"اپریل فول" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اس موضوع پر مدلل و محقق اور مختصر مگر نہایت ہی جامع ہے
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ردِّ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم ایڈوانسڈ موبائل ترمیم)
سطر 31:
اس دن لوگ ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے ہیں، آپس میں مذاق، جھوٹ، دھوکا، فریب، ہنسی، وعدہ خلافی اور ایک دوسرے کی تذلیل و تضحیک کرتے ہیں۔سماجی، مذہبی اور اخلاقی اعتبارسے اپریل فول منانا حرام ہے۔ اس د ن جن امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔<ref>[https://www.helpurdu.com/info/general/april-fool-day-details-in-urdu/ اپریل فول کیا ہے؟ اپریل فول کی حقیقت اور شرعی حیثیت]
</ref>
اسلام نے خوش طبعی، مذاق اور بذلہ سنجی کی اجازت دی ہے۔ بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ مذاق فرمایا ہے؛ لیکن آپ کا مذاق جھوٹا اور تکلیف دہ نہیں ہوتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہٴ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ
 
یا رسول اللّٰہ انّک تداعبنا، قال: انّی لا اقول الاّ حقًّا (ترمذی شریف:۲/۲۰)
 
ترجمہ: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ تو ہمارے ساتھ دل لگی فرماتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ (میں دل لگی ضرور کرتا ہوں مگر) سچی اور حق بات کے علاوہ کچھ نہیں بولتا۔
 
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مذاق میں دوسرے شخص کا جوتا غائب کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا، تو آپ نے ارشاد فرمایا:
 
لا تُرَوِّعُوْا الْمُسْلِمَ فَاِنَّ رَوْعَةَ المسلم ظلم عظیم (الترغیب والترہیب۳/۴۸۴)
 
ترجمہ: کسی مسلمیان کو مت ڈراؤ (نہ حقیقت میں نہ مذاق میں) کیونکہ کسی مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔
 
امام غزالی تحریر فرماتے ہیں کہ مزاح ومذاق پانچ شرطوں کے ساتھ جائز؛ بلکہ حسنِ اخلاق میں داخل ہے اور ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہوجائے تو پھر مذاق ممنوع اور ناجائز ہے۔
 
(۱) مذاق تھوڑا یعنی بقدرِ ضرورت ہو
 
(۲) اس کا عادی نہ بن جائے
 
(۳)حق اور سچی بات کہے
 
(۴)اس سے وقار اور ہیبت کے ختم ہونے کا اندیشہ نہ ہو
 
(۵)مذاق کسی کی اذیّت کا باعث نہ ہو (احیاء العلوم اردو ۳/۳۲۴-۳۲۶)
 
سفیان بن عیینہ سے کسی نے کہا کہ مذاق بھی ایک آفت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نہیں؛ بلکہ سنت ہے؛ مگر اس شخص کے حق میں جو اس کے مواقع جانتا ہو اور اچھا مذاق کرسکتا ہو۔ (خصائل نبوی، ص۱۵۳)
 
بہرحال حاصل یہ ہے کہ جھوٹے اور تکلیف دہ مذاق کی شریعت اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں؛ بلکہ اس طرح کا مذاق مذموم ہے۔
 
جھوٹ بولنا
 
اس رسم ”اپریل فول“ میں سب سے بڑا گناہ جھوٹ ہے؛ جبکہ جھوٹ بولنا دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ نیز اللہ رب العالمین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے۔
 
قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ارشاد مبارک ہے:
 
فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبین (آل عمران آیت ۶۱)
 
ترجمہ: پس لعنت کریں اللہ تعالیٰ کی ان لوگوں پر جو کہ جھوٹے ہیں۔
 
نیز احادیث شریفہ میں بھی مختلف انداز سے اس بدترین وذلیل ترین گناہ کی قباحت وشناعت بیان کی گئی ہے۔
 
حدیث ۱: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 
اذا کَذَبَ العبدُ تَبَاعَدَ عنہ المَلَکُ مِیلاً من نَتَنٍ ما جاء بہ (ترمذی شریف۲/۱۹)
 
ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے جو اس نے بولا ہے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
 
