"قوالی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏تاریخ: درستی املا, درستی قواعد, غیر ضروری مواد حذف
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
م خودکار: درستی املا ← جنھوں، گذرے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 9:
قوالی کی ابتدا کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ملتی ہے۔ اسلام میں کئی فرقے “محفل سماع” سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس روایت کے خلاف ٹھوس دلائل بھی موجود ہیں۔
 
=== اسلام میں ذکر اور محفل سماع ===
‎ذکر” کی روایت ہزاروں برس پرانی ہے۔ یہ روایت اسلام سے پہلے بھی موجود رہی ہے۔ مگر”سماع” اپنے جوہری انداز میں خالصتاً اسلام سے منسلک ہے۔ امام غزالیؒ نے اس کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ انھوں نے “ذکر” اور “سماع” کے فرق کو بھی اجاگر کیا۔ برصغیر میں اسلام “صوفیا” کی بدولت عام لوگوں تک پہنچا۔ صوفیا کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے ہمارے دین کو لوگوں کے لیے آسان اور سہل بنا کر پیش کیا۔ ان صوفیا کے علم میں تھا کہ برصغیر میں لوگوں پر موسیقی کی گہری چھاپ ہے۔ چنانچہ ان عظیم لوگوں نے اس روایت کو بھی اپنے اندر سمونے کی بھر پور کوشش کی۔
قوالی کی تاریخ:
سطر 18:
‎ امیر خسرو کی ولادت اترپردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی،جو متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے۔651ھ بمطابق 1252ء کو یہاں کے ایک امیر کبیرگھرانے میں انھوں نے جنم لیا۔ یہ سلطان ناصرالدین محمود کا دور سلطنت تھا۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا۔ والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک(ہندو) نومسلم ،سیاہ فام ہندوستانی سیاست داں کی بیٹی تھیں۔ وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے۔ خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلص سے ملی۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری اور موسیقی میں خالص ہندوستانی انداز کو اپنایا اسی لیے وہ خوب مقبول ہوئے۔ ان کے فن میں اہل وطن نے اسی مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس کی۔
‎امیر خسرو کا نام آج تک علم موسیقی میں ان کے حیرت انگیز تجربات کی وجہ سے زندہ ہے۔ وہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہو چکے تھے۔ روایت کے مطابق “فنافی الشیخ” کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ قوالی کی صنف کو امیر خسرو نے اپنے مرشد کی اطاعت اور مرضی سے انمول بنا دیا۔ انھوں نے مختلف نئے راگ ترتیب دیے۔ آج کا ستار اور طبلہ، صرف اور صرف اس مردِ عظیم کی کاوش اور ایجاد ہے۔ انھوں نے اپنی اکثر قوالیاں بھاگیشری، سوہنی، بہار اور بسنت راگوں میں بنائیں۔ نظام الدین اولیاء کے حکم پر انھوں نے بارہ خوش الحان گائیکوں کی ایک ٹولی ترتیب دی۔ ان تمام کو سماع کی نازک جزئیات سکھائیں۔ اس میں سے آج صرف پانچ نام محفوظ ہیں۔ میاں سمات، حسن ساونت، بہلول، تاتر اور فغانی اس بارہ کی ٹولی میں شامل تھے۔
‎اس فن نے سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں تک کا سفر بڑے آرام سے کیا۔ شاہ جہاں کے دور میں دو بہت مشہور قوال گزرےگذرے ہیں۔ ان کا نام “رضا اور
‎ر “کبیر” تھا۔
‎حضرت امیر خسروؔ کی طرف منسوب ’’چھاپ تلک سب چھینی رے‘‘ ’’اے ری سکھی ری مورے خواجہ گھر آئے‘‘ سے لے کر ’’بھردو جھولی مری یامحمد‘‘’’سجدے میں سر کٹادی محمد کے لعل نے‘‘تک ایسی قوالیاں بڑی تعداد میں ملتی ہیں جن کی مقبولیت زمان ومکان کی قید سے اوپر ہے۔ برصغیر کا خطہ’’ قوالی‘‘کی جنم بھومی ہے۔ یہ ایک خالص ہندوستانی فن ہے جو اسی دھرتی سے اٹھا ہے۔ یہ خانقاہوں میں پیدا ہوا اور وہیں اس کی نشو و نما ہوئی۔ البتہ وقت اور حالات نے اس پر اثر ڈالا اور اس میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوتی رہیں۔ ابتدا میں اس کی زبان فارسی ہوتی تھی مگر رفتہ رفتہ اس کی زبان ہندوی یا اردو ہو گئی۔’’محمد کے شہر میں‘‘’’دمادم مست قلندر‘‘عام لوگوں کے اندر بے حد مقبول ہوئیں۔ اس کے بعد یہاں کی علاقائی زبانوں میں بھی قوالیاں گائی جانے لگیں
سطر 43:
 
== پاکستان میں قوالی ==
[[پاکستان]] نے متعدد ایسے قوال پیدا کیے جنہوںجنھوں نے دنیا بھر میں شہرت پائی۔ بالخصوص [[نصرت فتح علی خان]]، [[عزیز میاں]] اور صابری برادران کا شمار صف اول میں ہوتا ہے۔
 
== قوال ==
سطر 51:
* [[بدر میاں داد]]
* [http://www.emipakistan.com/album/Moin-Niazi-669 معین نیازی]
* [[بہا الدین قطب الدین]]
* [[فتح علی خان]]
* [[حبیب پینٹر]]
سطر 71:
* [[وحید اور نوید چشتی]]
* تاج محمد شاد محمد نیازی
ٌٌٌٌ* [[اقدس ہاشمی قوال]]
* [[وارثی برادرز]]
* [[قطبی برادرز]]
 
سطر 87:
{{اردو شاعری}}
 
[[زمرہ:قوالی| ]]
[[زمرہ:اسلامی اصطلاحات]]
[[زمرہ:اسلامی موسیقی]]