"منظور احمد وٹو" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
JarBot (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
م خودکار: درستی املا ← ذو الفقار، غیر، راجا، کے لیے، وزیر اعظم، کے ارکان |
||
سطر 3:
میاں منظور احمد خان وٹو نے سیاسی کیرئر کا آغاز آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر کیا اس سے پہلے 1977ء میں
اس کے بعد میاں منظور احمدوٹو ائر مارشل اصغرخان کی تحریک استقلال میں شامل ہو گئے۔ 1982ء میں ہونیوالے
اس کے بعد 1985ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے بعد منظور احمدوٹو ایم پی اے بن گئے یوں اس وقت ان کے پاس ضلع کونسل کی چیئرمینی بھی تھی اور ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھے اور یہی نہیں اسی برس میاں منظور احمدوٹو سپییکرصوبائی اسمبلی بھی بن گئے جس پر انہوں نے ضلع کونسل کی چیئرمین شپ چھوڑ دی اور انہی کے بھائی میاں احمد شجاع چیئرمین ضلع کونسل بن گئے۔
سطر 23:
2002ء میں میاں منظور وٹو جیل سے باہر آگئے اور اس سال ہونیوالے عام انتخابات میں ان کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو ایم این اے منتخب ہو گئیں۔
2008ء کے انتخابات میں میاں منظور احمدخان وٹو دیپالپور اور حویلی لکھا دونوں جگہ سے ایم این اے منتخب ہو گئے جس پر این اے 146دیپالپور کی سیٹ انہوں نے اپنے پاس رکھی جبکہ حویلی کی سیٹ چھوڑ کر اپنے بیٹے خرم جہانگیر کو وہاں سے منتخب کروا دیا۔ اور اسی برس میاں منظور احمد وٹو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس وقت کے
اسی دور میں جب سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ ختم کی تو نئے
2013ء کا سال میاں منظور احمد وٹو
جب حالیہ الیکشن کا آغاز ہونے جا رہا تھا تو اس وقت میاں منظور احمد وٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی نائب صدر اور میاں خرم جہانگیر وٹو ساہیوال ڈویژن کے صدر تھے۔
لیکن الیکشن 2018ء میں جیت
اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا جبکہ میاں منظور وٹو نہ صرف این اے 143 سے دستبردار ہو گئے بلکہ انہوں نے اس حلقے میں پی ٹی آئی کی حمائت کی۔
|