"احمد سرہندی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 34:
 
{{اقتباس| لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔}}
 
== اہل تشیع کے قتل کی وکالت ==
 
ردِ روافض برصغیر میں اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ اس میں شیخ احمد سرہندی لکھتے ہیں:
 
"علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکم خداوندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کیلئے جائز و روا ہے"<ref>شیخ احمد سرہندی، ردِ روافض، صفحہ 35، مدنی کتب خانہ، گنپت روڈ، لاہور۔</ref>۔
 
البتہ چونکہ شیخ احمد سرہندی کا اس وقت معاشرے پر اتنا اثر نہ تھا، مغل دور کا ہندوستان صلح کل پر کاربند رہا۔ آپ کے خیالات آپ کی وفات کے سو سال بعد شاہ ولی اللہ اور انکے خاندان نے زیادہ مقبول بنائے۔شاہ ولی الله نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب "رد روافض" کا عربی میں ترجمہ بعنوان"المقدمۃ السنیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ"کیا<ref>{{Cite web|url=https://makhtota.ksu.edu.sa/makhtota/4583/10#.YAGj7-hKhPa|title=|date=|accessdate=|website=مخطوطات > المقدمة السنية في الانتصار للفرقة السنية|publisher=|last=|first=}}</ref>۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ 1820ء میں شروع ہوا جب سید احمد بریلوی نے اپنے مجاہدین کو امام بارگاہوں پر حملے کے لیے ابھارہ۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:
 
” دوسری  قسم کے امور  جن سے سید احمد بریلوی   شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:
 
’ایک سچے مومن کو  طاقت کے استعمال کے ذریعے  تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔
 
سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں  نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں  ہزاروں کی تعداد میں  تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے  جلائے جانے کاذکر کیا ہے“<ref>B. Metcalf, "Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900", p. 58, Princeton University Press, 1982</ref>۔
 
== قید و بند کی صعوبت ==
سطر 39 ⟵ 53:
 
بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو [[گوالیار]] کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔
 
 
== تصنیفات ==
{{Div col|cols=2}}