"سورہ دہر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← گذر، جنھوں؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 19:
}}
 
[[قرآن|قرآن مجید]] کی 76 ویں [[سورۃ|سورت]] جس کے 2 رکوع میں 31 آیات ہیں۔
== نام ==
 
سطر 32:
دراصل جس بنا پر اس سورت کے یا اس کی بعض آیات کے مدنی ہونے کا خیال پیدا ہوا ہے وہ ایک روایت ہے جو عطاء نے [[ابن عباس]] {{رض مذ}} سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتب حضرات [[حسن ابن علی|حسن]] و [[حسین ابن علی|حسین]] رضی اللہ عنہما بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ {{درود}} اور بہت سے [[صحابی|صحابہ]] ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بعض صحابہ نے [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] {{رض مذ}} کو مشورہ دیا کہ آپ دونوں بچوں کی شفا کے لیے [[اللہ|اللہ تعالٰی]] سے کوئی نذر مانیں۔ چنانچہ حضرت علی {{رض مذ}}، [[فاطمۃ الزھراء|حضرت فاطمہ]] {{رض مو}} اور ان کی خادمہ [[فضہ]] {{رض مو}} نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے دونوں بچوں کو شفا عطا فرما دی تو یہ سب شکرانے کے طور پر تین دن کے [[روزہ|روزے]] رکھیں گے۔ اللہ کا فضل ہوا کہ دونوں تندرست ہو گئے اور تینوں صاحبوں نے نذر کے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ حضرت علی {{رض مذ}} کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ انہوں نے تین صاع جو خرید لیے (اور ایک روایت میں ہے کہ محنت مزدوری کر کے حاصل کیے) پہلا روزہ کھول کر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک مسکین نے کھانا مانگا۔ گھر والوں نے سارا کھانا اسے دے دیا اور خود پانی پی کر سو رہے۔ دوسرے دن پھر [[افطار]] کے بعد کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک یتیم آگیا اور اس نے سوال کیا۔ اس روز بھی سارا کھانا انہوں نے اس کو دے دیا اور پانی پی کر سو رہے۔ تیسرے دن روزہ کھول کر ابھی کھانے کو بیٹھے ہی تھے کہ ایک قیدی نے آ کر وہی سوال کر دیا اور اس روز کا بھی پورا کھانا اسے دے دیا گیا۔ چوتھے روز حضرت علی {{رض مذ}} دونوں بچوں کو لیے ہوئے رسول اللہ {{درود}} کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے دیکھا کہ بھوک کی شدت سے تینوں باپ بیٹوں کا برا حال ہو رہا ہے۔ آپ اٹھ کر اُن کے ساتھ حضرت فاطمہ {{رض مو}} کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی ایک کونے میں بھوک سے نڈھال پڑی ہیں۔ یہ حال دیکھ کر حضور {{درود}} پر رقت طاری ہو گئی۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لیجیے، اللہ تعالٰی نے آپ کے [[اہل بیت]] کے معاملہ میں آپ کو مبارک باد دی ہے۔ حضور {{درود}} نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں یہ پوری سورت آپ کو پڑھ کر سنائی ([[ابن مہران]] کی روایت میں ہے کہ آیت ‘‘ان الابرار یشربون‘‘ سے لے کر آخر تک آیات سنائیں گئیں مگر [[ابن مردویہ]] نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آیت ‘‘و یطعمون الطعام‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس قصے کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔) یہ پورا قصہ [[علی بن احمد الواحدی]] نے اپنی [[تفسیر البسیط]] میں بیان کیا ہے اور غالباً اسی سے زمخشری، رازی اور نیسا بوری وغیرہم نے اسے نقل کیا ہے۔
 
یہ روایت اول تو سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے۔ پھر درایت کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسکین، ایک یتیم اور ایک قیدی اگر آ کر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں افراد کا پورا کھانا اس کو دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک آدمی کا کھانا اس کو دے کر گھر کے پانچ افراد چار آدمیوں کے کھانے پر اکتفا کر سکتے تھے۔ پھر یہ بھی باور کرنا مشکل ہے کہ دو بچے جو ابھی ابھی بیماری سے اٹھے تھے اور کمزوری کی حالت میں تھے، انہیں بھی تین دن بھوکا رکھنے کو حضرت علی اور حضرت فاطمہ جیسی کامل فہمِ دین رکھنے والی ہستیوں نے نیکی کا کام سمجھا ہوگا۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے معاملے میں یہ طریقہ اسلامی حکومت کے دور میں کبھی نہیں رہا کہ انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ وہ اگر حکومت کی قید میں ہوتے تو حکومت ان کی خوراک اور لباس کا انتظام کرتی تھی اور کسی شخص کے سپرد کیے جاتے تو وہ شخص انہیں کھانے پلانے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اس لیے مدینہ طیبہ میں یہ بات ممکن نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا۔ تاہم ان تمام نقلی اور عقلی کمزوریوں کو نظر انداز کر کے اگر اس قصے کو بالکل صحیح ہی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اس سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب آل محمد {{درود}} سے اس نیک عمل کا صدور ہوا تو جبریل علیہ السلام نے آ کر حضور {{درود}} کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالٰی کے ہاں آپ کے اہل بیت کا یہ فعل بہت مقبول ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹھیک وہی پسندیدہ کام کیا ہے جس کی تعریف اللہ تعالٰی نے سورۂ دہر کی ان آیات میں فرمائی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیات نازل بھی اسی موقع پر ہوئی تھیں۔ شان نزول کے بارے میں بہت سی روایات کا حال یہی ہے کہ کسی آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو دراصل اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت اس واقعہ پر ٹھیک چسپاں ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے اتقان میں حافظ [[امام ابن تیمیہ|ابن تیمیہ]] کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
{{اقتباس|راوی جب یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ہے تو کبھی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہی معاملہ اس کے نزول کا سبب ہے، اور کبھی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے اگرچہ وہ اس کے نزول کا سبب نہ ہو}}
آگے چل کر وہ [[امام بدر الدین زرکشی]] کا قول ان کی کتاب [[البرہان فی علوم القرآن]] سے نقل کرتے ہیں کہ
{{اقتباس|صحابہ اور [[تابعین]] کی یہ عادت معروف ہے کہ ان میں سے کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا حکم اس معاملہ پر چسپاں ہوتا ہے، نہ یہ کہ وہی اس واقعہ کے نزول کا سبب ہے۔ پس دراصل اس کی نوعیت آیت کے حکم سے استدلال کی ہوتی ہے نہ کہ بیانِ واقعہ کی}} <ref>الاتقان فی علوم القرآن، جلد اول، صفحہ 31، طبع 1929ء</ref>
 
