"راجپوت" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: اضافہ زمرہ جات +ترتیب (14.9 core): + زمرہ:بھارت
م خودکار: درستی املا ← ہیں، گذرے، جنھوں، ہے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 29:
قانون گو کا کہنا غلط ہے کہ اس سرزمین پر ابتدائی قابض جاٹوں کی جگہ نووارد راجپوتوں نے لی۔ قانون گو نے اس بات کو فراموش کر دیا کہ پوار (پنوار)، تنوار، بھٹی، وگن جوئیہ وغیرہ جاٹوں اور راجپوتوں دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ جاٹوں کی جگہ راجپوتوں نے اس لی کہ کہ برہمنوں نے موخر الذکر کے خلاف بھڑکایا۔ کیوں کہ راجپوت تھوڑا عرصہ پہلے ہندو مذہب میں آئے تھے۔ برہمنوں نے راجپوتوں کو اعلیٰ مقام دیا، ان کی تعریف میں قصائص لکھے اور انہیں رام ارجن (سورج اور چندر بنسی) سے جا ملایا۔ اس کے بدلے راجپوتوں نے پھر پور ’وکشنا‘ اور ’اگر ہارا‘ دیے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برصغیر میں فاتح کی آمد پر جاٹوں کو براہمنی نظام میں مدغم کرنے کی سوچی سمجھی کوششیں کی گئی۔ غیر ملکی ساکا کو ہندو سماج کا حصہ بنانے کی غرض سے مشہور ’ورانا سٹوما‘ کی رسوم گھڑی گئیں اگر والا کا کہنا ہے کہ ان رسوم کی ادائیگی نہایت آسان تھی جو محض ایک ضابطہ کی کارروائی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ غیر ملکیوں کو مذہبی رسوم کے ذریعہ ہندو سماج کا حصہ بنایا جائے۔ ویسنٹ اسمتھ کا کہنا ہے بعض گونڈوں اور بھاروں نے فوجی طاقت حاصل کر نے کے بعد برہمنی مذہب کو قبول کر لیا اس طرح وہ بھی راجپوتوں میں شامل ہو گئے۔
اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی بیوہ دوبارہ شادی رچالے تو، اس کی اولاد جاٹ بن جائے گی۔ یہ مسئلہ کا اصل نقطہ ہے ایک راج پوت اور جاٹ میں صرف بیوہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیوہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارا نہ تھا۔ موجودہ دور میں پنجاب میں ان کی جاٹ اور راجپوتوں کی تقسیم بہت الجھی ہوئی ہے، ابسن کا کہنا ہے کہ پنجاب کے بڑے قبیلے راجپوت کہلاتے ہیں جب کہ ان کی شاخیں خود کو جاٹ کہتی ہیں۔
بیوہ کی شادی کا وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کوہ آبو کی قربانی کے موقع پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوںجنھوں نے بیوہ کی شادی کے کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود راجپوت کہلائے۔
 
== راجپوتوں کا عروج ==
سی وی ویدیا ہشٹری آف میڈول انڈیا میں لکھتے ہیں کہ جب بدھ مذہب کے زیر اثرہندوں میں جنگی روح ختم ہو گئی تو راجپوتوں نے موقع پاکر ملک کے مختلف حصوں پر اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔
بقول اسمتھ کے ہرش کی وفات کے بعد سے مسلمانوں کی آمد تک یعنی اندازہً ساتویں صدی عیسویں سے لے کر بارہویں صدی عیسیں تک کے زمانے کو راجپوتوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔
کشمیر میں ڈوگر یا ڈوگرہ راجپوتوں کاراج رھا ھےہے اور اس قوم کے لوگ بھی اصل میں جٹوں میں سے ھیںہیں اور راجے ھونے کی وجہ سے راجپوتوں میں شامل کیے گئے ہیں۔
مسلمانوں کی آمد کے وقت کابل سے کامروپ تک کشمیر سے کوکن تک کی تمام سلطنتیں راجپوتوں کی تھیں اور ان کے چھتیس راج کلی (شاہی خاندان) حکومت کر رہے تھے۔ چندر بروے نے اس تعداد کو پہلے پہل بیان کیا اور پنڈٹ کلہیان نے ’ترنگی راج‘ میں اس تعداد کی تصدیق کی ہے۔ جیمز ٹاڈ کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کے بعد کے ناموں میں اختلاف ہے۔ چھتیس راج کلی میں برصغیر کا پہلا تاریخی خاندان موریہ خاندان اس میں شامل ہے لیکن اس بنا پر نہیں ہے بلکہ میواڑ کے ایک قدیمی خاندان کی وجہ سے ۔
 
