"امام رضا کی ولی عہدی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
(ٹیگ: ترمیم ماخذ 2017ء)
م خودکار: درستی املا ← گذرا، گذرنا؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 23:
تاریخ کے ابتدائی مآخذوں میں مذکور ہے کہ [[امام رضا]] نے [[مدینہ]] سے [[بصرہ]] کی جانب سفر شروع کیا<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج3، ص176؛ کلینی، الکافی، ج 2، ص 407؛ ابن طقطقی، تاریخ فخری، ص 300٫</ref>۔لیکن متاخر منبعوں میں آیا ہے کہ آپ شروع میں [[مکہ]] گئے<ref>عرفان منش، ''جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا''، ص28</ref> نیز [[امام محمد تقی]] آپ کے ہمراہ تھے۔امام نے [[خانۂ خدا]] کو خدا حافظ کیا پھر [[بصرہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔ بہرحال آپ کی بصرہ کی جانب روانگی کی تاریخ201 ق کے [[محرم]] 15 تاریخ کے قریب تھی۔
 
مامون کے دستور کے مطابق فضل بن سہل کا رشتے دار رجاء بن ضحاک [[امام علی رضا ]] کو مدینہ سے خراسان لے کر آیا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، 1378، ج2، ص465.</ref> شیخ مفید نے رجاء بن ضحاک کی بجائے [[عیسی جلودی|جلودی]] کا نام ذکر کیا ہے ۔<ref>مفید، الارشاد، قم، 1428ق، ص455.</ref> مأمون نے ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا کہ امام کو [[شیعہ]] نشین علاقوں سے نہ گزرناگذرنا پڑے کیونکہ اسے اسے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں [[شیعہ]] ان کے ساتھ نہ ہوجائیں اسی وجہ سے اس نے حکم دیا تھا کہ امام کو [[کوفہ]] کے راستے سے نہ لایا جائے بلکہ انہیں بصرے، [[خوزستان]]، [[فارس]] اور [[نیشاپور]] کے راستے سے لایا جائے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ج18، ص124.</ref>
 
[[اطلس شیعہ]] کے مطابق [[امام علی رضا|حضرت امام رضا ؑ]] کو [[خراسان]] لائے جانے کا راستہ یہ تھا:: [[مدینہ]]،''' نقره، ہوسجہ، نباج، حفر ابوموسی، بصره، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوه، ده شیر (فراشاه)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاه، ده سرخ، [[طوس]]، سرخس، مرو'''.<ref>جعفریان، حیات فکری سیاسی امامان شیعہ، ص95.</ref>
سطر 32:
[[مرو]] میں امام رضا(ع) مستقر ہونے کے بعد [[مامون الرشید]] کا ایک قاصد امام رضا(ع) کے پاس آیا اور تجویز دی کہ "میں اپنے آپ کو [[خلافت]] سے معزول کرتا ہوں اور خلافت کو آپ کے سپرد کرتا ہوں"، آپ اس سلسلے میں مجھے اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ امام(ع) نے سختی سے اس تجویز کی مخالفت کی۔ اس کے بعد [[مامون]] نے آپ سے درخواست کی کہ اس کی ولیعہدی قبول کریں اور یہ کہ وہ اپنے بعد خلافت آپ کے سپرد کرے! امام(ع) نے پھر بھی سخت مخالفت کی۔ اس کے بعد [[مامون]] نے امام(ع) کو اپنے گھر بلوایا جہاں آپ(ع) اور [[مامون]] کے علاوہ [[فضل بن سہل]] ذوالریاستین بھی موجود تھا؛ [[مامون]] نے کہا: میں مسلمانوں کے امور آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں اور یہ ذمہ داری اپنے کندھوں سے اٹھانا چاہتا ہوں اور آپ کے کندھوں پر ڈالنا چاہتا ہوں۔
 
