"ابو سفیان بن حرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 68:
حضرت عباسؓ ابو سفیان کو لے تو چلے،مگر وہ اشتہاری مجرم تھا اور تمام مسلمان اس سے خارکھاتے تھے،روشنی کی کثرت اور بھی راز فاش کئے دیتی تھی، قدم قدم پر لوگ سوال کرتے کون ہے؟ لیکن پھر رسول اللہ ﷺ کا اونٹ اور حضرت عباسؓ کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ہیں، حضرت عباسؓ لوگوں کی نظریں بچاتے ہوئے آرہے تھے،لیکن وہ حضرت عمرؓ کی فرودگاہ کے سامنے سے گذرے تو انہوں نے ابو سفیان کو پہچان لیا اورجوشِ غضب میں بے تاب ہوکر چلائے او دشمنِ خدا خدا کا شکر ہے کہ اس نے بلا کسی عہد و پیمان اورذمہ داری کے تجھ پر قابو دے دیا ،مگر حضرت عباسؓ ساتھ تھے،اس لیے حضرت عمرؓ سیدھے آنحضرتﷺ کی خدمت میں گئے،لیکن حضرت عباسؓ ان سے پہلے پہنچ چکے تھے،حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! یہ ابو سفیان ہے،خدانے اس کو بغیر کسی عہد وپیمان کے ہمارے حوالہ کردیا ہے، اجازت دیجئے کہ اس دشمن خدا کی گردن اڑادوں، حضرت عباسؓ نے فرمایا،یا رسول اللہ میں نے ان کو امان دیدی ہے،ابوسفیان کا سر پکڑ کے بیٹھ گئے، حضرت عمرؓ برابر ابو سفیان کے قتل پر مصر تھے، ان کا اصرار دیکھ کر حضرت عباسؓ نے فرمایا عمرؓ اگر تمہارے قبیلہ کا کوئی شخص ہوتا تو تم ہرگز اتنا اصرار نہ کرتے ،لیکن تم کو بنی عبد مناف کی کیا پرواہ، حضرت عمرؓ نے اس طنز کے جواب میں کہا عباسؓ ! خدا کی قسم مجھ کو تمہارے اسلام کی اتنی خوشی ہوئی کہ اپنے باپ خطاب کے اسلام لانے سے نہ ہوتی،آنحضرتﷺ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا، اس وقت انہیں لیجا کر اپنے پاس سلاؤ، صبح کو فیصلہ کیا جائے گا۔
<ref>(سیرۃ ابن ہشام :۲/۲۳۳،۲۳۴)</ref>
اس ارشاد پر حضرت عباسؓ ابو سفیان کو ساتھ لے گئے،رات بھر پاس رکھا اورصبح کو حسب ہدایت بارگاہ نبویﷺ میں لاکر حاضر کیا،اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن آنحضرتﷺ کے خون کا پیاسا ،جس نے آپ کی تحقیر وتذلیل اورجان لینے تک میں کوئی تامل نہ کیا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی تھیں، اسلام کے استیصال میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تا، بے کس ولاچار اوربے حامی و مدد گار بارگاہ رسالت میں حاضر تھا اوررحمۃ للعالمینﷺ کے وامن عفو وکرم کے علاوہ دنیا میں اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی،بار گاہ رسالت سے اس سنگین مجرم کیلئے قتل کی سزا نہیں تجویز ہوتی،قید خانہ کی چار دیواری میں بند نہیں کیا جاتا، جِلائے وطن کا حکم نہیں ملتا، بلکہ وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین کی عملی تفسیر ہوتی ہے،فرماتے ہیں ابو سفیان افسوس کا مقام ہے کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ خدا کی وحدانیت کا اقرار کرو، اس سوال پر وہ زبان جو معلوم نہیں کتنی مرتبہ رسول اللہ کے دل پر تیر و نشتر لگا چکی تھی،یوں گویا ہوتی ہے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کتنے بڑے شریف اورکتنے بڑے صلہ رحم کرنے والے ہیں،خدا کی قسم اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا ،تو آج میرے کام نہ آتا، پھر ارشاد ہوتا ہے، ابو سفیان تمہاری حالت قابل افسوس ہے،کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم مجھے خدا کا رسول مانو "جاہلی حمیت اورقومی عصبیت اب بھی اعترافِ رسالت کی اجازت نہیں دیتی، جواب ملتا ہے،میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کس قدر حلیم، کس قدر شریف اورکس قدر صلہ رحمی کرنے والےہیں خدا کی قسم ابھی تک مجھ کو اس میں شک ہے،حضرت عباسؓ یہ جاہلی حمیت سن کر ڈانٹتے ہیں ،"ابو سفیان اس سے پہلے کہ سر تن سے جدا ہو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ لو، حضرت عباسؓ کی ڈانٹ پر ابو سفیان کلمۂ توحید پڑہتے ہیں اور وہ سرکش جو جاہلی رعونت سے خدا کے سامنے بھی نہ جھکنا تھا،آستانِ نبویﷺ پر خم ہوجاتا ہے (سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۳۵،یہ واقعہ بخاری میں بھی ہے،لیکن نہایت مختصر ہے) اورآنحضرتﷺ نہ صرف ابو سفیان کی جان بخشی کا اعلان فرماتے ہیں ؛بلکہ ان کے اس گھر کو جس میں بارہا مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوچکی تھیں،رسول اللہ ﷺ کے قتل کے مشورے ہوچکے تھے، "من دخل دارابی سفیان فہوامن" کے اعلان کرم سے بیت الامن قرار دیتے ہیں۔
 
<ref>(مسلم کتاب الجہاد والسیراب فتح مکہ)</ref>