"یوم تکبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
←‏پس منظر: درستی املا, درستی قواعد, روابط شامل کیے
(ٹیگ: ترمیم از موبائل ترمیم از موبائل ایپ اینڈرائیڈ ایپ ترمیم)
م خودکار: درستی املا ← معیار، صورت حال، کے لیے، کیے، ہو گیا، امریکا، لیے، \1کہ؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 12:
[[پاکستان]] کی تاریخ کا ایک اہم دن جب [[بھارت]] کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں [[28 مئی]] [[1998ء|1998]] کو پاکستان نے صوبہ [[بلوچستان]] کے ضلع [[چاغی]] کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا۔
 
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) نے اطلاع دی ہے کہ 28 مئی کو کئےکیے گئے ٹیسٹوں سے ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے ، جس کی مجموعی پیداوار 40 KT تک ہے۔
 
پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعوی کیا ہے کہ ایک ڈیوائس افزائش پزیر آلہ تھی اور باقی چار ذیلی کلوٹن ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد ، 30 مئی 1998 کو ، پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری سر کا تجربہ کیا۔
سطر 22:
بھارتی فوج کے ذریعہ منصوبہ بند اور اس پر عمل درآمد کیا جانے والا ، آپریشن بریسٹ اسٹیکس ، ہندوستان کی ریاست راجستھان میں ، ہندوستان کی مسلح افواج کا ایک مشترکہ اسلحہ فوجی مشق تھا ، جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ یہ 1986 میں ہوا تھا۔
 
جب کہ ہندوستان کا دعوی ہے کہ یہ کارروائی محض ہندوستانی جنگ میں نئے تصورات کی جانچ پڑتال کے لئےلیے کی گئی تھی ، 600،000 سے زائد ہندوستانی فوجیوں کوپاکستان کی سرحد کے قریب جمع کیا گیا تھا - یہی وجہ ہے کہ بہت سے دعوے آپریشن بریسٹاسکس کے گرد گھومتے ہیں ، یہ ایک فوجی مشق نہیں ، بلکہ ایک اسکیم ہے پاکستان کے ساتھ چوتھی جنگ کے لئےلیے صورتحالصورت حال پیدا کریں۔
 
دسمبر 1989 میں ، مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی حکمرانی کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز پاکستان کی حمایت سے ہوا۔ پھر اپریل 1990 میں ، وادی میں ایک بحران پیدا ہوگیاہو گیا جب ہندوستانی فوجی متحرک ہونے کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کو ہوا دینے کا خطرہ تھا۔ اس کے بعد ، مئی 1998 میں ، بھارت نے پانچ جوہری دھماکے کیے - اور اس کے جواب میں ، پاکستان نے چھ دھماکوں کا دعوی کیا ، جس نے ایک مکمل پیمانے پر بھارت پاکستان جنگ کو روکا۔
 
== پس منظر ==
سطر 30:
 
18مئی 1974 کو بھارت نے راجستھان میں مسکراتا بوھدا (smiling bhudha) نامی ایٹمی دھماکے کیے۔ تو جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی والے معاہدے این پی ٹی NPT non proliferation treaty پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ایٹم بم بنانا بہت اہم ہو گیا تھا۔
پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976 میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔1977 میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کے لئےلیے اہم اقدام اٹھائے۔ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ پاکستان نے اس مقصد کے لئےلیے یورپ ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور اور بھارت میں ‎#ISI کے خاص تربیت یافتہ ایجنٹوں کا ایک جال بچھا دیا گیا، جو حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدتے اور انہیں پاکستان میں مختلف ممالک کے راستے منتقل کردیتے تھے۔ امریکہامریکا کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکہامریکا نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دی،دی کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کرے جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیش رفت کا باعث بنے۔ لیکن جرمن نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو ٹریشئم ٹیکنالوجی فراہم کی جو جدید جوہری بم میں استعمال ہوتی تھی۔ اس بات کا انکشاف پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا میعارمعیار پرکھنے والا آلا سپکٹرو میٹر اور ٹریشئم ٹیکنالوجی سمت اور بہت سارے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ آئی ایس آئی کے ایجنٹ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کرتے تھے۔ ‎#ISI نے اس مقصد کے لئےلیے سنگاپور میں ایک فرم بھی بنا رکھی تھی۔ اصل میں یہ ایک الجھن والی جنگ تھی۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی بھی غلطی سارے پروگرام کو تباہ و برباد کر سکتی تھی۔ اس سارے پروسیسر میں پاکستانی حاکم ضیاء الحق کے لئےلیے سب سے بڑا مسئلہ ایلومینیئم برت کے پائپوں کو خرید کر پاکستان لانا تھا۔ کیونکہ امریکہامریکا نےایلومینیئم برت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی ۔ جبکہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ایلومینیئم برت کے پائپ خریدنے کے بعد سنگاپور کے راستے پاکستان کیسے لائے جائیں۔ یاد رہے ایلومینیئم برت یورینیم کو خالص کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنگاپور کے راستےایلومینیئم برت کے پائپ پاکستان لانے کے لئےلیے پاکستانی جہازوں کا بھارت میں فیول ڈالوانے کے لئےلیے بھارت ٹھہرنا لازمی تھا۔ جبکہ پاکستانی حکام اس بات کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ کیونکہ حساس ترین آلات بھارت کے ہاتھ نہ چڑھ جائیں ، جس کے بعد بھارت ثبوتوں کیساتھ دنیا میں واویلا مچانا شروع کر دے یہ انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا۔ کیونکہ سنگاپور کے علاؤہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ یہ بظاہر ایک ناممکن ترین مشن تھا۔ کہ آپ نے اپنی سب سے خفیہ اور حساس ترین چیز اپنے سب سے بڑے دشمن کی نظروں کے سامنے سے لیکر جانی تھیں۔ ذرہ سا شک بھی سارے پلان کو دفن کر سکتا تھا۔ مگر اس مشکل ترین مشن کا بیڑا بھی آئی ایس آئی کے سر پھرے مارخوروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ آئی ایس آئی کے مارخوروں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ حساس آلات پر بھارت کی نظر بھی نہیں پڑھنے دیں گے۔ اس مقصد کے لئےلیے آئی ایس آئی کے سپیشل کمانڈ کو پہلے بھارت اور
سنگاپور کے ائیرپورٹوں پر تائنات کیا گیا۔ اور پھر بالکل کامیابی کے ساتھ نیوکلیئر سامان سے بھرے ہوئے جہاز بھارت کے ائیرپورٹ پر اترے، کئی گھنٹوں سٹے کرنے کے بعد تیل ڈالوایا اور پاکستان آئے۔ بھارت جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تھا اس سارے معاملے میں بے خبر رہا کہ پاکستان اس کےائیرپورٹ کو نیوکلیئر سامان کی منتقلی کیلئےکے لیے استعمال کر چکا تھا۔ یہ دنیاکی نظر میں ناممکن ترین مشن تھا۔جسے آئی ایس آئی نے ممکن کر دیکھایا۔ یوں ہی نہیں کہتے کہ ‎#ISI پاکستان کےدفاع کی ‎#آخری_لکیر ہے۔جو پاکستان کی سلامتی کی خاطر ہر حد عبور کر جاتی ہے.
‎#مارخورز زندہ باد🇵🇰❤️