"ابو سفیان بن حرب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
درستی کے لیے
سطر 21:
|مكانته = سردار بنی كنانہ
}}
<big>'''حضرت ابو سفیان ؓ بن حرب''' صحابی رسول تھے۔فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔</big>
== نام ونسب ==
<big>صحر نام،ابو سفیان کنیت،نسب نامہ یہ ہے ضحر بن حرب بن امیہ بن شمس بن عبد مناف قرشی اموی، ابو سفیان کا خاندان بنی امیہ قریش کی نہایت مقتدر شاخ تھی اور عقاب یعنی قریش کے قومی نشان کا حامل یہی خاندان تھا، علمدار اسی خاندان کے ارکان بنائے جاتے تھے،ظہور اسلام کے وقت اس عہد ہ پر ابو سفیان ممتاز تھے،جب قریش میں کوئی جنگ چھڑنے والی ہوتی تھی، تو معززینِ قریش جمع ہوکر علمدار کے ہاتھ میں علم دیتے تھے۔
<ref>(اسد الغابہ:5/316)</ref></big>
== اسلام سے پہلے ==
<big>ظہور اسلام کے وقت اس کی سب سے زیادہ مخالفت ان ہی لوگوں کی جانب سے عمل میں آئی جو قریش کے سب سے بااثر رئیس تھے اورجن کا اثر واقتدار نسلاً بعد نسل چلا آتا تھا، ابو سفیان بھی رؤسائے قریش کے سب سے بااثر رئیس تھے اور جن کا اثر واقتدار نسلاً بعد نسل چلا آتا تھا، ابو سفیان بھی رؤ سائے قریش میں تھے اور بنی ہاشم کے حریف تھے،اس لیے اسلام اور پیغمبر ﷺ اسلام کے ساتھ انہیں دوہری مخالفت تھی؛چنانچہ وہ آنحضرتﷺ کی ایذارسانی،مسلمانوں کی مخالفت اوراسلام کے استیصال میں سب سے پیش پیش رہتے تھے اسلام کے مٹانے میں انہوں نے اپنی پوری قوتیں صرف کر دیں،آغاز دعوتِ اسلام سے لیکر فتح مکہ تک اسلام کی مخالفت اوراس کی بیخ کنی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا دعوتِ اسلام کےآغاز میں قریش کا جو وفد آنحضرتﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس آپ کی شکایت لیکر گیا تھا اس کے ایک رکن ابو سفیان بھی تھے۔
<ref>(سیرۃ ابن ہشام :1/138)</ref>
پھر آنحضرتﷺ کے قتل کرنے کی جو سازش ہوئی تھی، جس کے سبب سے آپ نے ہجرت فرمائی تھی،اس میں بھی ابو سفیان کا ہاتھ شامل تھا،کفر واسلام کا سب سے پہلا مقابلہ بدر میں ہوا، اس میں ابو سفیان نہ شریک ہو سکے،اس وقت وہ کاروان تجارت لیکر گئے ہوئے تھے۔
سطر 60:
<ref>(بخاری)</ref>
بنی خزاعہ اوربنی بکر کے قبائل مدتوں سے حریف چلے آرہے تھے،لیکن اسلام کے مقابلہ میں دونوں متحد ہوگئے تھے،صلح حدیبیہ کے زمانہ میں بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف ہوگئے ہیں متضاد تحائف نے پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا، اوربنی بکر نے عین حرم میں بنی خزاعہ پر حملہ کر کے انہیں قتل کیا، بنی خزاعہ کے ارکان آنحضرتﷺ کے پاس فریاد لیکر پہنچے، بنی خزاعہ آپ کے حلیف تھے،اس لیے صلحِ حدیبیہ کی رو سے ان پر قریش یا ان کا کوئی حلیف حملہ نہیں کرسکتا تھا؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے قریش کے پاس ضمرہ کو یہ پیام دیکر بھیجا کہ یا بنی خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے یا قریش ان کی حمایت سے الگ ہو جائیں ورنہ اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا،یہ شرائط سن کر قزط بن عمر نے کہا ہم کو تیسری صورت منظور ہے ضمرہ نے آکر آنحضرتﷺ کو یہ جواب سنادیا ،قرظ نے یہ جواب تو دیا،لیکن بعد میں جب قریش نے اس جواب اوراس کے نتائج پر غور کیا،تو بہت نادم ہوئے اوراسی وقت ابو سفیان کو حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کے لیے مدینہ بھیجا، انہوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں جاکر کہا کہ ہم حدیبیہ کے موقع پر موجود نہ تھے،اس لیے چاہتے ہیں کہ تم دوبارہ ہمارے سامنے اس معاہدہ کی تجدید کردو، اوراس کی مدت میں بھی اضافہ کردو، آپ نے پوچھا کیا تم مخصوص اسی کے واسطے آئے ہو، انہوں نے کہا ہاں فرمایا اس درمیان میں کوئی جدید واقعہ تو نہیں پیش آیا، ابو سفیان نے کہا پنا بخدا ہم لوگ سابق معاہدہ پر قائم ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی،آنحضرتﷺ اصل حقیقت سے واقف تھے،اس لیے تجدید معاہدہ پر راضی نہ ہوئے ؛لیکن ابو سفیان کسی نہ کسی طرح قریش کی غلطی کی تلافی چاہتا تھا، اس لیے آنحضرتﷺ سے جواب پانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو درمیان میں ڈالنا چاہا، لیکن ان دونوں بزرگوں نے انکار کیا، ان کے انکار کے بعد وہ حضرت فاطمہؓ کے پاس گیا اوران سے کہا اگر اس وقت حسن درمیان میں پڑ کر محمد ﷺ سے کہدے تو ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار کہلائیگا، لیکن اس پر فاطمہ زہراؓ رضا مند نہ ہوئیں، ان سب سے مایوس ہوکر مہاجرین وانصار کے پاس جاکر کہا، لیکن سب نے صاف انکار کردیا، ہر جگہ مایوسی ہونے کے بعد آخر میں حضرت علیؓ کے مشورہ سے مسجد نبویﷺ میں کھڑے ہوکر خود سے تجدید معاہدہ کا اعلان کرکے مکہ لوٹ گیا۔
<ref>(زرقانی:۲/۳۳۲،۳۳۸ ملحضاً)</ref></big>
== فتح مکہ ==
<big>۸ھ میں جب آنحضرتﷺ نے تطہیر کعبہ کے لیے مکہ پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو گو اسے مخفی رکھنے کا اہتمام کیا تھا مگر مکہ میں آپ کی آمد کی خبریں پہنچ گئیں اس وقت وہ مشرکین اور جبابرۂ قریش جنہوں نے آپ کو نہایت بے کسی کی حالت میں اس ارض مقدس سے جلاء وطن کیا تھا،اپنے انجام سےبہت گھبرائےکہ اب اسلام کے سیلاب کو روکنا ان کے بس سے باہر ہوچکا تھا، آنحضرتﷺ نے مکہ کے قریب پہنچ کر مرظہران میں قیام فرمایا،ابو سفیان ،حکیم بن خرام اور بدیل بن ورقاء تحقیقات کے لیے نکلے تھے دور سے دیکھا کہ مرظہران کا میدان رات کی تاریکی میں روشنی کی کثرت سے وادیِ ایمن بنا ہوا ہے،ابوسفیان نے کہا یہاں عرفہ کی جیسی روشنی کیسے ہورہی ہے،بدیل نے کہا بنی عمرو آگ روشن کئے ہیں ابو سفیان نے اعتراض کیا کہ ان کی تعداد اتنی کہاں ہے۔
<ref>(بخاری کتاب المغازی غزوۂ فتح)</ref>
گو قریش نے مسلمانوں پر بڑی ستم آرائیاں کی تھیں، پھر بھی وہ رسول اللہ ﷺ اوراکثر اکابر صحابہ کے ہم خاندان تھے اوران میں ان کے اعزۂ واقربا بھی موجود تھے،اس لیے حضرت عباسؓ کے دل میں خیال آیا کہ اگر آنحضرتﷺ مکہ میں داخل ہوگئے اورقریش نے پہلے سے جان و مال کی امان نہ لےلی تو سب تباہ ہوجائیں گے؛چنانچہ وہ اس تلاش میں نکلے کہ اگر مکہ جانے والا کوئی آدمی مل جائے تو اس کی زبانی قریش سے کہا بھیجیں، کہ رسول اللہ ﷺ مرظہران تک پہنچ چکے ہیں وہ لوگ آکر جان بخشی کرالیں، اتفاق سے حضرت عباسؓ اسی سمت گئے،جدھر ابو سفیان اوربدیل تھے،ابوسفیان کی آواز سن کر حضرت عباسؓ نے اس کو پکارا اس نے آواز پہچان کر کہا ابو الفضل ! حضرت عباسؓ نے فرمایا،ہاں میں ہوں،ابو سفیان بولا میرے ماں باپ فدا ہوں تم یہاں کہاں، فرمایا رسول اللہ اورمسلمان آگئے ہیں، ابو سفیان نے سراسیمہ ہوکر کہا پھر کوئی تدبیر بتاؤ، حضرت عباسؓ نے ان کے ساتھیوں کو لوٹا دیا اورانہیں عفوِ تقصیر کے لئے اپنے ساتھ سوار کرکے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلے۔
سطر 74:
