"ابو سفیان بن حرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
اضافہ کیا ہے
سطر 70:
اس ارشاد پر حضرت عباسؓ ابو سفیان کو ساتھ لے گئے،رات بھر پاس رکھا اورصبح کو حسب ہدایت بارگاہ نبویﷺ میں لاکر حاضر کیا،اس وقت اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن آنحضرتﷺ کے خون کا پیاسا ،جس نے آپ کی تحقیر وتذلیل اورجان لینے تک میں کوئی تامل نہ کیا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی تھیں، اسلام کے استیصال میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تا، بے کس ولاچار اوربے حامی و مدد گار بارگاہ رسالت میں حاضر تھا اوررحمۃ للعالمینﷺ کے وامن عفو وکرم کے علاوہ دنیا میں اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی،بار گاہ رسالت سے اس سنگین مجرم کیلئے قتل کی سزا نہیں تجویز ہوتی،قید خانہ کی چار دیواری میں بند نہیں کیا جاتا، جِلائے وطن کا حکم نہیں ملتا، بلکہ وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین کی عملی تفسیر ہوتی ہے،فرماتے ہیں ابو سفیان افسوس کا مقام ہے کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ خدا کی وحدانیت کا اقرار کرو، اس سوال پر وہ زبان جو معلوم نہیں کتنی مرتبہ رسول اللہ کے دل پر تیر و نشتر لگا چکی تھی،یوں گویا ہوتی ہے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کتنے بڑے شریف اورکتنے بڑے صلہ رحم کرنے والے ہیں،خدا کی قسم اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا ،تو آج میرے کام نہ آتا، پھر ارشاد ہوتا ہے، ابو سفیان تمہاری حالت قابل افسوس ہے،کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم مجھے خدا کا رسول مانو "جاہلی حمیت اورقومی عصبیت اب بھی اعترافِ رسالت کی اجازت نہیں دیتی، جواب ملتا ہے،میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ کس قدر حلیم، کس قدر شریف اورکس قدر صلہ رحمی کرنے والےہیں خدا کی قسم ابھی تک مجھ کو اس میں شک ہے،حضرت عباسؓ یہ جاہلی حمیت سن کر ڈانٹتے ہیں ،"ابو سفیان اس سے پہلے کہ سر تن سے جدا ہو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ لو، حضرت عباسؓ کی ڈانٹ پر ابو سفیان کلمۂ توحید پڑہتے ہیں اور وہ سرکش جو جاہلی رعونت سے خدا کے سامنے بھی نہ جھکنا تھا،آستانِ نبویﷺ پر خم ہوجاتا ہے (سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۳۵،یہ واقعہ بخاری میں بھی ہے،لیکن نہایت مختصر ہے) اورآنحضرتﷺ نہ صرف ابو سفیان کی جان بخشی کا اعلان فرماتے ہیں ؛بلکہ ان کے اس گھر کو جس میں بارہا مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوچکی تھیں،رسول اللہ ﷺ کے قتل کے مشورے ہوچکے تھے، "من دخل دارابی سفیان فہوامن" کے اعلان کرم سے بیت الامن قرار دیتے ہیں۔
<ref>(مسلم کتاب الجہاد والسیراب فتح مکہ)</ref>
قبولِ اسلام کے بعد جب حضرت عباسؓ ان کو لے کر لوٹنے لگے،تو آنحضرتﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لیجا کر کھڑا کردو، کہ افواج الہیٰ کا جلال اورمسلمانوں کی شوکت وعظمت کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں،اس ارشاد پر حضرت عباسؓ نے انہیں لیجا کر کھڑا کردیا، تھوڑی دیر کے بعد دریائے اسلام میں تلاطم پیدا ہوا، ہر قبیلہ کے پرچم گذرنے لگے، پہلے غفار کا پرچم نظر آیا،پھر جہینہ ندیم، اورسلیم یکے باد دیگرے ہتھیاروں میں ڈوبے تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے گذرے سب سے آخر میں انصار کا قبیلہ اس شان سے پرچم لہراتا ہوا نکلا کہ ابو سفیان متحیر ہوگئے اور پوچھا یہ پرچم کس کاہے ،حضرت عباسؓ نے نام بتایا، دفعۃً سردارِ فوج حضرت سعد بن عبادہؓ ہاتھ میں علم لیے ہوئے برابر سے گذرے، ابو سفیان کو دیکھ کر پکار اُٹھے۔
 
الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الکعبۃ،آج گھمسان کا دن ہے،آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔
ابو سفیان گھبراگئےاور حضرت عباسؓ سے کہا آج میری حفاظت تمہارے اوپر فرض ہے۔
سب سے آخر میں کوکبۂ رسالت نمودار ہوا، حضرت زبیر ؓبن عوام کے ہاتھوں میں علم تھا، آنحضرتﷺ ابو سفیان کے قریب سے گذرے اور جمال مبارک پر ان کی نظر پڑی،تو باآواز بلند پکار کر کہا،آپ کو معلوم ہے، ابھی سعد بن عبادہ کیا کہہ گئے ہیں، پوچھا کیا ابو سفیان نے بتایا،ارشاد فرمایا غلط ہے،آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس پر غلاف چڑھایا جائے گا۔
<ref>(بخاری کتاب المغازی باب ابن رکز النبی ﷺ الرایہ یوم الفتح)</ref>