"تحفۂ اثنا عشریہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
Abualsarmad (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 4154064 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
(ٹیگ: رد ترمیم ردِّ ترمیم)
م Dr. Hamza Ebrahim (تبادلۂ خیال) کی ترامیم Abualsarmad کی گذشتہ ترمیم کی جانب واپس پھیر دی گئیں۔
(ٹیگ: استرجع)
سطر 1:
{{POV}}
{{خانہ معلومات کتاب/عربی|}}
[[فائل:کتاب تحفہ اثناعشریہ.gif|تصغیر|تحفہ اثناعشریہ]]
'''تحفہ اثنا عشریہ''' [[شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی|شاہ عبد العزیز دہلوی]] کی کتاب ہے جو [[اہل تشیع]] کے عقائد کی رد میں لکھی گئی ہے۔<ref>محمد رحیم بخش: حیات ولی، اشاعت افضل المطابع، دہلی، صفحہ 339۔</ref>
== کتاب کیا زبان ==
 
اصل کتاب فارسی زبان میں تصنیف کی جو بڑے سائز کے تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے یہ کتاب پہلی مرتبہ [[1204ھ]] میں مطبع ثمر ہند لکھنوء سے شائع ہوئی اور پھر نولکشور مطابع وغیرہ میں بھی چھپتی رہیںپہلی مرتبہ یہ کتاب شاہ عبد العزیز کے تاریخی نام غلام حلیم سے طبع ہوئی <ref>حدائق الحنفیہ: صفحہ 487 مولوی فقیر محمد جہلمی : مکتبہ حسن سہیل لاہور</ref>
== پس منظر ==
=== اردو ترجمہ ===
[[فائل:Nizamat Imambara 2.jpg|تصغیر|مرشد آباد میں برصغیر کی سب سے بڑی امام بارگاہ، "نظامت امام باڑہ"، جس کی بنیاد نواب سراج الدولہؒ  نے اپنے ہاتھوں سے رکھی تھی-]]
تحفہ اثنا عشریہ اصل کتاب تو فارسی میں ہے متعدد اہل علم نے اس کا اردو میں ترجمہ کیاہے زیرنظر ترجمہ مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی مظاہری کا ہے۔
اٹھارویں صدی عیسوی جہاں مغل سلطنت کے مغرب میں افغان حملہ آوروں اور مشرق و جنوب میں انگریزوں کے سامنے عسکری کمزوری دکھانے سے عبارت ہے، وہیں دہلی میں شیعہ اور سنی امرا کے بیچ [[سرد جنگ]] اس سلطنت کے زوال کا دوسرا اہم عامل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کی شکست و ریخت کے زمانے میں دہلی میں جامعہ رحیمیہ کے گدی نشین شاہ ولی الله محدث دہلوی ( 1703ء ۔ 1762ء) نے اہلسنت میں بہت مقام پیدا کیا۔ شاہ ولی الله ''1731''ء میں حج کرنے گئے اور وہاں شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک "توحید والعدل"، جس کو عرف عام میں وہابیت کہا جاتا ہے، کے اثرات اپنے ساتھ لائے۔اس وقت شیعہ نواب اودھ [[صفدر جنگ]] کو مغل دربار میں بہت اہمیت حاصل تھی۔1747ء میں [[احمد شاہ ابدالی]] کو سرہند کے مقام پرمغل سلطنت کی طرف سے صفدر جنگ نے شکست دی۔ اس کے نتیجے میں اس کے مرتبے اور عزت میں اضافہ ہوا تو دہلی میں اس کے خلاف سنی امرا کی سازشیں عروج پر پہنچ گئیں اور 1753ء میں اس کو دہلی چھوڑ کر اودھ جانا پڑا۔ اس ماحول میں سنی امرا نے شاہ ولی الله کو شیعہ امرا کے خلاف اکسایاتو انہوں نے اپنے خوابوں کو بنیاد بنا کر اہل تشیع کے خلاف "'''فیوض الحرمین'''"، "'''قراہ العینین'''"، "'''ازالہ الخفا'''" اور "'''حجہ الله البالغہ'''" جیسی کتابوں میں تنقید کی۔ اپنے ایک خواب کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ پہلے دو خلفا کا نور رسول اللهؐ کے نور سے ملا ہوا ہے، وہی بات جو شیعہ قرآن کی آیت مباہلہ اور احادیث کی بنیاد پر حضرت علی کے لیے کہتے تھے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ رسول اللهؐ نے ان کو خواب میں آ کر بتایا کہ شیعہ گمراہ ہیں۔ شاہ ولی الله نے انگریزوں کے خلاف لڑنے والے بنگال،  اودھ  اور میسور کے حکمرانوں کی حمایت میں کوئی فتویٰ جاری نہ کیا۔ بنگال میں سراج الدولہ، اس کے بعد میر قاسم نے انگریزوں سے جنگ کی لیکن ان کا مسلک شیعہ ہونے کی وجہ سے انھیں شاہ ولی الله کی طرف سے وہ حمایت نہ ملی جو احمد شاہ ابدالی کو میسر رہی۔ یہی مسلہ اودھ کے نواب شجاع الدولہ کا تھا- شاہ صاحب کےبعد بھی میسور کے نواب حیدر علی اور ان کےبیٹے فتح علی ٹیپو بھی دہلی سے کسی قسم کی عسکری یا مذہبی حمایت سے محروم رہے۔
== انسائیکلوپیڈیا ==
 
تحفہ اثنا عشریہ فی الحقیقت ایک عہد آفرین کتاب ہے جس کی تالیف میں شاہ صاحب نے بے حد محنت و جانفشانی سے کام لیا قوت بیان اور ندرت کلام اور ایجاز و اختصار کے ساتھ مطالب و معانی اور بے شمار ناقابل تردید دلائل ایسے دلنشین اورمتین انداز میں تحریر کئے گئے ہیں کہ اس سے قبل ایسی جامع و مانع کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی اس کتاب میں شیعہ سنی مسائل و مباحث کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع کر دیا گیا ہے کہ جس کے بعد اس موضوع پر کسی اور کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور بحث و مناظرہ میں اکثر علماء اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ شیعہ سنی معاملات کے تمام مباحث اس کتاب میں نہایت جامعیت کے ساتھ آگئے ہیں اگر تحفہ اثنا عشریہ کو ان مسائل کی انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو وہ بالکل درست ہوگا
احمد شاہ ابدالی نے کل سات حملے کیے جن میں سے چوتھے اور پانچویں حملے میں دہلی پہنچا۔ دہلی پر 1757ء کے حملے میں افغانوں نے منظم انداز میں شہر کو لوٹا، شہر کے محلوں میں الگ الگ ٹولیاں بھیجی گئیں جنہوں نے نہ صرف گھروں کا سامان لوٹا بلکہ فرش اکھاڑ کر بھی تلاشی لی تاکہ کسی کا چھپایا گیا زیور باقی نہ رہ جائے۔بے شمار ہندو خواتین کی عصمت لوٹی گئی۔دو سال بعد شاہ ولی الله نے احمد شاہ ابدالی کو دوبارہ دعوت دی اور اس مرتبہ اس نے دہلی کے شیعہ بھی قتل کیے، شاہ ولی الله کے بیٹے کے بقول انہوں نے ایک سال پہلے اس کو بتایا تھا کہ اگلے سال دہلی میں ایک بھی شیعہ باقی نہیں بچے گا<ref>ملفوظات شاہ عبد العزیز، صفحہ 54، میرٹھ، 1314 ہجری، 1896-1897.</ref>۔ اس کی افواج نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہندوستان کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ [[پنجابی زبان]] کے عظیم صوفی شاعر [[وارث شاہ]] نے احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بارے میں کہا:۔
== طرز تحریر ==
 
اس کتاب میں شاہ صاحب نے شیعہ مذہب کی ابتداء ، ان کے بے شمار فرقے شیعوں کےاسلاف وعلماء اور ان کی کتابیں واحادیث اور ان کے راویوں کے حالات، ان کے مکروفریب کے طریقے جن سے وہ سادہ لوگوں کواپنے مذہب کی طرف لاتے ہیں ۔الوہیت ، نبوت ، معاد اور امامت کے بارے میں شیعہ کے عقائد،صحابہ کرام اور ازواج مطہرات اور اہل بیت کے متعلق ان کے عقائد اور اس موضوع کے متعلق تمام مباحث اس میں کتاب میں جمع کردئیے گئے ہیں <ref>تحفہ اثنا عشریہ اردو دار الاشاعت اردو بازار کراچی</ref>۔
کھادا پیتا وادے دا
== وجہ تسمیہ ==
 
