"ابو سفیان بن حرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 37:
ابو سفیان کامیابی کے نشہ میں مخمور تھا، بولا آج کا دن بدر کا جواب ہے،لوگوں نے بغیر میرے حکم کے مسلمان لاشوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ لیے ہیں،لیکن مجھے اس کا کوئی افسوس بھی نہیں ہے ،بروایت ابن اسحق حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا ہمارے شہداء جنت میں ہیں اور تیرے مقتولین جہنم میں،ابو سفیان نے حضرت عمرؓ کی آواز سنی تو پاس بلا کر پوچھا سچ سچ بتاؤ محمد ﷺ کا کام تمام ہوگیا یا زندہ ہیں؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم زندہ ہیں اور تمہاری گفتگو سن رہے ہیں، یہ سن کر ابو سفیان نے کہا ابن قمہ نے کہا تھا، کہ میں نے محمد کا کام تمام کردیا لیکن میں تم کو اس سے زیادہ سچا سمجھتا ہوں۔
اختتامِ جنگ کے بعد آنحضرتﷺ نے احتیاطا ًقریش کے تعاقب میں ستر آدمی بھیجے تاکہ وہ دوبارہ نہ لوٹ سکیں ،دوسرے دن خود بہ نفس نفیس مقام حمرا اسد تک تعاقب میں تشریف لے گئے،آپ کا خطرہ صحیح تھا، ابو سفیان یہ خیال کرکے کہ ابھی مسلمانوں کا پورا استیصال نہیں ہوا ہے، بمقام روحار سے دوبارہ واپسی کا قصد کررہا تھا،کہ اس دوران میں قبیلہ خزاعہ کے رئیس معبد سے جو مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر تصدیق کے لیے آیا تھا اوراب واپس جارہا تھا،ملاقات ہوئی،اس سے ابو سفیان نے اپنا خیال ظاہر کیا، اس نے کہا میں ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا چلا آرہا ہوں، محمد ﷺ اس سر وسامان کے ساتھ آرہے ہیں کہ ان کا مقابلہ سخت دشوار ہے،یہ خبر سن کر ابو سفیان نے ارادہ بدل دیا۔
احد کے بعد یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف تحریک شروع کی ابو سفیان اس میں بھی پورے طور سے معاون ومدد گار تھے،۵ھ میں جب تمام عرب قبائل نے مسلمانوں کے استیصال کے لئے مدینہ پر ہجوم کیا تو قریش بھی ابو سفیان کی قیادت میں جمع ہوئے، لیکن یہ طوفان ہوا کی طرح اڑ گیا ،یہی متحدہ اجتماع جنگِ خندق کے نام سے مشہور ہے۔
۶ھ میں جب آنحضرتﷺ نے قرب وجوار کے تمام امراء اورفرمان رواؤں کے نام دعوتِ اسلام کے خطوط بھیجے، تو ایک خط ہر قل کے نام بھی بھیجا وہ صحیح عیسوی مذہب کا پیرو اور حق کا متلاشی تھا، اس لیے اس نے آنحضرتﷺ کے حالات معلوم کرنے چاہے،اتفاق سے اس وقت قریش کا کاروانِ تجارت شام آیا ہوا تھا، اس میں ابو سفیان بھی تھا، ہر قل نے ا ٓنحضرتﷺ کے حالات دریافت کرنے کے لیے اس قافلہ کو ایلیا طلب کیا اور تمام ارکان سلطنت کے رد بروترجمان کے ذریعہ سے سوالات شروع کئے،سب سے پہلے پوچھا تم میں کون اس شخص سے جو اپنے کو نبی سمجھتا ہے،زیادہ قریبی تعلق رکھتا ہے،ابو سفیان نے اپنے کو پیش کیا کہ میں اس کا قریب تر عزیز ہوں، ہرقل نے اسے قریب بلایا اور دوسرے قریشیوں سے کہا میں اس سے اُ س شخص (آنحضرتﷺ) کے متعلق سوالات کروں گا، جہاں وہ غلط جواب دے تم لوگ فوراً ٹوک دینا،ابو سفیان کا بیان ہے کہ اگر اس وقت مجھ کو اپنے ہمراہیوں کی تردید کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں جھوٹ بول دیتا، اس اہتمام کے ساتھ سوالات وجوابات شروع ہوئے۔
ہرقل: قریش میں اس شخص کا نسب کیسا ہے؟
ابو سفیان: قریش کا عالی نسب آدمی ہے ؟
ہرقل: اس سے پہلے تم میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔
ابو سفیان: نہیں
ہرقل: شرفاء ومعززین اس کے پیرو ہیں یا کمزور وناتوان؟
ابو سفیان: ناتوان وکمزور
ہرقل: ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے یا گھٹتی ہے۔
ابو سفیان: بڑھتی جاتی ہے۔
ہرقل: کوئی شخص اس مذہب کو قبول کرنے کے بعد اس سے بیزار ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے؟
ابو سفیان: نہیں
ہرقل: کبھی اس نے دھوکہ اورفریب دیا ہے۔
 
 
 
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}