"ابو طالب بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← لیے
م برائے اظہارِ حق
(ٹیگ: بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 8:
== قبولیتِ اسلام ==
ایمانِ ابوطالب پہ مسالکِ اسلام میں اختلاف ہے ۔ اہلسنت حنفی بریلوی اور اہل التشیع ابوطالب کے ایمان کے قائل ہیں جبکہ اہلسنت حنفی دیوبندی اور اہل الحدیث ایمانِ ابوطالب سمیت حضور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین اور دادا کے ایمان کے بھی منکر ہیں ۔ درج ذیل دلائل عقیدۂ منکرینِ ایمانِ ابوطالب کے مطابق ہیں ۔ جبکہ قائلینِ ایمانِ ابوطالب کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آبا و اجداد کامل مومنین تھے۔ اسی کے تحت ذیل میں دونوں نظریات پیش کیے جا رہے ہیں ۔
 
<u>'''<big>دلائل منکرین ایمان ابوطالب اوران کا رد</big>'''</u>
 
آپ نے [[اسلام]] قبول نہی کیا تھا۔ اس پر اختلاف ہے۔ لیکن آپ نے تاحیات حضور {{درود}} کا ساتھ دیا۔ ان کی [[بت پرستی]] کی روایات میں اختلاف ہے لیکن کعبہ میں موجود بُتوں کے وہ ساری زندگی نگران رہے اور مشرکین کے حج میں مشرکین کے طعام اور کعبہ کی دیکھ بھال کا انتظام آپ ہی کے پاس تھا۔ آپ نے اسلام آنے سے پہلے حضور کا نکاح حضرت خدیجہ ع سے کیا اور ابراہیمی طرز کے مطابق نکاح پڑھا، جو کسی کے ایمان لانے کا ایک اہم ثبوت ہے۔ کیونکہ ایک کافر سے نکاح پڑھوانا باطل اور ناجائز ہے اور اس سے توہین رسالت ہوتی ہے کہ ایک کافر نے حضور {{درود}} کے نکاح پڑھے
سطر 200 ⟵ 202:
*
 
=== ایمان ابوطالب پرکے نفیحق کیمیں دلیلیںدلائل ===
 
ایمان ابوطالب پر یقین نہ کرنے والے درج ذیل عمومی دلیلیں دیتے ہیں۔
* ر لہذا یہ نکاح پڑھانا آپ کے ایمان لانے کی دل۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت تک رسول اللہ {{درود}} {{زیر}} علمائے شیعہ نے کلی طور پر اور علماء اہل سنت نے جزوی طور پر مخالفین کے دلائل کے کافی شافی جوابات دیئے ہیں اور ان کو باطل کردیا ہے اور اس بحث کو ایک انحرافی بحث سمجھتے ہیں اور رسول خدا(ص) اور ائمہ(ع) کی احادیث کی روشنی میں، ابو طالب(ع) کے ایمان پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے؛ تاہم مخالفین کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے ان کے ایمان پر دلائل کافیہ اور براہین قاطعہ قائم کئے ہیں، جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے:
قرآن پاک کی آیت کریمہ
 
{{عربی|1=إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ}}(القصص:56)
=== ابو طالب(ع) کی ذاتی روش ===
اے نبیﷺ آپ ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو ہاں خدا ہدایت دیتا ہے جسے چاہے وہ خوب جانتا ہے جو راہ پانے والے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ ابو طالب(ع) ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حبشہ کے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی، وہی جنہوں نے اپنے بیٹے کو دعوت دی اور حکم دیا کہ نماز میں اپنے چچا زاد بھائی(ص) سے جاملیں۔ وہی جنہوں نے اپنی زوجہ مکرمہ اپنی زوجۂ مکرمہ فاطمہ بنت اسد(س) اور اپنی اولاد کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ اور اپنے بھائی حمزہ کو دین اسلام میں ثابت قدمی کی تلقین کی اور ان کے اسلام لانے پر سرور و شادمانی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے امیرالمؤمنین(ع)کی حوصلہ افزائی کی۔۔ انھوں نے بیٹے علی(ع)کو رسول اکرم(ص) کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہيں منع نہيں کیا بلکہ بیٹے جعفر سے کہا کہ جاکر بائیں جانب سے ان کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور نماز ادا کریں۔۔
مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیہ کریمہ ابوطالب کے حق میں نازل ہوئی۔
 