امام رضا(ع) نے جواب دیا: اے امیرالمؤمنین تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں، تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں! میں نے یہ ذمہ داری برداشت کرسکتا ہوں اور نہ ہی اس کی قوت رکھتا ہوں۔
 
[[مأمون]] نے کہا: میں اپنے بعد ولیعہدی کا عہدہ آپ کو سونپ دیتا ہوں۔
سطر 68:
[[مأمون]] کو جب [[حمید بن مہران]] اور دوسرے عباسیوں کی طرف سے ملامت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے کہا: "یہ مرد ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا؛ وہ لوگوں کو اپنی جانب بلاتا تھا، اسی بنا پر ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمارا ولیعہد بنے تاک وہ ہر چند لوگوں کو اپنی جانب بلائے سب کچھ ہمارے حق میں تمام ہوجائے"۔<ref> صدوق، عیون اخبار الرضا(ع) ج 2، 1373، صص 309 </ref>
 
امام رضا(ع) [[مأمون]] کے ارادوں سے واقف تھے چنانچہ آپ نے خود [[مأمون]] سے کہا: تم چاہتے ہو کہ لوگ کہنا شروع کریں کہ "علی بن موسی دنیا اور اقتدار کی طرف بےرغبت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ہے کہ اس کی طرف رغبت نہيں رکھتی؛ کیا تم نہيں دیکھتے کہ کس طرح اس نے اقتدار کی محبت میں ولیعہدی کا عہدہ قبول کیا ہے!"۔<ref>صدوق، عیون اخبار الرضا ج 2، 1373، صص 314-315.</ref> <br /> جب لوگوں نے امام(ع) سے ولی عہدی قبول کرنے کا سبب پوچھا تو آپ(ع) نے فرمایا: میں نے یہ عہدہ جبر و اکراہ کی بنا پر قبول کیا ہے۔<ref>رجوع کریں: صدوق، عیون الاخبار ج 2، 1373، صص 309، 312-313۔</ref> <br /> امام(ع) نے ولیعہدی کا منصب سنبھالنے کے لیے جو شرطیں رکھ لیں وہ در حقیقت حکومت میں شرکت سے آپ کی بیزاری کے مترادف ہیں؛ کیونکہ امام(ع) نے فرمایا: میں ہرگز کسی کو کسی منصب پر متعین نہ کروں گا، کسی کو معزول نہ کروں گا، نہ کسی رسم و روایت کو توڑوں گا اور موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لاؤں گا؛ صرف دور سے حکومت کے معاملے میں مشیر کا کردار ادا کروں گا۔ اس شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ امام(ع) نے یہ عہدہ بامر مجبوری قبول کیا تھا۔ <br /> علاوہ ازیں بعض منابع میں منقول ہے کہ امام(ع) نے فرمایا: یہ عہدہ انتہا تک نہ پہنچ سکے گا۔ <br /> ولایت عہدی کی سند کی پشت پر امام(ع) کے تحریر کردہ فقروں کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کو یہ سب کچھ ناپسند تھا اور آپ اس کے ناپسندیدہ انجام سے باخبر تھے۔ <br /> چنانچہ بہت تھوڑا عرصہ ہی گزراگذرا تھا کہ [[بغداد]] میں عباسیوں نے مامون کے خلاف بغاوت کرکے [[ابراہیم بن مہدی]] کے ہاتھ پر بیعت کی؛ [مامون کے دھوکے میں آنے والے] علوی بھی سمجھ گئے کہ اس نے یہ کام ایمان کی رو سے انجام نہيں دیا تھا اور ایک بار پھر عباسیون کے خلاف تحریک شروع ہوئی چنانچہ مامون کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ امام رضا(ع) کو راستے سے ہٹا دے۔ <ref>زندگانی سیاسی ہشتمین امام، تالیف جعفر مرتضی حسینی عاملی، بحوالہ علی اکبر دہ خدا، لغتنامہ، (50 جلدی) ج 25، مدخل "رضا" صص 484 تا 486۔</ref>
 
== حوالہ جات ==