"خرقہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← نظریے؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 10:
=== خرقہ کے اصطلاحی معانی ===
کپڑے کا پھٹا ہوا ٹکڑا۔ کسی صوفی کا موٹا جھوٹا اونی لبادہ۔ لباس درویشی۔ صوفی کے فقر و قناعت کی ظاہری نشانی اونی کپڑے کے ٹکڑوں کا چغہ۔
عموماً نیلے یا سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ اور [[تصوف]] کی اصطلاح میں ایک ظاہری علامت ہے جس سے فقر اور درویشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اکثر صوفیائے کرام نے اس قسم کا لباس پہننے سے گریز کیا ہے۔ ان کے نزدیک خرقہ پوشی اگر رضائے الہی کے لیے ہے تو بے فائدہ ہے کیونکہ خدا باطن کا حال بہتر جانتا ہے۔ اور اگر یہ انسانوں کو دکھانے کے لیے ہے تو بھی مہمل ہے۔ اگر درویش کا موقف تلاش حق ہے تو اسے ظاہری خرقے کی ضرورت نہیں۔ بقول [[داتا گنج بخش|علی ہجویری داتا گنج بخش]]‘‘ ظاہری لباس کی بجائے باطنی حرارت صوفی کو بناتی ہے۔ اس نظرئیےنظریے کے باوجود خرقہ پوشی کی رسم عموما اختیار کی گئی ہے۔ خرقہ صوفی کو تین برس کی ریاضت اور مجاہدے کے بعد ملتا ہے جو مرید اپنے شیخ یا پیر کی خدمت میں حاضر رہ کر انجام دیتا ہے۔ اس مدت کے گزرنے کے بعد خرقہ پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ خرقہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ خرقۃ الارادہ اور خرقۃ التبرک پہلی قسم کا خرقہ افضل سمجھا جاتا ہے۔ عام زبان میں خرقے کو گودڑی کہتے ہیں۔
 
=== خرقہ اورقرآن ===
سطر 16:
 
مزمل عرب میں اسے کہتے ہیں جو چادرے میں لپٹا ہو یا چادرا اوڑھے ہو آنحضرت ﷺ کے پاس چودہ ہاتھ کا لمبا ایک کمبل تھا۔ تہجد کی نماز اور تلاوت کے لیے جب اٹھتے تو اسی کو اوڑھ لیتے تھے تاکہ نماز میں اٹھنے بیٹھنے میں حرج نہ ہو، وضو آسان ہو، ہوا سرد سے محافظت ہو۔ اور نیز اس قسم کی چادر اوڑھنا یا لپیٹ لینا کفن لپیٹنے کی طرف اشارہ ہے تاکہ نفس ہر وقت موت سے آگاہ رہے اور رات کی اندھیری قبر کی اندھیری اور دنیا کے عدم کی ظلمت سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے حضرات انبیا علیہم السلام اس قسم کا کپڑا اوڑھتے تھے خصوصاً حضرت ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام اور ہمیشہ سے صلحا کا یہ لباس رہا ہے اور اسی لیے فقراء میں خرقہ پوشی ایک سنت چلی آتی ہے اور یہ لباس اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اوڑھنے والے نے ترک دنیا و عبادت مولیٰ کا التزام کر لیا ہے جیسا کہ وردی سپاہیوں کی علامت ہے۔ اس خرقہ کے لیے سات شرطیں ہیں۔
* (1) شب بیداری و نمازِتہجد و تلاوت قرآن،
* (2) دن میں اوقات کو یادِ الٰہی میں مصرف رکھنا۔
* (3) ہمیشہ ذاکر رہنا۔
* (4) ترک و تجرید،
* (5) توکل و اعتماد برکارسازی خالق،
* (6) خلق کی جفا و ظلم پر صبر کرنا،
* (7) اہل دنیا کی صحبت ترک کرنا
اور اس کے ساتھ ان کی خیرخواہی سے بھی غافل نہ رہنا۔ جس میں یہ سات باتیں ہوں اس پر یہ خرقہ زیبا ہے اور اسی لیے اس خرقہ کی شروط بجا لانے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو مزمل کا خطاب عطا ہوا جو بڑا پیارا خطاب ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ادا حضرت حق کو پسند آگئی تھی اس لیے فرماتا ہے یا ایہا المزمل کہ اے چادر اوڑھے ہوئے ! اس چادر ریاضت کا حق بجا لا۔ قم الیل رات بھر نماز و تلاوت کے لیے قائم اور مستعد و سرگرم رہ۔<ref>تفسیر حقانی ابو محمد عبد الحق حقانی سورہ مزمل</ref>