شاہ عبدالعزیز نے کتاب کے دیباچہ میں تحریر کیا ہے کہ اس کتاب کا نام تحفہ اثنا عشریہ اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ بارہویں صدی ہجری کے اختتام پر یہ کتاب جلوہ گر ہورہی ہے اور دیباچہ کی آخر میں فرماتے ہیں کہ اس کتاب کو بارہ اماموں کی تعداد کے مطابق بارہ ابواب پر مرتب کیا گیا ہے
باقی احمد شاہے د ا
 
یعنی تمھارے دنیاوی مال و اسباب میں تمہاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ جو بچا کر رکھو گے وہ احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ اس دوران مغل بادشاہ عالمگیر دوم کو اس کے سنی وزیر امداد الملک نے قتل کر دیا اور ایک اور شہزادے شاہجہاں سوم کو مسند شاہی پر بٹھا دیا ۔ افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں امداد الملک کو مختار کل بنا یا نجیب الدولہ کودہلی اور اودھ کے درمیان [[روہیل کھنڈ]] میں افغانوں کی حکومت بنا دی۔
[[فائل:Ahmad Schah Durrani.jpg|تصغیر|احمد شاہ ابدالی ]]
مرہٹوں نے احمد شاہ ابدالی کے خلاف اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ کو اتحاد کی دعوت دی لیکن نواب نے احمد شاہ ابدالی سے اتحاد کرنے کو مصلحت کے قریب جانا۔ 1761ء میں اودھ کےشیعہ نواب شجاع الدولہ(صفدر جنگ کے بیٹے)، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ اور احمد شاہ ابدالی کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو [[پانی پت]] میں شکست دے کر شمال میں ان کی پیشقدمی ہمیشہ کے لیے روک دی۔نجیب الدولہ نے دہلی پر قبضہ کر لیا۔1762ء میں شاہ [[ولی اللہ]] انتقال فرما گئے۔1770ء میں نجیب الدولہ کے انتقال کے بعد مرہٹوں نے اس کے بیٹے ضابطہ خان کے قبضے سے دہلی آزاد کرایا اور شاہ عالم ثانی کے حوالے کیا ۔ 1772ء میں احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہوا اور افغان سلطنت داخلی شورش کا شکار ہو گئی۔شاہ عالم ثانی نے شیعہ سردار نجف خان کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ نجف خان نے سکھوں کے مقابلے میں دہلی کا کامیابی سے دفاع کیا۔ 1782ء میں نجف خان کا انتقال ہو گیا۔ 1787ء میں ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ نےدہلی پر حملہ کر کے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ وہ ایک ذہنی مریض تھا، اس نے شاہ عالم ثانی کی آنکھوں میں سوئی مار کر اندھا کر دیا اور مغل شہزادیوں سے زنا باالجبر کرنے کے بعد ننگا کر کے کوڑے لگائے۔ کئی خوبصورت مغل شہزادیاں قید میں بھوکی رکھ کر ماری گئیں اور شہزادے اور ان کے بچے بری طرح پیٹے گئے<ref>خیر الدین محمد الہ آبادی،عبرت نامہ، 30-88</ref>۔ مرہٹے دوبارہ شاہ عالم ثانی کی کمک کو پہنچے اور دو سال بعد دہلی دوبارہ شاہ عالم کے قبضے میں چلا گیا، غلام قادر روہیلہ کی آنکھیں بھی نکالی گئیں اور اس کو اذیت ناک طریقے سے مارا گیا ۔
 
