"ابو سفیان بن حرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 59:
اس گفتگو کے بعد ہرقل کو آنحضرتﷺ کی صداقت اورآپ کی نبوت کا پورا یقین ہوگیا اوراس نے بطارقہ کے سامنے علی الاعلان آپ کی رسالت کا اعتراف کیا۔
<ref>(بخاری)</ref>
بنی خزاعہ اوربنی بکر کے قبائل مدتوں سے حریف چلے آرہے تھے،لیکن اسلام کے مقابلہ میں دونوں متحد ہوگئے تھے،صلح حدیبیہ کے زمانہ میں بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف ہوگئے ہیں متضاد تحائف نے پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا، اوربنی بکر نے عین حرم میں بنی خزاعہ پر حملہ کر کے انہیں قتل کیا، بنی خزاعہ کے ارکان آنحضرتﷺ کے پاس فریاد لیکر پہنچے، بنی خزاعہ آپ کے حلیف تھے،اس لیے صلحِ حدیبیہ کی رو سے ان پر قریش یا ان کا کوئی حلیف حملہ نہیں کرسکتا تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے قریش کے پاس ضمرہ کو یہ پیام دیکر بھیجا کہ یا بنی خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے یا قریش ان کی حمایت سے الگ ہو جائیں ورنہ اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا،یہ شرائط سن کر قزط بن عمر نے کہا ہم کو تیسری صورت منظور ہے ضمرہ نے آکر آنحضرتﷺ کو یہ جواب سنادیا ،قرظ نے یہ جواب تو دیا،لیکن بعد میں جب قریش نے اس جواب اوراس کے نتائج پر غور کیا،تو بہت نادم ہوئے اوراسی وقت ابو سفیان کو حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کے لیے مدینہ بھیجا، انہوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں جاکر کہا کہ ہم حدیبیہ کے موقع پر موجود نہ تھے،اس لیے چاہتے ہیں کہ تم دوبارہ ہمارے سامنے اس معاہدہ کی تجدید کردو، اوراس کی مدت میں بھی اضافہ کردو، آپ نے پوچھا کیا تم مخصوص اسی کے واسطے آئے ہو، انہوں نے کہا ہاں فرمایا اس درمیان میں کوئی جدید واقعہ تو نہیں پیش آیا، ابو سفیان نے کہا پنا بخدا ہم لوگ سابق معاہدہ پر قائم ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی،آنحضرتﷺ اصل حقیقت سے واقف تھے،اس لیے تجدید معاہدہ پر راضی نہ ہوئے ؛لیکن ابو سفیان کسی نہ کسی طرح قریش کی غلطی کی تلافی چاہتا تھا، اس لیے آنحضرتﷺ سے جواب پانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو درمیان میں ڈالنا چاہا، لیکن ان دونوں بزرگوں نے انکار کیا، ان کے انکار کے بعد وہ حضرت فاطمہؓ کے پاس گیا اوران سے کہا اگر اس وقت حسن درمیان میں پڑ کر محمد ﷺ سے کہدے تو ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار کہلائیگا، لیکن اس پر فاطمہ زہراؓ رضا مند نہ ہوئیں، ان سب سے مایوس ہوکر مہاجرین وانصار کے پاس جاکر کہا، لیکن سب نے صاف انکار کردیا، ہر جگہ مایوسی ہونے کے بعد آخر میں حضرت علیؓ کے مشورہ سے مسجد نبویﷺ میں کھڑے ہوکر خود سے تجدید معاہدہ کا اعلان کرکے مکہ لوٹ گیا۔
 
<ref>(زرقانی:۲/۳۳۲،۳۳۸ ملحضاً)</ref>