معالم التنزیل، جلالین، مدارک التنزیل، کشاف، زمحشری، تفسیر کبیر سب نے ابو طالب کے متعلق لکھا
انھوں نے رسول خدا(ص) کا ساتھ دیتے ہوئے تمام مصائب کو جان کی قیمت دے کر خریدا اور زندگی کے آخری لمحے تک آپ(ص) کی حمایت سے دست بردار نہ ہوئے۔ اور حتی کہ موت کے لمحات میں قریش اور بنو ہاشم کو جو وصیتیں کیں وہ ان کے ایمان کامل کا ثبوت ہیں۔
[[امام نووی]] شرح صحیح مسلم شریف کتاب الایمان میں فرماتے ہیں : {{عربی|1=فَقَدْ أَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلَى أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي أَبِي طَالِب}}۔ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی۔ مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں ہے : {{عربی|1=لِقَوْلِهِ تَعَالَى فِي حَقِّهِ بِاتِّفَاقِ الْمُفَسِّرِينَ: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ}} اللہ تعالی کے اس ارشاد کی وجہ سے جو باتفاق مفسرین اس (ابو طالب) کے بارے میں ہے : اے نبی! تم ہدایت نہیں دیتے جسے دوست رکھو۔
 
* رسول اللہ {{درود}} کا نکاح بے شک آپ ہی نے پڑھایا۔ تا ہم یہ خطبہ نکاح آج کل کے خطبہ نکاح کی طرح نہ تھا اس میں نہ تو لاالہ الا اللہ کا اقرار ہوتا تھا اور نہ ہی اس میں رسول اللہ {{درود}} کی رسالت کا اقرار ہوتا تھا لہذا یہ نکاح پڑھانا آپ کے ایمان لانے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت تک رسول اللہ {{درود}} نے دعوت {{زیر}} اسلام نہیں دی تھی۔ اس لیے اس وقت تک کوئی کافر نہیں کہلایا جاسکتا تھا۔ دعوت {{زیر}} اسلام کے بعد ہی اسلام اور کفر کا فرق واضح ہوا جس نے [[کلمہ]] کا اقرار کیا صرف وہ ہی مسلمان کہلائے جانے کا حقدار ہوا۔
'''ابو طالب(ع) کی وصیت قریش کے نام''':
* دوسری وجہ جو ان کی قبول اسلام کی نفی کرتی ہے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اس وقت مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا تھا مگر انہوں نے کبھی آپ کو مسلمان سمجھ کر کوئی تکلیف نہ پہنچائی۔ بت پرستی کا مخالف نہیں سمجھا حالانکہ آپ کے صاحبزادے حضرت [[جعفر ابن ابی طالب|جعفر طیار]] کو ان ہی کفار نے ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔
 