== تحفہ اثنا عشریہ کی تصنیف اور اس کے ابواب ==
اس کتاب میں شاہ عبد العزیز نے درج ذیل بارہ ابواب قائم کیے:۔
[[فائل:کتاب تحفہ اثناعشریہ.gif|تصغیر|تحفہ اثناعشریہ]]
شاہ ولی الله کے بیٹوں میں سے شاہ [[عبد العزیز]] محدث دہلوی ( 1746ء ۔ 1823ء) فرقہ وارانہ نفرت میں آگے تھے اور انہی منفی جذبات کی وجہ سے ان کو مستقل معدے میں جلن کی شکایت رہتی تھی<ref>دہلوی،محمد بیگ ،مرزا،دیباچہ فتاویٰ عزیزیہ، مطبع مجتبائی دہلی1391ھ، ص4</ref>۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پچیس برس کی عمر ہی میں ان کو جذام ہو گیا اور نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ مسلسل جسمانی اذیت اور اس زمانے کے حالات کا غصہ اپنے فتووں اور خطوط میں شیعوں پر نکالتے رہے۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز نے شیعہ اعتقادات کے خلاف '''"تحفۃ اثنا عشریۃ"''' نامی کتاب لکھی۔ یہ کتاب ایک افغان سنی عالم خواجہ نصر الله کابلی کی کتاب '''" ''صواقع موبقہ'''''''"'' کی فارسی میں شرح تھی۔اس کتاب کا پہلا نسخہ شاہ عبد العزیز نے تقیہ سے کام لیتے ہوئے "حافظ غلام حلیم "کے قلمی نام سے شائع کیا، کیوں کہ انھیں شیعہ امرا سے انتقامی کارروائی کا خوف تھا۔ البتہ اگر شیعہ صاحبان حل و عقد کو اگر سنی علما کے خلاف تعصب سے کام لینا ہوتا تو اودھ میں وہ سنی علمائے [[فرنگی محل]] کی سرپرستی نہ کر رہے ہوتے۔ اس کتاب کی اشاعت کے خلاف کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے بعد اگلی چاپ میں انہوں نے اپنا اصلی نام بھی ظاہر کر دیا۔اس کتاب میں شاہ عبد العزیز نے درج ذیل بارہ ابواب قائم کیے:۔
 
# در کیفیت حدوث مذہب تشیع و انشعاب آن بہ فِرَق مختلف
# در مکائد شیعہ و طرق اضلال و تلبیس
 
2.# در مکائدذکر أسلاف شیعہ و طرق اضلالعلما و تلبیسکتب ایشان
4.# در احوال اخبار شیعہ و ذکر روات آنہا
 
5.# در الہیات
3. در ذکر أسلاف شیعہ و علما و کتب ایشان
6.# در نبوّت و ایمان انبیا(ع)
 
7.# در امامت
4. در احوال اخبار شیعہ و ذکر روات آنہا
8.# در معاد و بیان مخالفت شیعہ با ثقلین
 
9.# در مسائل فقہیہ کہ شیعہ در آن خلاف ثقلین عمل کردهکردہ است.است۔
5. در الہیات
10.# در مطاعن خلفاء ثلاثہ و عایشہ و دیگر صحابہ
 
11.# در خواص مذہب شیعہ مشتمل بر 3 فصل (اوہام، تعصبات، ہفوات)
6. در نبوّت و ایمان انبیا(ع)
12.# در تولاّ و تبرّی (مشتمل بر مقدّمات عشرهعشرہ)
 
== خصوصیات ==
7. در امامت
تحفہ اثنا عشریہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ روایات اور بیان کے انتخاب میں اصول حق کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے اور شیعہ مذہب و خیالات کے بیان میں صرف مستند و معتبر شیعہ کتب پر انحصارکیا گیا ہے اور تواریخ و تفسیر وحدیث میں سے صرف انہی چیزوں کو منتخب کیا ہے جن پر شیعہ سنی دونوں متفق ہیں اور طرز بیان بھی نہایت متین اور مہذبانہ ہے
 
8. در معاد و بیان مخالفت شیعہ با ثقلین
 
9. در مسائل فقہیہ کہ شیعہ در آن خلاف ثقلین عمل کرده است.
 
10. در مطاعن خلفاء ثلاثہ و عایشہ و دیگر صحابہ
 
11. در خواص مذہب شیعہ مشتمل بر 3 فصل (اوہام، تعصبات، ہفوات)
 
12. در تولاّ و تبرّی (مشتمل بر مقدّمات عشره)
 
== جوابات ==
تفصیلی مضمون کے لیے '''[[عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار (کتاب)|عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار]]''' ملاحظہ کریں۔
 
