"عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 24:
}}
== نام ونسب ==
'''عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی''' ایک سچے مسلمان اور صحابی رسول تھے یہ منافقوں کے سردار کے بیٹے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کانام حباب بن عبد اللہ تھا<br/>ان کا پورا نسب اس طرح ہے<br/>
ان کا پورا نسب اس طرح ہے<br/>
عبد الله بن عبد الله بن ابی بن مالك بن الحارث بن عبيد بن مالك بن سالم بن غنم بن عوف بن الخزرج الانصاری الخزرجی <br/>
ان کا والد ابن سلول ان کی وجہ سے اپنی کنیت ابو الحباب رکھتا<br/>
سطر 35 ⟵ 34:
عبد اللہ بن ابی کا بیٹا عبد اللہ مخلص مومن تھا اس نے جب اپنے باپ کے اس قول کے بارے میں سنا تو اپنے پر اشراف مدینہ کے روبروتلوار کھینچ لی اور کہا خدا کی قسم کہ میں تمہیں اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک کہ تو یہ نہ کہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہائی عزت والے ہیں اور میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں پس اس نے باپ کو نہ چھوڑا جب تک اس نے یوں نہ کہا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ مدینہ کے باہر ٹھہر گیا اور لوگ مدینہ میں داخل ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کا باپ (عبد اللہ بن ابی ) آیا تو اس نے کہا : ” ٹھہرجا “ ابن ابی بولا تجھ پر افسوس ہے کہ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی نے کہا : خدا کی قسم کہ تو کبھی بھی مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا مگر یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لیے اجازت فرمائیں اور آج تجھے ضرور پتا چل جائے گا کہ سب سے زیادہ عزت وا ال کون ہے اور سب سے زیادہ ذلت والا کون ہے پھر وہ پلٹ کر گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور جو کچھ اس کے بیٹے نے کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف پیغام بھجوایا کہ اس کو چھوڑ دو اور (جانے دو ) تو انہوں نے باپ کو جانے دیا <ref>تفسیر الحسنات ابو الحسنات سید محمد احمد قادری</ref>
عبد اللہ بن ابی کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ تم ذلیل اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں۔ پھر اس نے اقرار کیا۔<ref>جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1264</ref><ref>اصحاب بدر، صفحہ 166، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور</ref>
== غزوات ==
غزوہ بدر میں شریک ہوئے احد میں آگے کے دو دانت جنہیں ثنیہ کہاجاتا ہے ٹوٹ گئے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا تم سونے کا دانت بنوالو، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ناک اڑ گئی تھی تو سونے کی ناک بنوائی تھی، لیکن یہ صحیح نہیں مصنف اسد الغابہ نے اس کی تصریح کردی ہے۔
غزوۂ تبوک(۹ھ میں ہوا)کے موقع پر ایک انصاری اور مہاجر کے جھگڑے میں ابن ابی نے کہا تھا" لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ" یعنی مدینہ پہنچ کر بلند پایہ لوگ ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اٹھ کر کہا "اگر اجازت ہو تو اس منافق کا سراڑادوں <ref>(بخاری:۲/۷۲۸)</ref> آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔
حضرت عبداللہؓ آئے اورکہا کہ میرے باپ نے آپ کو ذلیل کہا خدا کی قسم وہ خود ذلیل ہے اس کے بعد کہا کہ اگرچہ تمام خزرج میں مجھ سے زیادہ اپنے باپ کا کوئی مطیع نہیں، تاہم اگر آپ انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں تو مجھے حکم دیجئے میں قتل کئے دیتا ہوں، لیکن اگر کسی دوسرے مسلمان نے ان کو قتل کیا تو اپنے باپ کے قاتل کو میں دیکھ نہیں سکتا، لامحالہ اس کو قتل کردونگا اورایک مسلمان کے مارنے سے جہنم کا مستوجب ہونگا، آنحضرتﷺ نے فرمایا میرا قتل کرانے کا بالکل ارادہ نہیں، لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کراتے ہیں۔
<ref>(اسد الغابہ:۳/۱۹۷)</ref>
حضرت عبداللہؓ آنحضرتﷺ سے گفتگو کرکے سڑک پر آکر کھڑے ہوگئے، ابن ابی نکلا تو اونٹ سے اتر پڑے اور کہا، تم اقرار کرو کہ میں ذلیل اور محمد عزیز ہیں، ورنہ میں آگے نہ بڑھنے دونگا، پیچھے آنحضرتﷺ تشریف لارہے تھے ،باپ بیٹے کی گفتگو سن کر فرمایا ان کو چھوڑ دو خدا کی قسم یہ جب تک ہم میں موجود ہیں ہم ان سے اچھا برتاؤ کریں گے۔
<ref>(طبقات ابن سعد:۳۴)</ref>
غزوہ تبوک کے بعد ابن ابی نے وفات پائی، حضرت عبداللہ آئے اور عرض کیا کہ اپنی قمیص اتاردیجئے میں اس میں ان کو کفن دونگا، اوران کے لئے استغفار کیجئے،آنحضرتﷺ دو کرتے زیب تن کئے ہوئے تھے، حضرت عبداللہ ؓ نے نیچے کا کرتہ پسند کیاکہ آنحضرتﷺ کا پسینہ اسی میں جذب ہوتا تھا ارشاد ہوا کہ جنازہ تیار ہو تو مجھے خبر کرنا میں نماز پڑھاؤنگا۔
قبر میں اتارے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے قبر سے نکلوایا اوراپنے گھٹنوں پر رکھ کر قمیص پہنایا اورلعاب دہن ملا، اس کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوئے،حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اس پر نماز پڑھیں گے،حالانکہ فلاں روز اس نے یہ الفاظ کہے تھےآنحضرتﷺ نے مسکرا کر فرمایا،جاؤ اپنی جگہ پر کھڑے رہو ،جب زیادہ اصرار کیا تو ارشاد ہوا کہ خدانے مجھے اختیار دیا ہے اگر ۷۰ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں اس کی مغفرت ہوجائے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔
نماز سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر میں چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں ایک یہ تھی:
وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ۔
<ref>(التوبہ:۸۴)</ref>
اور(اے پیغمبر!)ان(منافقین)میں سے کوئی مرجائے تو تم اُس پر نماز(جنازہ)مت پڑھنااور نہ اُس کی قبر پر کھڑے ہونا،یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا اور اس حالت میں مرے ہیں کہ نافرمان تھے۔
<ref>(بخاری:۱/۱۶۹،۸۰،۸۶)</ref>
وحی الہی نے حضرت عمرؓ کی تائید کی تو ان کو اپنی جسارت پر نہایت تعجب ہوا۔
== فضل وکمال ==
فضلائے صحابہؓ میں تھے،حضرت عائشہؓ ان سے حدیث روایت کرتی ہیں، لکھنا جانتے تھے اور کبھی کبھی وحی بھی لکھتے تھے۔
<ref>(اصابہ:۴/۹۶)</ref>
 
 
 
== حوالہ جات ==