"اشرف الجواب (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م حوالہ جات/روابط کی درستی
اضافہ سانچہ/سانچہ جات
سطر 1:
{{اشتہار|}}
'''اشرف الجواب''' [[اشرف علی تھانوی]] کے علوم و معارف کا فیضان ان کے ملفوظات ، مجالس ، مواعظ اور تصانیف و رسائل کی شکل میں عام ہے ، ہزاروں صفحات میں مشتمل شائع و ذائع ہے ، ان سے انتخاب و استفادہ کرکے بعد والوں نے بہت بیش قیمت مواد جمع کر لیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔
'''اشرف الجواب''' [[اشرف علی تھانوی]] کے علوم و معارف کا فیضان ان کے ملفوظات، مجالس، مواعظ اور تصانیف و رسائل کی شکل میں عام ہے، ہزاروں صفحات میں مشتمل شائع و ذائع ہے، ان سے انتخاب و استفادہ کرکے بعد والوں نے بہت بیش قیمت مواد جمع کر لیا ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
کتاب [[اشرف الجواب]] اسی سلسلہ کے ایک عظیم الشان کڑی ہے ،ہے، جسے [[اشرف علی تھانوی]] کے ایک مسترشد [[علی محمد لاہوری]] نے تھانوی ملفوظات و تحریروں سے ان مضامین کو جمع کیا جو اسلام یا اسلامیات پر کیے جانے والے اعترضات کے جوابات ہیں ،ہیں، کتاب کے 4 اجزاء ہیں ،ہیں، جو 3 مضامین پر منقسم ہے ،ہے، مکمل کتاب تحقیقی و الزامی ،الزامی، علمی و فلسفی ،فلسفی، عقلی و نقلی ،نقلی، بدیہی و نظری ہر قسم کے جوابات کو حاوی ہے ،ہے، جس سے ان کی دقیقہ سنجی اور نکتہ آفرینی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ہے۔<ref name="حوالہ 1">[https://besturdubooks.wordpress.com/2014/03/25/ashraf-ul-jawab/ Ashraf Ul Jawab By Maulana Ashraf Ali Thanvi اشرف الجواب | Islamic Books<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
== پہلا حصہ ==
ان مضامین پر مشتمل ہے جو غیر مسلم اقوام کے اسلام پر اعتراض کے جواب ہیں ،ہیں، اس میں ذبح حیوانات ،حیوانات، مسیلہ غلامی ،غلامی، مسئلہ رسالت ،رسالت، سزائے مرتد ،مرتد، دفن میت جیسے 20 سے زائد اہم اعتراض کے جواب ہیں ،ہیں، ضمنی جوابات علاحدہ ہیں ۔ہیں۔
جیسے ایک غیر مسلم نے کہا کہ لوگ قرآن مجید کو اللہ کا کلام کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے زبان بھی نہیں ہے تو یہ اللہ کا کلام کیسے ہوا ؟ اس کا جواب دیتے ہویے کہتے ہیں :
{{اقتباس|ہم (انسانوں) کو کلام کرنے کے لیے زبان کی ضرورت ہے ،ہے، لیکن خود زبان کو کلام کرنے کے لیے زبان کی ضرورت نہیں ،نہیں، وہ خود اپنی ذات سے سے کلام کرتی ہے ،ہے، اسی طرح ہم کان سے سنتے ہیں ،ہیں، لیکن کان خود اپنی ذات سے سنتا ہے ،ہے، اس کو کسی اورآلہ کی ضرورت نہیں ،نہیں، تو جب زبان اس پر قادر ہے کہ بے زبان کلام کرے تو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو کلام کے لیے کسی آلہ (عضو) کی ضرورت نہ ہو تو کیا تعجب ہے ؟ صفت کلام تو خود اس کی ذات میں موجود ہے ،ہے، کلام خود اس کی ذات سے بلا زبان صادر ہوتا ہے ۔ہے۔
اس جواب سے وہ غیر مسلم شخص بہت خوش ہوا ،ہوا، اور اپنے ہمراہی سے کہا دیکھو ! اس کو کہتے ہیں علم ۔علم۔}}<ref>اشرف الجواب صفحہ 19</ref>
مسائل دینیہ و امور شرعیہ کو اپنی عقل کی میزان پر جانچنے والوں کو کیا ہی معقول جواب دیا ہے :
