"متحدہ قومی موومنٹ پاکستان" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 58:
*سماجی بہتری
*کوٹا سسٹم کا خاتمہ
==اہم سیاسی معاملات==
اگرچہ اس سیاسی دھڑے کے رہنماؤں کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی کمزوریاں کھل کر سامنے آئیں، تاہم پھر بھی پارٹی رہنماؤں نے شہری سندھ کے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرکے اپنی پارٹی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد جاری رکھی۔
 
اختلافات اور مسائل کے باعث اس دھڑے کے کم سے کم ڈیڑھ درجن قانون ساز پارٹی سے علیحدہ ہوکر ایم کیو ایم سے ہی جنم لینے والی نئی سیاسی جماعت ’پاک سر زمین پارٹی‘ (پی ایس پی) سمیت دیگر جماعتوں میں چلے گئے۔
 
اس دھڑے کی قیادت نے کسی کا نام لیے بغیر متعدد مواقع پر دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پارٹی رہنماؤں کو جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس دھڑے کی قیادت نے مختلف سیاسی جماعتوں پر بھی الزام عائد کیا کہ وہ بھی ان کے رہنما توڑنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
==تنازعات==
یہ دھڑا جس دن سے وجود میں آیا ہے تب سے ہی تنازعات چلے آ رہے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دھڑے کی مرکزی قیادت نے مبینہ طور پر سندھ رینجرز کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر اس گروپ کی تشکیل کی، ساتھ ہی مختلف سیاسی پارٹیاں اور سیاسی مبصرین بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس گروپ کو بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، لیکن دوسری طرف ایسے بیانات اور دعوے سامنے آنے کے بعد سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل محمد سعید ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کرچکے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن کی تقسیم ان کے اندرونی اختلافات کے باعث ہوئی۔
 
بدنام زمانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 16 ستمبر 2016 کو ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار بھی کرچکے ہیں، دوسری جانب یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اس گرفتاری کے پیچھے ڈاکٹر فاروق ستار کا ہاتھ تھا، کیوں کہ خواجہ اظہار نے ان سے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر شپ کے عہدے سمیت دیگر مطالبات کیے تھے۔
 
8 نومبر 2017 کو متحدہ لندن سے الگ ہونے والے دونوں سیاسی گروپوں یعنی پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان نے اختلافات بھلا کر اتحاد قائم کرنے اور 2018 کے انتخابات ایک ہی نام اور ایک ہی منشور کے ساتھ لڑنے کا اعلان کیا، تاہم یہ اعلان حقیقت کا روپ دھار نہ سکا اور یہ اتحاد چند ہی گھنٹوں میں ٹوٹ گیا اور کئی اہم رہنماؤں جن میں علی رضا عابدی بھی شامل تھے، انہوں نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
 
اگلے ہی دن ایم کیو ایم کا مخصوص انداز ایم کیو ایم پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملا اور حیران کن طور پر پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ کا اعلان کیا، تاہم اپنی والدہ اور پارٹی کارکنان کی مداخلت اور فرمائش کے بعد چند ہی گھنٹوں میں انہوں نے یہ اعلان واپس بھی لیا۔
 
نئے سال میں بھی تنازعات نے ایم کیو ایم کے دامن کو نہیں چھوڑا اور 2018 کے ماہ فروری کے پہلے ہی ہفتے میں 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کے اعلان پر پارٹی رہنماؤں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور کئی رہنماء پہلی بار کھل کر فاروق ستار کی مخالفت کرنے لگے۔
 
پارٹی رہنماؤں نے فاروق ستار سے مطالبہ کیا کہ وہ سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے پسندیدہ امیدوار کامران ٹیسوری کی نامزدگی کا اعلان واپس لیں، ساتھ ہی پارٹی کی رابطہ کمیٹی نے ان کا نام مسترد کرتے ہوئے ان کی رکنیت بھی 6 ماہ کے لیے معطل کردی۔
 
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو بھی پارٹی سربراہی سے ہٹاتے ہوئے ان کی جگہ خالد مقبول صدیقی کو نیا سربراہ مقرر کردیا، جس کے ردِ عمل میں فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو ہی توڑ کر انٹرا انتخابات کے ذریعے خود کو نیا سربراہ منتخب کروالیا۔
 
انہی اختلافات کے باعث ایم کیو ایم پاکستان 2 گروپوں یعنی ایم کیو ایم ’پیر الاہی بخش‘ (پی آئی بی) کالونی اور ایم کیو ایم بہادر آباد میں تقسیم ہوگئی۔ پی آئی بی دھڑے کی قیادت فاروق ستار نے سنبھال لی جبکہ بہادر آباد کی قیادت خالد مقبول صدیقی کے پاس رہی۔
 
12 فروری کو ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ رابطہ کمیٹی کے کچھ ارکان نے انہیں کنوینر شپ کے عہدے سے اس لیے ہٹایا، کیوں کہ وہ ارکان ان کی جگہ سابق آرمی چیف (ریٹائرڈ) جنرل پرویز مشرف کو لے آنا چاہتے ہیں، تاہم بعد ازاں پرویز مشرف نے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پیش کش کے باوجود اس پارٹی کے کسی بھی دھڑے کی سربراہی سے انکار کردیا ہے
 
== مزید دیکھیے ==