* آپ کے دو صاحبزادے [[جعفر ابن ابی طالب]] اور [[علی ابن ابی طالب]] جو [[عباس بن عبدالمطلب]] اور رسول اللہ {{درود}} کے زیر کفالت تھے{{حوالہ درکار}} ابتدا ہی میں دولت اسلام سے سرفراز ہوئے اور بقیہ دو صاحبزادے جو آپ کے ہمراہ رہا کرتے تھے ان میں [[عقیل ابن ابی طالب|عقیل]] [[فتح مکہ]] پر مسلمان ہوئے اور چوتھا بیٹا [[طالب ابن ابی طالب|طالب]] (جس کے نام پر آپ کی کنیت ابو طالب تھی) [[غزوۂ بدر|غزوہ بدر]] میں کفر کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ {{حوالہ درکار}} اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کے گھر کا ماحول کس حد تک مومنانہ تھا۔
: '''إنّ أباطالب لمّا حضرته الوفاة جمیع إلیه وجوه قریش فأوصاهم فقال: یا معشر قریش أنتم صفوة الله من خلقه ـ إلى أن قال: ـ وإنّی أوصیكم بمحمد خیراً فإنه الأمین فی قریش، والصدیق فی العرب، وهو الجامع لكل ما أوصیتكم به، وقد جاءنا بأمر قبله الجنان، وأنكره اللسان مخافة الشنآن، وأیم الله كأنی أنظر الى صعالیك العرب وأهل الأطراف والمستضعفین من الناس قد أجابوا دعوته، وصدقوا كلمته، وعظموا أمره۔۔۔ یا معشر قریش ابن أبیكم، كونوا له ولاة ولحزبه حماة، والله لا یسلك أحد سبیله إلاّ رشد، ولا یأخذ أحد بهدیه إلاّ سعد، ولو كان لنفسی مدة، وفی اجلی تأخیر، لكففت عنه الهزاهز، ولدافعت عنه الدواهی'''۔ ترجمہ: جب حضرت ابو طالب(ع) کا آخری وقت ہؤا اور قریش کے عمائدین ان کے گرد جمع ہوئے تو آپ نے انہیں وصیت کی اور فرمایا: "اے گروہ قریش! تم خلق الله میں خدا کی برگزیدہ قوم ہو میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے بارے میں نیکی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش کے امین اور عالم عرب میں صادق ترین (سب سے زیادہ سچے اور راست باز) فرد ہیں؛ آپ(ص) ان تمام صفات محمودہ کے حامل ہیں جن کی میں نے تمہیں تلقین کی؛ وہ ہمارے لئے ایسی چیز لائے ہیں جس کو قلب قبول کرتا ہے جبکہ دوسروں کی ملامت کے خوف سے زبان اس کا انکار کرتی ہے۔ خدا کی قسم! گویا می دیکھ رہا ہوں کہ حتی دیہاتوں اور گرد و نواح کے لوگ اور لوگوں کے پسماندہ طبقات آپ(ص) کی دعوت قبول کرتے ہیں اور آپ(ص) کے کلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ(ص) کے امر (نبوت و رسالت) کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں ۔۔۔ اے گروہ قریش! آپ(ص) تمہارے باپ کے فرزند ہیں لہذا آپ(ص) کے لئے یار و یاور اور آپ(ص) کی جماعت کے لئے حامی و ناصر بنو۔
 
خدا کی قسم! جو بھی آپ(ص) کے راستے پر گامزن ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور جو بھی آپ(ص) کی ہدایت قبول کرے گا، سعادت و خوشبختی پائے گا؛ اور اگر میرے اجل میں تأخیر ہوتی اور میں زندہ رہتا تو آپ (ص) کو درپیش تمام مشکلات [بدستور] جان و دل سے قبول کرتا اور بلاؤں اورمصائب کے سامنے [بدستور] آپ(ص) کا تحفظ کرتا
 
'''ابوطالب(ع) نے بنو ہاشم سے وصیت کرتے ہوئے کہا''':
 
: '''يا معشر بني هاشم! أطيعوا محمدا وصدقوه تفلحوا وترشدوا''' ۔ ترجمہ: اى جماعت بنی ہاشم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد(ص)]] کی اطاعت کرو اور ان کی تصدیق کرو تاکہ فلاح اور بہتری اور رشد و ہدایت پاؤ۔
 
اہل سنت کے مشہور عالم دین ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں پر ابو طالب(ص) کا حق واجب ہے۔ اور متعدد اسناد سے ابن عباس و دیگر سے روایت کرتے ہیں کہ "ابوطالب(ع)" دنیا سے رخصت نہیں ہوئے حتی کہ انھوں نے شہادتین زبان پر جاری کردیں اور ایک اور مقام پر کہتے ہیں: '''اگر ابو طالب(ع) نے ہوتے تو اسلام کا نام و نشان نہ ہوتا''' اور مزید کہتے ہیں کہ اگر ابو طالب(ع) اپنا ایمان آشکار کرتے تو قریش کے ہاں اپنی عزت اور سماجی حیثیت کھو بیٹھتے اور قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے اسلام کا دفاع و تحفظ کرنے کے قابل نہ رہتے۔
 
اب یہ سوال باقی ہے کہ جو مسلمان اور مؤمن نہ ہو اور جو نمازگزار نہ ہو وہ کیونکر کسی کو اسلام و ایمان اور نماز کی دعوت دے سکتا ہے؟! اور جو رسول خدا(ص)کی رسالت پر ایمان نہیں رکھتا وہ کیوں قریش اور بنو ہاشم کو دعوت ایمان دے گا؟!
*{{حوالہ درکار}}
 
== ابوطالب بن عبد المطلب کے اشعار ==