"محسن الملک" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
م کتابت میں غلطیوں کی اصلاح |
||
سطر 26:
== اردو زبان کی خدمت ==
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے [[حیات جاوید]] میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جا رہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا
1867ء میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ كیا كہ سركاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی كو یكسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندووٕں كے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں كا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے
٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔٬٬
سرسید احمد خان نے ہندووٕں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لیے اقدامات كرنیكا ارادہ
ہندووٕں نے اردو كی مخالفت میں اپنی تحریك كو جاری ركھا۔1817ء میں بنگال كے لیفٹیننٹ گورنر كیمبل نے اردو كو نصابی كتب سے خارج كرنے كا حكم دیا۔
اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب كرتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔
== اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن ==
'''نواب محسن الملك''' نے 1901ء كو اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لیے علی گڑھ كے
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔
سطر 47:
اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریك كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ كے لیے متحد ہوئی۔
1900ء میں [[اتر پردیش|یوپی]] کے لیفٹنینٹ گورنر سر انٹونی میکڈانل نے اردو کے خلاف مہم شروع کی تو نواب محسن الملک نے اس کا جواب دینے کے لیے لکھنؤ میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ '''محسن الملک''' نے
{{اقتباس|'''اگر حکومت اردو کو مٹانے پر ہی تل گئی ہے تو بہت اچھا۔ہم اردو کی لاش کو گومتی دریا میں بہا کر خود بھی ساتھ ہی مٹ جائیں گے'''}}
اور والہانہ انداز میں یہ شعر پڑھا۔
|