"قمر راجوروی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 23:
 
== ہجرت اور اعزازات ==
ان کے اسی سرگرم رول کے باعث آزاد حکومت کی انتظامیہ اور اس کے عسکری آفیسروں نے انہیں توصیفی اسناد سے نوازا تھا جبکہ دوسری جانب انڈین آرمی نے ان کا مکان اور مکان میں موجود قیمتی کتب خانہ نذرِ آتش کر دیا، مولانا مہرالدین قمر اجوروی 13؍ نومبر 1948کو سقوط راجوری کے بعد بہ امر مجبوری کنٹرول لائن کے اُس پار ہجرت کرنے کے بعد نواں شہر ایبٹ آباد میں قیام پزیر ہو گئے تھے اور اسی سرزمین پر انہوں نے زندگی کی آخری سانس لی۔ البتہ ان کے خاندان کے کوئی پچاس کے قریب لوگوں کو انڈین آرمی اور راشٹریہ سیوک سنگ (RSS) کے آدمیوں نے نہایت بے دردی وسفاکیت کے ساتھ شہید کر دیا تھا جن میں ان کے حقیقی چاچے چودھری غلام محمد اوانہ، چودھری عطا محمد اوانہ، چودھری صلاح محمد اوانہ کو ریاسی کے نواح موضع بغلی میں شہید کر کے اُن کے دھڑ گردنوں سے جدا کر کے ان کی پیشانیوں پر لکھ دیا تھا کہ انہیں ہم نے پاکستان بھیج دیا ہے، جبکہ ان کے قریبی رشتہ داروں میں سخی محمد اوانہ، غلام دین اوانہ، محمد دین اوانہ، دین محمد اوانہ، چودھری لعل دین اور چودھری فتح محمد اوانہ وغیرہ راجوری کے مختلف محازوں پر اسلام اور آزادی کی خاطر لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، ان کے بھتیجے چودھری میر حسین کو کیمری گلی نڈیاں اور برادرِ نسبتی چودھری فتح محمد گورسی کو تھنہ منڈی علاقے میں پیٹرول ڈال کر آگ لگا دی تھی، اس طرح اس خاندان نے اسلام اور آزادی کے نام پر قربانیوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔
 
== وطن کی یاد ==
مولانا مہرالدین قمر راجوروی کو اپنے چھوٹے ہوئے وطن عزیز راجوری،اس کے باشندوں۔ گلی کوچوں، شہروں، دیہاتوں، پیرپنچال کے خوبصورت برفانی پہاڑوں، شنگروں و ڈھوکوں، و بہکوں اور ندی نالوں و سبزہ زاروں سے کتنی محبت تھی اس کا اندازہ ان کی گوجری و پنجابی کی ہجریہ و فراقیہ شاعری سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے اپنے وطن کے قریہ قریہ اور چپہ چپہ کا تذکرہ خونی آنسوئوں کے ساتھ کیا ہے، انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ جب بھی ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا تصفیہ ہو اور خونی لکیر کنٹرول لائن کے آرپار آزادانہ نقل و حرکت بحال ہو تو میری بچی کھچی ہڈیوں کو میری قبر سے نکال کر میری جنم بھومی راجوری کی گرجن پہاڑی کے دامن میں لے جا کر دفن کرنا،