"عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: درستی املا ← کیے، 0، 3، \1ؤں گا، جنھوں، عبد اللہ، کرتا، 9، 6، 2، 8، 7، ہو گئے، 1، لیے، \1وں گا، \1 رہے، 4؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 34:
== غزوات ==
غزوہ بدر میں شریک ہوئے احد میں آگے کے دو دانت جنہیں ثنیہ کہاجاتا ہے ٹوٹ گئے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا تم سونے کا دانت بنوالو، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ناک اڑ گئی تھی تو سونے کی ناک بنوائی تھی، لیکن یہ صحیح نہیں مصنف اسد الغابہ نے اس کی تصریح کردی ہے۔
غزوۂ تبوک(۹ھ میں ہوا)کے موقع پر ایک انصاری اور مہاجر کے جھگڑے میں ابن ابی نے کہا تھا" لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ" یعنی مدینہ پہنچ کر بلند پایہ لوگ ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اٹھ کر کہا "اگر اجازت ہو تو اس منافق کا سراڑادوں <ref>(بخاری:۲2/۷۲۸728)</ref> آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔
حضرت عبداللہؓعبد اللہؓ آئے اورکہا کہ میرے باپ نے آپ کو ذلیل کہا خدا کی قسم وہ خود ذلیل ہے اس کے بعد کہا کہ اگرچہ تمام خزرج میں مجھ سے زیادہ اپنے باپ کا کوئی مطیع نہیں، تاہم اگر آپ انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں تو مجھے حکم دیجئے میں قتل کئےکیے دیتا ہوں، لیکن اگر کسی دوسرے مسلمان نے ان کو قتل کیا تو اپنے باپ کے قاتل کو میں دیکھ نہیں سکتا، لامحالہ اس کو قتل کردونگاکردوں گا اورایک مسلمان کے مارنے سے جہنم کا مستوجب ہونگا، آنحضرتﷺ نے فرمایا میرا قتل کرانے کا بالکل ارادہ نہیں، لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کراتے ہیں۔
<ref>(اسد الغابہ:۳3/۱۹۷197)</ref>
حضرت عبداللہؓعبد اللہؓ آنحضرتﷺ سے گفتگو کرکے سڑک پر آکر کھڑے ہوگئے،ہو گئے، ابن ابی نکلا تو اونٹ سے اتر پڑے اور کہا، تم اقرار کرو کہ میں ذلیل اور محمد عزیز ہیں، ورنہ میں آگے نہ بڑھنے دونگا، پیچھے آنحضرتﷺ تشریف لارہےلا رہے تھے ،باپ بیٹے کی گفتگو سن کر فرمایا ان کو چھوڑ دو خدا کی قسم یہ جب تک ہم میں موجود ہیں ہم ان سے اچھا برتاؤ کریں گے۔
<ref>(طبقات ابن سعد:۳۴34)</ref>
غزوہ تبوک کے بعد ابن ابی نے وفات پائی، حضرت عبداللہعبد اللہ آئے اور عرض کیا کہ اپنی قمیص اتاردیجئے میں اس میں ان کو کفن دونگا، اوران کے لئےلیے استغفار کیجئے،آنحضرتﷺ دو کرتے زیب تن کئےکیے ہوئے تھے، حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے نیچے کا کرتہکرتا پسند کیاکہ آنحضرتﷺ کا پسینہ اسی میں جذب ہوتا تھا ارشاد ہوا کہ جنازہ تیار ہو تو مجھے خبر کرنا میں نماز پڑھاؤنگا۔پڑھاؤں گا۔
قبر میں اتارے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے قبر سے نکلوایا اوراپنے گھٹنوں پر رکھ کر قمیص پہنایا اورلعاب دہن ملا، اس کے بعد نماز کے لئےلیے کھڑے ہوئے،حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اس پر نماز پڑھیں گے،حالانکہ فلاں روز اس نے یہ الفاظ کہے تھےآنحضرتﷺ نے مسکرا کر فرمایا،جاؤ اپنی جگہ پر کھڑے رہو ،جب زیادہ اصرار کیا تو ارشاد ہوا کہ خدانے مجھے اختیار دیا ہے اگر ۷۰70 مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں اس کی مغفرت ہوجائے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔
نماز سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر میں چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں ایک یہ تھی:
وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ۔
<ref>(التوبہ:۸۴84)</ref>
اور(اے پیغمبر!)ان(منافقین)میں سے کوئی مرجائے تو تم اُس پر نماز(جنازہ)مت پڑھنااور نہ اُس کی قبر پر کھڑے ہونا،یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوںجنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا اور اس حالت میں مرے ہیں کہ نافرمان تھے۔
<ref>(بخاری:۱1/۱۶۹،۸۰،۸۶169،80،86)</ref>
وحی الہی نے حضرت عمرؓ کی تائید کی تو ان کو اپنی جسارت پر نہایت تعجب ہوا۔
== فضل وکمال ==
فضلائے صحابہؓ میں تھے،حضرت عائشہؓ ان سے حدیث روایت کرتی ہیں، لکھنا جانتے تھے اور کبھی کبھی وحی بھی لکھتے تھے۔
<ref>(اصابہ:۴4/۹۶96)</ref>
 
 
سطر 58:
{{اصحاب بدر}}
{{کاتبین وحی}}
 
[[زمرہ:اصحاب احد]]
[[زمرہ:اصحاب بدر]]