111,622
ترامیم
(مضمون میں اضافہ کیا ہے) |
م (خودکار: درستی املا ← 9، 0، 5، 3، 2، 4، ہو گیا، 1، عبد اللہ، 6، امرا، 7، کر لیا، 8، لیے، ہو گئے، کر دیا؛ تزئینی تبدیلیاں) |
||
[[68ھ]] میں کوفہ میں انتقال فرمایا،یہ مختار بن ابی عبید ثقفی کا دور امارت تھا ۔
== فضل و کمال ==
90[[حدیث
حضرت زید اپنے زمانہ میں مرجع علم و فضل تھے لوگ دور دور سے استفادہ کے
جہاں کہیں جاتے تو شائقین حدیث آپ کی جانب رجوع کرتے ،ایک مرتبہ بصرہ یا مکہ گئے تو حضرت عباسؓ نے درخواست کی کہ فلاں حدیث جس کو آپ نے روایت کیا تھا اس کے سننے کا پھر مشتاق ہوں۔
<ref>(مسند:
ایک مرتبہ عطیہ عوفی نے آکر کہا کہ آپ نے میرے داماد سے فلاں حدیث بیان کی تھی میں اس ارادہ سے حاضر ہوا کہ خود آکر آپ سے سنوں انہوں نے حدیث بیان کی تو عطیہ بولے یہ بھی فقرہ تھا فرمایا:
انما انا اخبرک کما سمعت
<ref>(مسند:
بھائی میں نے جو کچھ سنا تھا تم سے بیان
حدیثوں کے علاوہ جو دعائیں آنحضرتﷺ سے سنی تھیں اوریاد تھیں وہ لوگوں کو بتلاتے تھے، ایک مرتبہ کہا:
کان رسول اللہ ﷺ یعلمنا ھن ونحن نعلمکموھن
<ref>(مسند:
یعنی آنحضرتﷺ جس کو سکھلاتے تھے ہم تم کو سکھلاتے ہیں،لیکن آپ روایت حدیث میں بہت محتاط تھے۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں۔
كُنَّا إِذَا جِئْنَاهُ قُلْنَا حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّا قَدْ كَبُرْنَا وَنَسِينَا وَالْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَدِيدٌ
<ref>(مسند احمد،باب حدیث زید بن ارقمؓ،حدیث نمبر:
یعنی ہم حدیث کی درخواست کرتے تو جواب ملتا کہ میں بوڑھا
ایک مرتبہ چند آدمی سماع حدیث کے
<ref>(مسنداحمد:
اسی
اس سے روایت کرنے والوں میں حضرت انسؓ بن مالک (کتاب سے روایت کرتے تھے)
== اخلاق وعادات ==
اسلام کی روحانی تربیت کا اثر زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں ہے،سورۂ منافقین کی بعض آیات ان کے جوش ملی کی شاہد ہیں۔
ایک غزوہ میں جو نہایت عسرت و تنگی کے زمانہ میں پیش آیا تھا،اپنے چچا کے ساتھ
حضرت زید کو سخت افسوس ہوا، گھر میں جاکر بیٹھ رہے اسی حالت میں نیند آگئی،ابھی بیدار نہ ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ پر سورۂ منافقین کی آیتیں نازل ہوئیں جن میں ان کی تصدیق اور منافقین کا سارا حال مذکور تھا،آپ ﷺ نے آدمی بھیجا کہ زید کو بلالاؤ،خدمت میں پہونچے تو آیتیں سناکر ارشاد ہوا کہ:ان اللہ صدقک یا زید<ref>(بخاری:
امر بالمعروف فرائض میں داخل تھا:مسجد قبا میں کچھ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے،ادھر سے گذرے تو فرمایا کہ شاید ان کو معلوم نہیں کہ اوا بین کا اس سے بہتر ایک وقت ہے اوروہ جب ہے کہ گرمی کی شدت سے تلوے جلنے لگیں۔
<ref>(مسند:
ایک مرتبہ مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت علی ؓ کی شان میں نا ملائم الفاظ استعمال کیے، تو انہوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ مردوں کو برا کہنے سے منع کیا کرتے تھے،علیؓ کا انتقال ہوچکا اب ان کو براکیوں کہتے ہو۔
<ref>(مسند:
سنت نبویﷺ کے متبع تھے:جنازہ پر عموما
<ref>(مسند:
بارگاہ نبوی میں تقرب حاصل تھا،جب کبھی یہ بیمار پڑتے آنحضرتﷺ ان کی عیادت کے
ایک مرتبہ آنکھ میں درد اٹھا،آپ عیادت کو تشریف لائے،صحت یابی کے بعد پوچھا کیوں ابن ارقم! اگر یہ باقی رہ جاتا تو کیا کرتے؟ عرض کیا صبر کرتا اوراجر کا امیدوار رہتا،فرمایا اگر ایسا کرتے تو خدا کے سامنے بے گناہ جاتے۔<ref>(مسند:
مصیبت میں لوگوں کی ہمدردی و غمگساری کرتے تھے۔
حرہ کے واقعہ میں حضرت انسؓ کا ایک لڑکا اوربعض اعزہ مارے گئے تو ان کو تعزیت کا ایک خط لکھا کہ میں تم کو خدا کی ایک بشارت سناتا ہوں:آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ خدایا!انصار ان کی اولاددر اولاد،ان کی عورتیں اوران کی تمام اولاد کی مغفرت فرما۔
معاصرین کے کمال کا اعتراف نہایت کشادہ دلی سے کرتے تھے اور سوال کرنے والوں کو ان کے پاس بھیج د یتے تھے۔
ایک مرتبہ ابو المنہال بیع صرف کے متعلق ان سے مسئلہ دریافت کرنے آئے ،انہوں نے کہا براءؓ سے پوچھو، وہ مجھ سے بہتر اورزیاد عالم ہیں، جب وہ حضرت براءؓ بن عازب کے پاس گئے تو انہوں نے مسئلہ بتاکر کہا کہ اس کی تصدیق زیدؓ سے کرالینا وہ مجھ سے بہتر اورزیادہ جاننے والےہیں۔<ref>(مسند:
{{صحابہ}}
[[زمرہ:ساتویں صدی کی شخصیات]]
[[زمرہ:ساتویں صدی کی عرب شخصیات]]
|