ابو سفیان گھبراگئےاور حضرت عباسؓ سے کہا آج میری حفاظت تمہارے اوپر فرض ہے۔
سب سے آخر میں کوکبۂ رسالت نمودار ہوا، حضرت زبیر ؓبن عوام کے ہاتھوں میں علم تھا، آنحضرتﷺ ابو سفیان کے قریب سے گذرے اور جمال مبارک پر ان کی نظر پڑی،تو باآواز بلند پکار کر کہا،آپ کو معلوم ہے، ابھی سعد بن عبادہ کیا کہہ گئے ہیں، پوچھا کیا ابو سفیان نے بتایا،ارشاد فرمایا غلط ہے،آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے، آج اس پر غلاف چڑھایا جائے گا۔
<ref>(بخاری کتاب المغازی باب ابن رکز النبی ﷺ الرایہ یوم الفتح)</ref></big>
== غزوات ==
<big>قبولِ اسلام کے بعد ابو سفیان سب سے اول غزوۂ حنین میں شریک ہوئے،آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت سے انہیں سو اونٹ مرحمت فرمائے،حنین کے بعد طائف کے محاصرہ میں شرکت کی،جب طائف کے محصورین مسلمانوں پر لوہے کی گرم سلاخیں برسانے لگے،تو اس کے جواب میں مسلمانوں نے ان کی انگور کی ٹیٹوں کو نذر آتش کرنا شروع کیا قریش کی بہت سی لڑکیاں قبیلہ ثقیف میں بیاہی ہوئی تھیں، خود ابو سفیان کی لڑکی آمنہ عروہ بن مسعود ثقفی کے عقد میں تھی، اس لیے ابو سفیان اور مغیرہ بن شعبہ ثقیف سے گفتگو کرنے کے لیے گئے،جنگ چھڑی ہوئی تھی،اس لیے عورتوں نے گرفتاری کے خوف سے ملنے سے انکار کردیا، ابن الاسود ثقفی اپنے قبیلہ کے نہایت متمول شخص تھے،انہوں نے آکر کہا کہ اگر محمدﷺ نے ہمارے سر سبز اور شاداب باغوں کو تاراج کردیا، تو پھر وہ کبھی آباد نہ ہوسکیں گے،اس لیے تم دونوں جاکر میرے لیے انہیں خدا اور صلہ رحمی کے واسطہ سے چھوڑ دینا چاہیے، آنحضرتﷺ نے ان کی درخواست منظور کرلی <ref>(سیرت ابن ہشام:۲/۲۹۲،۲۹۳)</ref> اس غزوہ میں ابو سفیان کی ایک آنکھ جاتی رہی اورجہاد فی سبیل اللہ کا پہلا تمغہ ملا۔
<ref>(استیعاب:۲/۷۱۰)</ref>
طایف کے بعد مغیرہ بن شعبہ کے ساتھ بنی ثقیف کا صنم کدہ ڈھانے پر مامور ہوئے <ref>(سیرۃ ابن ہشام:۲/۲۳۹)</ref> ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجران کا عامل بھی بنایا تھا اور آپ کی وفات کے وقت وہ یہیں تھے،لیکن واقدی اس کا منکر ہے۔
<ref>(استیعاب :۲/۷۱۰)</ref></big>
== جنگ یرموک میں شرکت ==
<big>حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں شام کی فوج کشی میں اپنے پورے کنبہ کو لیکر شریک ہوئے ،خود یہ ان کے بیٹے یزید،معاویہ اوران کی بیوی ہندہ سب شریک تھے، یرموک کی جنگ میں انہوں نے بڑا نمایاں حصہ لیا، جب مسلمانوں پر رومیوں کا ریلا زیادہ ہوا، تو ابو سفیان بارگاہ ایزدی میں فتح ونصرت کی دعا کرتے جاتے تھے اور مسلمانون کو ابھارتے جاتے تھے کہ ، اللہ اللہ تم لوگ عرب کا ہالہ اس کا خلاصہ اوراسلام کے دست وبازو ہو،اور تمہارے حریف روم کا ہالہ ،اسکا خلاصہ اور مشرکین کے مددگار ہیں،خدایا آج کا دن تیرا دن ہے،اپنے عاجز بندوں کی مدد فرما،<ref>(اسد الغابہ :۲۱۲)</ref> ان کی بیوی ہندہ مردانہ ہمت کے ساتھ مسلمانوں کو للکارتی تھیں کہ مسلمانو! غیر مختونوں کو لینا <ref>(فتوح البلدان بلاذری:۱۴۲)</ref> اس غزوہ میں ابو سفیان کی دوسری آنکھ بھی جاتی رہی اور وہ خدا کی راہ میں ظاہری بینائی سے محروم ہوگئے۔</big>
== وفات ==
حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت ۳۱ سے لیکر ۳۴ تک کسی ۳۴ میں وفات پائی اس وقت اٹھاسی سال کی عمر تھی، حضرت عثمانؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ،بعض روایتوں کے مطابق خود امیر معاویہ نے نماز پڑھائی تھی۔