شیعہ علما نے موقف اختیار کیا کہ شاہ عبد العزیز نے شیعہ مسلک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے علم مناظرہ اور نقل حدیث کے آداب و رسوم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اکثر شیعہ علما نے اس کتاب کے ہر باب کا الگ الگ کتاب کی صورت میں رد کیا۔ آیت الله سید [[دلدار علی نقوی]] ؒ نے شیعہ عقیدہ توحید ، نبوت ، امامت و آخرت کے خلاف لکھے گئے ابواب پنجم ،ششم، ہفتم و ہشتم  کے رد میں "'''الصَّوارمُ الإلهیّات فی قَطْع شُبَهات عابدی العُزّی و اللّات'''" ، '''"حِسامُ الاسلام و سَهامُ المَلام'''"، '''" خاتِمَةُ الصَّوارم'''" ،"'''ذو الفقار'''"اور '''"اِحْیاءُ السُّنّة و اماتَةُ الْبِدْعَة بِطَعْنِ الأسِنَّة"'''  لکھیں۔ [[محمد قلی موسوی (کنتوری)|علامہ سید محمد قلی موسوی]] ؒنے تحفہ اثنا عشریہ کے پہلے، دوسرے، ساتویں، دسویں اور گیارہویں ابواب کا الگ الگ جواب دیا اور ان کتب کا مجموعہ  "'''الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ'''" کے عنوان سے شائع ہوا۔ مولانا خیر الدین محمد الہ آبادی ؒ نے باب چہارم کے جواب میں "'''هدایة العزیز''' " لکھی۔ ان کے علاوہ بھی کئی علما نے  تحفہ اثنا عشریہ کے ابواب کے رد میں کتب تصنیف کیں جن میں شیعہ [[مکتب فکر]] کا موقف واضح کیا گیا- البتہ بعض علما نے اس کے تمام ابواب کے جواب میں ایک ہی کتاب لکھی جن میں سے  علامہ سید محمّد کمال دہلوی ؒنے'''" نزھۃ اثنا عشریۃ"'''<ref>{{Cite web|url=https://archive.org/details/nuzha-isna-asharia-jild-1/page/n0|title=نزھہ اثنا عشریہ|date=|accessdate=|website=|publisher=|last=|first=| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225062908/https://archive.org/details/nuzha-isna-asharia-jild-1/page/n0 | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref> اور مرزا محمد ہادی رسواؒ نے اردو میں '''"تحفۃ السنۃ''' " لکھیں۔ '''نزھہ  اثنا عشریہ'''کی اشاعت تو تحفہ اثنا عشریہ کی پہلی اشاعت کے تین سال بعد ہی ہو گئی تھی اور اس وجہ سے ریاست جھاجھڑ کے سنی راجا نے علامہ سید محمّد کامل دہلویؒ کو بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا کر قتل کر دیا۔ ان جوابات کی اشاعت کے نتیجے میں شاہ عبد العزیز کے شاگرد سید قمر الدین حسینی، جن کے لیے انہوں نے" '''اجالہ نافعہ''' "کے عنوان سے [[علم حدیث]] کا ایک رسالہ لکھا تھا، نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا<ref>علامہ عبد الحئی بن فخر الدین،"'''نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر'''"، جلد 7، شمارہ 713، "الشیخ قمر الدین دہلوی"- دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1999.</ref>۔ تحفہ اثنا عشریہ کی رد میں لکھی گئی کتب میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو نصیب  ہوئی وہ  [[سید حامد حسین موسوی|آیت اللہ میر سید حامد حسینؒ]]  اور ان کی اولاد کی لکھی گئی  بیس جلدوں پر مشتمل   کتاب  '''"عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار"''' ہے<ref>{{Cite web|url=http://www.alabaqat.com/download/|title=عبقات الانوار|date=|accessdate=|website=|publisher=|last=|first=| archiveurl = http://web.archive.org/web/20181225062909/http://www.alabaqat.com/download/ | archivedate = 25 دسمبر 2018 }}</ref>  جو تحفہ اثنا عشریہ کے ساتویں باب کے رد میں لکھی گئی تھی، یہ کتاب آج تک شیعہ عقیدہ امامت پر لکھی گئی جامع ترین کتاب ہے۔
 
== مزید دیکھیے ==
* [[فرقہ واریت]]
* [[سید احمد بریلوی]]
* [[تحریک طالبان پاکستان]]
* [[سپاہ صحابہ]]
* [[دارالعلوم دیوبند]]
* [[لشکر جھنگوی]]
 
== حوالہ جات ==