سطر 45:
پھر صرف ایک آیت میں دو ٹوک طریقے سے بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اس امتحان سے کافر بن کر نکلیں گے انہیں آخرت میں کیا انجام دیکھنا ہوگا۔
 
اس کے بعد آیت نمبر 5 سے 22 تک مسلسل ان انعامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے جن سے وہ لوگ اپنے رب کے ہاں نوازے جائیں گے جنہوںجنھوں نے یہاں بندگی کا حق ادا کیا ہے۔ ان آیات میں صرف ان کی بہترین جزا بتانے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ مختصراً یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ان کے وہ کیا اعمال ہیں جن کی بنا پر وہ اس جزا کے مستحق ہوں گے۔ مکی دور کی ابتدائی سورتوں کی خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں [[اسلام]] کے بنیادی عقائد اور تصورات کا مختصر تعارف کرانے کے ساتھ ساتھ کہیں وہ اخلاقی اوصاف اور نیک اعمال بھی بیان کیے گئے ہیں جو اسلام کی نگاہ میں قابل قدر ہیں اور کہیں اعمال و اخلاق کی ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اسلام انسان کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اس لحاظ سے بیان نہیں کی گئی ہیں کہ ان کا کیا اچھا یا برا نتیجہ دنیا کی اس عارضی زندگی سے نکلتا ہے، بلکہ صرف اس حیثیت سے ان کا ذکر کیا ہے کہ آخرت کی ابدی اور پائیدار زندگی میں ان کا مستقل نتیجہ کیا ہوگا قطع نظر اس سے کہ دنیا میں کوئی بری صفت مفید ہو یا کوئی اچھی صفت نقصان دہ ثابت ہو۔
 
یہ پہلے رکوع کا مضمون ہے۔ اس کے بعد دوسرے رکوع میں رسول اللہ {{درود}} کو مخاطب کر کے تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دراصل یہ ہم ہی ہیں جو اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تم پر نازل کر رہے ہیں اور اس سے مقصود حضور {{درود}} کو نہیں بلکہ کفار کو خبردار کرنا ہے کہ یہ قرآن محمد {{درود}} خود اپنے دل سے نہیں گھڑ رہے ہیں بلکہ اس کے نازل کرنے والے "ہم" ہیں اور ہماری حکمت ہی اس کی مقتاضی ہے کہ اسے یک بارگی نہیں بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کریں۔ دوسری بات حضور {{درود}} سے یہ فرمائی گئی ہے کہ تمہارے رب کا فیصلہ صادر ہونے میں خواہ کتنی ہی دیر لگے اور اس دوران میں تم پر خواہ کچھ ہی گزرگذر جائے، بہرحال تم صبر کے ساتھ اپنا فریضۂ رسالت انجام دیے چلے جاؤ اور کبھی ان بد عمل اور منکر حق لوگوں میں سے کسی کے دباؤ میں نہ آؤ۔ تیسری بات آپ سے یہ فرمائی گئی ہے کہ شب و روز اللہ کو یاد کرو، [[نماز]] پڑھو اور راتیں اللہ کی عبادت میں گزارو، کیونکہ یہی وہ چیز ہے جس سے کفر کی طغیانی کے مقابلے میں اللہ کی طرف بلانے والوں کو ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے۔
 
پھر ایک فقرے میں کفار کے غلط رویے کی اصل وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ آخرت کو بھول کر دنیا پر فریفتہ ہو گئے ہیں اور دوسرے فقرے میں ان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم خود نہیں بن گئے ہو، ہم نے تمہیں بنایا ہے، یہ چوڑے چکلے سینے اور مضبوط ہاتھ پاؤں تم نے خود اپنے لیے نہیں بنا لیے ہیں، ان کے بنانے والے بھی ہم ہی ہیں اور یہ بات ہر وقت ہماری قدرت میں ہے کہ جو کچھ ہم تمہارے ساتھ کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ تمہاری شکلیں بگاڑ سکتے ہیں، تمہیں ہلاک کر کے کوئی دوسری قوم تمہاری جگہ لا سکتے ہیں۔ تمہیں مار کر دوبارہ جس شکل میں چاہیں تمہیں پیدا کر سکتے ہیں۔