"عکرمہ بن ابوجہل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 29:
عکرمہ مشہور دشمن اسلام ابو جہل کے بیٹے ہیں، باپ کی طرح انہوں نے بھی اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بڑی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا،اس معرکہ میں ان کا باپ معوذ اورمعاذ دو نوجوان کے ہاتھوں سے مارا گیا، باپ کو خاک وخون میں تڑپتا دیکھ کر عکرمہ نے اس کے قاتل معاذ پر ایسا وار کیا کہ معاذ کا ہاتھ لٹک گیابدر کے بعد جن لوگوں نے ابو سفیان کو مقتولین بدر کے انتقام لینے پرآمادہ کیا تھا،ان میں ایک عکرمہ بھی تھے، احد میں یہ اور خالد مشرکین کی کمان کرتے تھے، 5ھ میں جب تمام مشرکین عرب نے اپنے قبیلوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی تو عکرمہ بھی بنی کنانہ کو لیکر مسلمانوں کے استیصال کے لیے گئے فتح مکہ میں اہل مکہ نے بغیر کسی مقابلہ کے سپر ڈال دی تھی،لیکن بعضوں نے جن میں عصبیت زیادہ تھی مزاحمت کی، ان میں ایک عکرمہ بھی تھے غرض شروع سے آخر تک اُنہوں نے ہر موقع پر اپنی اسلام دشمنی کا پورا ثبوت دیا۔<ref>سیرۃ ابن ہشام:2/365</ref>
یہ بھاگ کر [[یمن]] چلے گئے لیکن ان کی بیوی ''اُمِ حکیم'' جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیااوراپنے شوہر عکرمہ کے لیے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے معاف فرمادیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد {{درود}} نے معاف کر دیا! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ اور ملتے ہوئے فرمایا(مَرْحَباً بِالرَّاكِبِ المُهَاجِرِ) اے ہجرت کرنے والے سوار مرحبا پھر عکرمہ نے خوشی خوشی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (موطا [[امام مالک]] کتاب النکاح وغیرہ)<ref>سیرتِ مصطفی، مؤلف عبد المصطفیٰ اعظمی، صفحہ449، مکتبۃ المدینہ، باب المد ینہ، کراچی۔</ref><ref>سیر اعلام البنلاء علامہ ذھبی</ref>
== شام کی فوج کشی ==
فتنہ ارتداد فروہونے کے بعد شام کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور تادمِ آخر نہایت جانفروشی سے لڑتے رہے، فحل کے معرکہ میں اس بہادری اور شجاعت سے لڑے کہ بے محابا دشمنوں کی صفوں میں گھستے چلے جاتے تھے،ایک مرتبہ لڑتے مارتے ہوئے صفوں کے اندر گھس گئے،سر اور سینہ زخموں سے چور ہوگیا، لوگوں نے کہا، عکرمہ! خدا سے ڈرو، اس طرح اپنے کوہلاک نہ کرو، ذرا نرمی سے کام لو، جواب دیا میں لات و عزیٰ کے لیے تو جان پر کھیلا کرتا تھا اورآج خدا اور رسول کے لیے جان بچاؤں ،خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
<ref>(اسد الغابہ:۴/۶)</ref>
شام کی تمام معرکہ آرائیوں میں یرموک کا معرکہ نہایت اہم شمار کیا جاتا ہے، اس میں خالد بن ولید نے ان کو ایک دستہ کا افسر بنایا تھا، عکرمہ نے افسری کا پورا حق ادا کیا، دوران جنگ میں ایک مرتبہ رومیوں کا ریلا اتنا زبردست ہوا کہ مسلمانوں کے قدم ڈگمگا گئے،عکرمہ نے للکار کر کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کتنی لڑائیاں لڑچکے ہیں اور آج تمہارے مقابلہ میں بھاگ نکلیں گے؟ اورآواز دی کہ کون موت پر بیعت کرتا ہے؟ اس آواز پر چار سو مسلمان ان کے ساتھ جان دینے کے لیے آمادہ ہوگئے،ان کو لیکر عکرمہ خالد ؓبن ولید کے خیمہ کے سامنے اس پامردی سے لڑے کہ چار سو آدمیوں میں سے اکثروں نے جامِ شہادت پیا، جو بچے وہ بھی زخموں سے بالکل چور تھے،عکرمہ اور ان کے دولڑکے زخموں سے چور چور ہوگئے،لڑکوں کی حالت زیادہ نازک تھی،خالد بن ولید انہیں دیکھنے کے لیے آئے اوران کے سروں کو زانو پر رکھ کر سہلاتے جاتے تھے اورحلق میں پانی ٹپکاتے جاتے تھے۔
(طبری:۲۱۵)
== غزوات ==
عکرمہ کو گذشتہ اسلام دشمنی کی تلافی کی بڑی فکر تھی؛چنانچہ وہ قبول اسلام کے بعد ہمہ تن اس کی تلافی میں لگ گئے اورآنحضرتﷺ کی حیات میں جو موقع بھی اس قسم کا پیش آیا، اس کو انہوں نے نہ چھوڑا،حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں، کان عکرمۃ محمراً فی قتل المشرکین مع المسلمین۔