"ابو سفیان بن حرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← 2، 5، 3، موقع، کر دیں، عبد اللہ، 4، 6، ہو سکے، ہو گئی، 1، 8، ہو گیا
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 33:
اس واقعہ سے ایک حد تک ابو سفیان کی قسم پوری ہو گئی، لیکن ابھی مقتولین بدر کا انتقام باقی تھا،اورجن جن لوگوں کے اعزہ واقربا مارے گئے تھے وہ انتقام کے لیے بےچین تھے؛چنانچہ ابو جہل کا لڑکا عکرمہ،عبد اللہ بن ربیعہ،صفوان بن امیہ، اورجن جن لوگوں کے اعزہ واقربا مارے گئے تھے،ابوسفیان کے پاس پہنچے اورکہا آپ لوگ اپنے کارواں تجارت (یہ وہی کارواں تجارت ہے،جو بدر کے زمانہ میں سامانِ تجارت لے کر گیا تھا) کا نفع ہم کو دیدیجئے کہ اس کے ذریعہ ہم لوگ محمدﷺ کے مقابلہ کا سامان کریں ،ابو سفیان نے کہا میں اپنا حصہ سب سے پہلے دیتا ہوں اس کے علاوہ قریشی خاندان کے ہر ممبر نے نہایت فراخ دلی کے ساتھ چند ہ دیا۔
<ref>(سیرت ابن ہشام،جلد1،صفحہ436،وابن سعد حصہ مغازی :25)</ref>
غرض قریش تیاریاں کرکے بڑے سروسامان سے مسلمانوں کے استیصال کے لئے نکلے اور مدینہ کے پاس کوہ احد پر فوجیں اتاریں، آنحضرتﷺ سات سو جان نثاروں کی مختصر جماعت لیکر مدافعت کے لیے تشریف لے گئے،احد پر دونوں کا مقابلہ ہوا، مسلمانوں کی جانفروشی نے کفر کے ٹڈی دل کو پسپا کردیا، آنحضرتﷺ نے صف بندی کے وقت مسلمانوں کا ایک دستہ پشت پر حفاظت کے لیے متعین کردیا تھا، کہ مخالفین عقب سے حملہ آور نہ ہوسکیں،مشرکین کی پسپائی کو دیکھ کراس دستہ نے مالِ غنیمت کی طمع میں اپنا مرکز چھوڑدیا،خالد بن ولید مشرکین کے دستے کو لیے ہوئے منڈلارہے تھے،انہوں نے میدان خالی پاکر عقب سے حملہ کردیا، مسلمان اس ناگہانی حملہ کی تاب نہ لاسکے اور بہت بری طرح پیچھے ہٹے، بہت سے مسلمان اس پسپائی میں شہید ہوگئے،آنحضرتﷺ کا چہرۂ انور زخمی اور دندانِ مبارک شہید ہوئے،آپ کے پاس چند جان نثاروں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہ گیا تھا، ہر شخص اپنی جگہ بد حواس ہورہا تھا، اس لیے آپ کی شہادت کی خبر اُڑ گئی۔
ابو سفیان یہ خبر سنکر فرطِ مسرت سے پہاڑ پر چڑھ گیا،اورفاتحانہ غرور میں باآواز بلند پوچھا محمدﷺ ہیں !آنحضرتﷺ نے لوگو کو منع کردیا کہ جواب نہ دیا جائے ،جب ابو سفیان کے سوال کا کوئی جواب نہ ملا،تو سمجھا نصیب دشمنان محمد ﷺ کا کام تمام ہوگیا، دوسری آواز دی،ابن ابی قحافہ (حضرت ابوبکرؓ) ہیں اس سوال پر بھی کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تیسری مرتبہ اس نے حضرت عمرؓ کو پکارا،اس مرتبہ بھی جواب نہ ملا، یہ خاموشی دیکھ کر وہ سمجھا کہ سب ختم ہوگئے ،حضرت عمرؓ سے ضبط نہ ہوسکا، آپ پکارا ٹھے،او دشمنِ خدا تیرے رسوا کرنے والوں کو خدا نے زندہ رکھا ہے، یہ سن کر اس نے ہبل کی جے پکاری "اعل ہبل" ہبل بلندرہ ’ صحابہ نے آنحضرتﷺ کے حکم سے جواب میں کہا " اللہ اعلی واجل " خدا برتر اور بڑا ہے، یہ جواب سن کر ابو سفیان بولا ،لنا عزی ولا عزی لکم ’ ہمارے پاس ہمارا معبود عزیٰ ہے، اور تمہارے پاس نہیں ہے، صحابہؓ نے جواب دیا "اللہ مولنا ولا مولی لکم " خدا ہمارا مولا ہے اور تمہارا کوئی نہیں ہے۔
 
 
== حوالہ جات ==