{{اقتباس|آپ خلاف عقل ایسی باتوں کو بھی کہتے ہیں جن کا وقوع و مشاہدہ ہوجایے تو وہ خلاف عقل نہ رہیں ،رہیں، معلوم ہوا آپ در اصل خلاف عادت کو خلاف عقل کہہ رہے ہیں ،ہیں، کسی بات کے صحیح ہونے کے لیے خلاف عادت ہونا مضر نہیں اور نہ یہ غلط ہونے کی دلیل ہے ،ہے، ورنہ پھر اس لڑکے کے قول کو بھی مان لینا چاپئے جو ماں کے پیٹ سے انسان کے پیدا ہونے کو بھی غلط کہتا تھا ۔تھا۔
دنیا میں بہت سے امور عادت کے خلاف ہوتے رہتے ہیں ،ہیں، میں نے ایک مرغی کا بچہ دیکھا جس کے چار پیر تھے ،تھے، اور آج کل (تھانوی کے زمانے کی بات ہے ،ہے، اور موجودہ زمانے میں تو بے شمار ایسے جڑواں بچے پایے جاتے ہیں )دہلی میں دو لڑکیاں جڑی ہوئی نمائش میں تھیں ،تھیں، جن کے تمام اعضاء جدا جدا تھے ،تھے، مگر کمر جڑی ہوئی تھی ،تھی، اور پیشاب گاہ الگ الگ تھی مگر پیشاب نکلتا ایک کے رستے سے تھا ۔تھا۔ تو بتلائیے کہ کیا خلاف عادت کے لیے بھی کوئی ضابطہ ہوسکتا ہے ؟ جس کے اوپر بناء کرکے بعض امور کو مانا جایے اور کسی کے متعلق یہ کہہ دیا جایے کہ :چونکہ یہ خلاف عادت ہے اس لیے ہم اس کو نہیں مانتے ۔مانتے۔}}<ref>اشرف الجواب صفحہ 392</ref>
== دوسرا حصہ ==
اس میں اہل السنہ پر کیے گئے اشکالات کے جواب ہیں ۔ہیں۔<ref name="حوالہ 1" />
 
== تیسرا حصہ ==
تیسرے حصہ میں ان سوالوں کے جوابات ہیں جو نیے اور روشن خیالات کے لوگوں کے ہوا کرتے ہیں ،ہیں، مثلا پردہ کو تعلیم کے لیے مضر کہا جاتا ہے ،ہے، اس کا جواب دیتے ہویے کہتے ہیں :
{{اقتباس|اصل بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے میں پردہ یا بے پردگی کو کوئی دخل نہیں ،نہیں، بلکہ اس میں بڑا دخل توجہ کو ہے ،ہے، اگر کسی قوم کی عورتوں کی تعلیم پر توجہ ہو تو وہ پردہ میں بھی تعلیم دے سکتے ہیں ،ہیں، ورنہ بے پردگی میں بھی کچھ نہیں ہوسکتاہوسکتا، ،بلکہبلکہ غور کیا جایے تو پردہ میں تعلیم زیادہ وسکتی ہے ،ہے، کیونکہ تعلیم کے لیے یکسوئی اور اجتماع خیال کی ضرورت ہے ،ہے، اور وہ گوشہ تنہائی میں زیادہ حاصل ہوتی ہے ،ہے، اسی واسطے مرد بھی مطالعہ کے لیے گوشہ تنہائی تلاش کیا کرتے ہیں ۔ہیں۔}}<ref>اشرف الجواب 380</ref>
== چوتھا حصہ ==
اس میں انسانی تخلیق ،تخلیق، وجود صانع ،صانع، معراج جسمانی ،جسمانی، حیات شہداء کرام ،کرام، عالم مثال ،مثال، عذاب و ثواب ،ثواب، حقیقت پل صراط پر مفصل بحث ہے ۔ہے۔
== تصوف کی تہذیب ==
چونکہ [[اشرف علی تھانوی]] ایک بڑے محقق صوفی بھی تھے ،تھے، اس لیے انہوں نے حقیقی تصوف یعنی تزکیہ کا دفاع بھی کیا ،کیا، جو باتیں جہلاءجہلا کی طرف سے صوفیا کو منسوب کی جاتی ہیں ان کا رد بلیغ کیا ،کیا، ایک جگہ کہتے ہیں :
{{اقتباس|بعض لوگ صوفیہ کو بھی بدنام کرتے ہیں کہ ان کے کچھ علوم سینہ بہ سینہ ہیں ،ہیں، مگر یہ بالکل غلط ہے ،ہے، صوفیاء کے یہاں جو چیز سینہ بسینہ ہے وہ علوم نہیں ،نہیں، علوم تو ان کے پاس وہی ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں ،ہیں، ہاں ایک چیز ان کے یہاں سینہ بسینہ ہے ،ہے، یعنی نسبت اور طریق سے مناسبت ۔مناسبت۔}}<ref>اشرف الجواب صفحہ 83</ref>
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}