہیرے]]"، دکنی ادب کی تحریک"، "کلیات قطب شاہ"، " حیات میر محمدمومن"، داستان ادب حیدر آبا د"، " تذکرہ مخطوطات اردو" (دو جلدیں)، " طالب موہنی"، معنی شکن" (اس کتاب میں مغرب میں 1970ء اٹھنے والی فکری نظریہ "ردتشکیل" کو زور صاحب نے ساٹھ (60) سال پہلے پیش کردیاتھا) انھوں نے کلیات [[محمد قلی قطب شاہ]] کے تدویں بھی کی۔ زرو صاحب نے نواب رفعت یار جنگ کی صاحب زادی تحینت النساء سے شادی کی۔ جو اردو کی باقاعدہ پہلی صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کے تین دیوانوں میں ۔۔"صبر شکر"، ۔۔ سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ ان کی چار (4) صاحب زادیاں اور پانچ (5) صاحب زادگان تھے۔ زرو صاحب کی ایک بیٹی زہرہ کا انتقال ستمبر 1962ء میں ہوا اور وہ خاینار شریف میں رزق خاک ہوئی۔ محی الدین زرو صاحب 1931ء تک ادارہ ادبیات اردو میں اپنے آبائی مکان "تھنات منزل"، حیدرآباد میں مقیم رہے۔