"ویکیپیڈیا:منتخب مضامین/2021/ہفتہ 24" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
درستی
- اضافہ
سطر 1:
[[فائل:Azim Premji - World Economic Forum Annual Meeting Davos 2009.jpg|تصغیر|[[بھارت]] کے نامور صنعتی گھرانے [[وپرو]] کے صدر نشین [[عظیم پریم جی]] کی ایک برسر خطاب تصویر۔ وہ [[2018ء]] تک پورے ملک میں دوسرے سب سے مال دار ترین شخص تھے۔ مگر اس کے اگلے ہی سال انہوں نے اپنی دولت کا بیش تر حصہ خیراتی اور رفاہی کاموں میں خرچ کیا اور وہ 17ویں مقام پر جا پہونچے۔ [[2020ء]] میں شروع کووڈ 19 وبا کی وجہ سے بھی رفاہی کاموں میں مزید لگے رہے۔ دنیا کے دس سب سے زیادہ خیرات کرنے والے والوں کی فہرست میں وہ واحد بھارت کے شخص بن چکے ہیں، جب کہ پورے ملک میں اس وبا سے لڑنے اور عوامی خدمت کے لیے ان سے بڑھ کر کسی نے خرچ نہیں کیا۔]] [[بالی وڈ]] کے مشہور ادا کار [[سلمان خان]]خدمت خلق کے جذبے سے اپنے فلمی کریئر میں ہمیشہ سے سرشار رہے ہیں۔انہوں نے اپنے ملک کے غریب اور نادار بچوں کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک ادارہ [[بیئنگ ہیومن فاؤنڈیشن]] [[2007ء]] میں قائم کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی رفاہوں اور امدادی کاموں سے جڑے رہے ہیں۔ بیئنگ ہیومن فاؤنڈیشن نے جنگ زدہ ملک [[سری لنکا]] میں ''ہیومینٹی ٹاؤن'' کے نام سے سو خاندانوں کی [[2014ء]] میں باز آباد کاری بھی کی تھی۔ انہوں نے بھارت میں کورونا وائرس کی پہلی لہر یعنی مارچ اپریل [[2020ء]] کے دوران فلمی صنعت میں روزانہ کی آمدنی پر گذر بسر کرنے والے پچیس ہزار افراد کو مالی امداد کا منصوبہ بنایا اور اپنی آنے والی فلم [[رادھے (2021ء فلم)|رادھے یوئر موسٹ وانڈیڈ بھائی]] کی ٹیم کے عملے کے بینک کھاتوں میں راست طور پر امدادی رقم منتقل کی۔
کورونا وائرس کی وبا سے نجات کا راستہ ماہرین نے کووڈ 19 کے [[ویکسین]]وں کو قرار دیا تھا، مگر ملک کی کثیر آبادی کو ویکسین لگوانا بھی ایک بے دشوار امر ثابت ہونے لگا۔ اس کے علاوہ علاج کے لیے در کار دوائیں اور ڈرگ جیسے کہ [[ریمڈیسیویر]] اور [[فاوی پیراویر]] کی بھاری کمی دیکھی گئی۔ اس وبا کی وجہ سے بھارت کو عالمی برادری سے مدد کے لیے دیکھنا پڑا تھا۔ [[2005ء]] سے ملک کا تسلیم شدہ اصول تھا کہ وہ اپنی سبھی [[قدرتی آفت]]وں کو خود ہی دیکھ رہا تھا اور کسی قسم کی مدد نہیں لے رہا تھا، حالاں کہ وہ بہ وقت ضرورت دوسرے ملکوں کی مدد کرتا رہا تھا۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ملک اس قدر مجبور ہوا کہ اسے دوسرے ملکوں کی مدد لینا پڑا۔ کم از کم 28 بیرونی ممالک بھارت کی مدد کے لیے آگے آئے جیسے کہ [[فرانس]]، [[ریاستہائے متحدہ امریکا]]، [[سعودی عرب]]، [[برطانیہ]]، [[قطر]] اور یہاں تک کہ پڑوسی ملک جیسے کہ [[بنگلہ دیش]] نے بھارت کی مدد کی۔ ان حالات میں بھارت میں ملک کے اپنے ہی شہریوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بھی دیکھنے میں آیا۔ کئی شہریوں نے انفرادی طور پر یا تنظیمی طور پر اہل وطن کی بلا لحاظ مذہب مدد کی کوشش کی۔ ان میں قابل ذکر [[سکھ]] فرقے کے افراد رہے، جنھوں نے جگہ جگہ [[لنگر (سکھ مت)|لنگر]] اور دیگر طور طریقوں سے مدد کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر بھارت کے [[مسلمان]] قرقے نے بھی انفرادی اور تنظیمی طور پر نمایاں امدادی کردار ادا کیا، جس کا ایک عمومی مطالعہ ذیل کے سطور میں رقم کیا گیا ہے۔ اس مطالعے میں منجملہ دیگر امور، سب سے پہلے مسلم مشاہیر کا جذبۂ انسانیت اور اہل وطن سے وابستگی اور مدد کا جذبہ، جس کے تحت انہوں نے اپنی بیش بہا دولت کو نچھاور کیا، کا ایک عمومی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں مسلمان سائنس دان اور [[طبی نگہداشت]] یا کے شعبے میں بھی جان پر کھیل کر علاج فراہم کرنے والی مسلم شخصیات کی بھی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ کچھ مسلمان ڈاکٹروں کے جذبہ خدمت خلق اور ان کی کورونا سے جنگ لڑتے لڑتے جان کی قربانی دینا کا تذکرہ موجود ہے، اگر چیکہ اس کی فہرست کافی لمبی ہے۔ لاک ڈاؤن اور کورونا سے ماحول اور معیشت میں بدحالی کے وقت عام مسلمانوں اور تنظیموں کی خدمات کا بھی سرسری جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ معلومات کے انقلاب کے دور میں بھی لوگ پڑوس میں طبی خدمات اور سہولتوں سے کئی عدم واقف ہوتے ہیں یا ان تک رسائی نہیں کر پاتے۔ اس خلاء کو پر کرنے والے مسلمان طبقے کی فعال شخصیات کی خدمات کا ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ عید قرباں واقعی قربانی کی عید میں تبدیل کی گئی ہے، جب ایک جامعہ کے فتوے کے بعد لوگ جانور کی قربانی کی بجائے اہل ضرورت کی مدد کے لیے آگے آئے۔ دیگر اہل وطن سے مسلمانوں کے میل جول اور ان سے بر وقت مدد، خصوصًا متوفی رشتے داروں کی آخری رسومات میں مدد کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
<div align="right" class="noprint">[[بھارت میں کووڈ 19 کی وبا کے دوران مسلمانوں کی سماجی خدمات|مکمل مضمون پڑھیں۔۔۔]]</div >
</div>