حدیث ۲: ایک حدیث شریف میں آپ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا، حضرت صفوان بن سُلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاگیا کہ
 
أیکون الموٴمن جَبانا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن بخیلا؟ قال: نعم، فقیل لہ أیکون الموٴمن کذّابا؟ قال: لا․ (موطا امام مالک ص۳۸۸)
 
ترجمہ:کیا موٴمن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں، (مسلمان میں یہ کمزوری ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کہ کیامسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں (مسلمان میں یہ کمزوری بھی ہوسکتی ہے) پھر عرض کیاگیا کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب عنایت فرمایا کہ نہیں، (یعنی ایمان کے ساتھ بے باکانہ جھوٹ کی عادت جمع نہیں ہوسکتی اور ایمان جھوٹ کو برداشت نہیں کرسکتا)۔
 
حدیث ۳: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے فجر کی نماز کے بعد اپنا خواب لوگوں سے بیان فرمایاکہ آج رات میں نے یہ خواب دیکھا کہ دو آدمی (فرشتے) میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارضِ مقدس کی طرف لے گئے تو وہاں دو آدمیوں کو دیکھا، ایک بیٹھا ہے اور دوسرا کھڑا ہوا ہے، کھڑا ہوا شخص بیٹھے ہوئے آدمی کے کلّے کو لوہے کی زنبور سے گدّی تک چیرتا ہے، پھر دوسرے کلّے کو اسی طرح کاٹتا ہے۔ اتنے میں پہلا کلاّ ٹھیک ہوجاتا ہے اور برابر اس کے ساتھ یہ عمل جاری ہے۔ میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ:
 
اَمَّا الَّذِیْ رَأَیْتَہ یُشَقُّ شِدْقُہ فَکَذَّابٌ یُحَدِّثُ بِالْکَذِبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْہُ حَتّٰی تَبْلُغَ الْاٰفَاقَ فَیُصْنَعُ بِہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ․ (بخاری شریف ۱/۱۸۵-۲/۹۰۰-۲/۱۰۴۳)
 
ترجمہ: بہرحال وہ شخص جس کو آپ نے دیکھا کہ اس کے کلّے چیرے جارہے ہیں، وہ ایسا بڑا جھوٹا ہے جس نے ایسا جھوٹ بولا کہ وہ اس سے نقل ہوکر دنیا جہاں میں پہنچ گیا؛ لہٰذا اس کے ساتھ قیامت تک یہی معاملہ کیا جاتا رہے گا۔
 
حدیث ۴: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ حضرت سفیان ابن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 
کَبُرَتْ خِیَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ہُوَ لَکَ بِہ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ بِہ کَاذِبٌ․ (مشکوٰة شریف ۲/۴۱۳)
 
ترجمہ: یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو حالانکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔
 
حدیث ۵: اسی طرح ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولنے سے بچنے پر (اگرچہ مذاق سے ہی ہو) جنت کی ضمانت لی ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 
اَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الجَنَّةِ لِمَنْ تَرَکَ الکِذْبَ وَاِنْ کَانَ مَازِحًا․ (الترغیب والترہیب ۳/۵۸۹)
 
ترجمہ: میں اس شخص کے لیے جنت کے بیچ میں گھر کی کفالت لیتاہوں جو جھوٹ کو چھوڑدے، اگرچہ مذاق ہی میں کیوں نہ ہو۔
 
حدیث ۶: حضرت بہز بن حکیم اپنے والد معاویہ کے واسطہ سے اپنے دادا حیدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 
وَیْلٌ لِّلَّذِیْ یُحَدِّث بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہ الْقَومَ فَیَکْذِبُ ویل لہ ویل لہ․ (ترمذی شریف ۲/۵۵، ابوداؤد ۲/۶۸۱)
 
ترجمہ: جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے اس کے لیے بربادی ہو، بربادی ہو، بربادی ہو۔
 
مطلب یہ ہے کہ صرف لطف صحبت اور ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی ممنوع ہے۔ آج کل لوگ نت نئے چٹکلے تیار کرتے ہیں اور محض اس لیے جھوٹ بولتے ہیں تاکہ لوگ ہنسیں، انھیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہیے اور اس برے فعل سے باز آنا چاہیے۔
 