سطر 44:
ایشوری پرشاد کا کہنا ہے کہ راجپوتوں نے جنگ کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا اور نظم و نسق کے بلند اور شریفانہ فرائض سے غافل ہو گئے تھے۔ جس کی بجاآوری نے اشوک و ہرش کو غیر فانی بنا دیا تھا۔ کوئی ایسی تحریری شہادت موجود نہیں ہے جس سے نظم و نسق و حکومت کے دائرے میں راجپوتوں کے کارناموں کا اظہار ہوا ہو۔ ان کی پوری تاریخ قبائلی جنگ و پیکار کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہی وجہ ہے وہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرسکے اور انہیں پسپا ہونا پڑا اور ان کی طاقت کو زوال آگیا۔ کبر و نخوت ان کی بربادی کا سبب بنی۔ ذات پارت کی قیود سے باہمی نفاق اور حسد و کینہ کی پرورش ہوئی۔ اس لیے ان کی معاشی طاقت کمزور ہو گئی تھی۔ اس لیے ان کا نظام حکومت جاگیر ادرانہ تھا۔ یہ سیاسی اعتبار سے متحد نہیں تھے۔ اس لیے وہ بیرونی حملہ آوروں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو گئے۔
سی وی ویدیا لکھتے ہیں کہ قنوج اور بنگال کے سوا راجپوت راجاؤں کو مستقل فوج رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بعض تو ضرورتوں کے وقت فوج بھرتی کر لیا کرتے تھے اور بعض اپنے جاگیرداروں سے ان کے متوسلین کو طلب کر لیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو حکومتوں کے چلانے یا ان کو قائم رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ صرف حکمران خاندان اپنے ہم قبیلہ بھائی بندوں کو ساتھ لے کر حریف سے بھڑ جاتاتھا۔ فتح پائی تو فہا، شکست کھائی تو ملک حریف کے حوالے کر دیا۔ عوام کو راج کے پلٹ جانے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ قنوج کے پرتیہار اور دکن کے راشتٹر کوٹ چونکہ جنگی قبیلے تھے، اس لیے ان کی فوج میں بیروی عنصر شامل نہیں تھے۔ البتہ بنگال کے پال اور سین راجاؤں نے [[مالوہ]] جنوبی گجرات کرناٹک وغیرہ کے بعض لوگوں کو بھرتی کررکھا تھا۔ کیوں کہ بنگال میں راجپوتوں کی تعداد کافی نہیں تھی اور بنگالی اس زمانے میں جنگی قوم نہیں سمجھے جاتے تھے۔ باقی ملک میں بھی راجپوت راجاؤں کے ہاں مستقبل فوج کا کوئی وجود نہیں تھا۔
شمالی برصغیر میں راجپوتوں کی ریاستیں دہلی، اجمیر، قنوج، گندھار، [[مالوہ]] اور گجرات میں قائم ہوئیں۔ دہلی اور اجمیر کی ریاست کا بانی اگرچہ اننگ پال تھا، لیکن پرتھوی راج کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ قنوج میں مختلف راجپوت خاندانوں نے حکومت کی۔ گندھارا کی ریاست کے حکمرانوں میں جے پال اور آنند پال زیادہ مشہور ہوئے۔ جے چند راٹھور نے کافی نام پیدا کیا۔ [[مالوہ]] میں پڑھیار خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کا راجا بھوج بحثیت قدردان علم بہت مشہور ہوا۔ وہ خود عالم اور شاعر تھا۔ گجرات بندھیل کھنڈ اور بنگال میں مختلف خاندانوں نے حکومت کی۔ میواڑ کی ریاست میں بھی مشہور راجا گزرےگذرے ہیں۔ بالائی دکن کے زیریں (جنوبی علاقے) چولا، چیرا اور پانڈیا کی ریاستیں قائم ہوئیں۔
 
== راجپوتوں کے خصائص ==
سطر 75:
{{زمرہ کومنز|Rajput people}}
 
[[زمرہ:راجپوت|راجپوت ]]
[[زمرہ:اڑیسہ کے معاشرتی گروہ]]
[[زمرہ:بھارت]]