دھوکہ دینا
 
اپریل فول کی رسم بد میں چوتھا گناہ، مکروفریب ہے؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گناہ پر سخت الفاظ سے وعید بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 
مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا․(مسلم شریف ۱/۷۰) جو شخص ہم کو (مسلمانوں کو) دھوکا دے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 
الموٴمنون بَعضُہم لِبَعْضٍ نَصَحَةٌ وَادُّون، وَانْ بَعُدَتْ منازلہم وَاَبْدَانُہُمْ وَالفَجَرَةُ بعضہم لبعضٍ غَشَشَةٌ مُتَخَاوِنُوْنَ وَاِنْ اقْتَرَبَتْ مَنَازِلُہُمْ وَاَبْدَالُہُمْ․ (الترغیب والترہیب ۲/۵۷۵)
 
ترجمہ: موٴمنین آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے مکانات اور جسم ایک دوسرے سے دور ہوں اور نافرمان لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے باز اور خائن ہوتے ہیں، اگر ان کے گھر اور جسم قریب قریب ہوں۔
 
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ بازی اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرنے والوں اور نافرمانوں کا عمل ہے، موٴمنین کا عمل تو ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کرنا ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایمان والے کو دوسروں کے ساتھ دھوکے کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔
 
ایک عبرت ناک واقعہ
 
عبدالحمید بن محمود معولی کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس میں حاضر تھا، کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے ہیں جب ہم ذات الصفاح (ایک مقام کا نام) پہنچے تو ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہوگیا، ہم نے اس کی تجہیز وتکفین کی، پھر قبر کھودنے کا ارادہ کیا، جب ہم قبر کھود چکے تو ہم نے دیکھا کہ ایک بڑے کالے ناگ نے پوری قبر کو گھیر رکھا ہے، اس کے بعد ہم نے دوسری جگہ قبر کھودی تو وہاں بھی وہی سانپ موجود تھا۔ اب ہم میّت کو ویسے ہی چھوڑ کر آپ کی خدمت میں آئے ہیں کہ ہم ایسی صورتِ حال میں کیا کریں؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سانپ اس کا وہ بد عمل ہے جس کا وہ عادی تھا، جاؤ اس کو اسی قبر میں دفن کردو، اللہ کی قسم اگر تم اس کے لیے پوری زمین کھود ڈالوگے پھر بھی وہ سانپ اس کی قبر میں پاؤگے۔ بہرحال اسے اسی طرح دفن کردیاگیا۔ سفر سے واپسی پر لوگوں نے اس کی بیوی سے اس کا عمل پوچھا، تو اس نے بتایا کہ اس کا یہ معمول تھا کہ وہ غلہ کا تاجر تھا اور روزانہ بوری میں سے گھر کا خرچ نکال کر اس میں اسی مقدار کا بھس ملادیتا تھا۔ (گویا کہ دھوکہ سے بھس کو اصل غلہ کی قیمت پر فروخت کرتا تھا)۔ (شرح الصدور للسیوطی، ص۱۷۴)
 
دوسرے کو تکلیف دینا
 
ایک حدیث شریف میں صحیح اور کامل مسلمان اس کو قرار دیاگیا ہے جو کسی مسلمان بھائی کو تکلیف نہ دے؛ بلکہ ہمارا مذہب اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک موٴمن کے ہاتھ وغیرہ سے پوری دنیا کے انسان (مسلم ہو یا غیرمسلم) محفوظ ہونے چاہئیں؛ بلکہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، بدترین اور شدید ترین گناہ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَیَدِہ․ (بخاری شریف۱/۶، مسلم شریف۱/۴۸)
 
ترجمہ: کامل مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
 
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
 
اَلْمُوٴْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ․ (ترمذی شریف۲/۹۰)
 
ترجمہ: کامل موٴمن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنے خونوں اور مالوں پر مامون و بے خوف وخطر رہیں۔
 
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 
مَلْعُوْنٌ مَنْ ضَارَّ مُوٴْمِنًا أوْ مَکَرَ بِہ (ترمذی شریف ۲/۱۵)
 
ترجمہ: وہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے جو کسی موٴمن کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ چال بازی کا معاملہ کرے
 
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}