"اسماء بنت یزید" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے |
م خودکار: درستی املا ← پڑے گا، \1وں گا، 0، 9، 3، 2، 4، 1، 5، 6، جس، 7، 8، دیکھیے، کر دیا؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 1:
'''اسماء بنت یزید'''(Asma`- bint- Yazid) یہ [[معاذ بن جبل]] کی پھوپھی زاد بہن ہیں اور ان کی کنیت ام سلمہ ہے۔ قبیلہ انصار سے تعلق رکھنے والی صحابیہ ہیں۔ یہ بہت عقل مند اور ہوش گوش والی عورت تھیں
== نام و نسب ==
اسماء نام، اُمّ سلمہ کنیت۔ سلسلۂ نسب یہ ہے : اسماء بنت یزید بن السکن بن رافع بن امریٔ القیس بن زید بن عبد الاشہل بن جُشم بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس۔
== حالات زندگی ==
ایک مرتبہ [[محمد]] {{درود}} کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اﷲ! میں بہت سی عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے چنانچہ ہم عورتیں آپ پرایمان لائی ہیں اور آپ کی پیروی کا عہد کیا ہے اب صورت حال یہ ہے کہ ہم عورتیں پردہ نشین بناکر گھروں میں بٹھا دی گئی ہیں اور ہم اپنے شوہروں کی خواہشات پوری کرتی ہیں اور ان کے بچوں کو گود میں لیے پھرتی ہیں اور ان کے گھروں کی رکھوالی کرتی ہیں اور ان کے مالوں اور سامانوں کی حفاظت کرتی ہیں اورمرد لوگ جنازوں اور جہادوں میں شرکت کر کے اجر عظیم حاصل کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان مردوں کے ثوابوں میں سے کچھ ہم عورتوں کو بھی حصہ ملے گا یا نہیں یہ سن کر حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ دیکھو اس عورت نے اپنے دین کے بارے میں کتنا اچھا سوال کیا ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایاکہ اے اسماء! تم سن لو اور جاکر عورتوں سے کہہ دو کہ عورتیں اگر اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کر کے ان کو خوش رکھیں اور ہمیشہ اپنے شوہروں کی خوشنودی طلب کرتی رہیں اور ان کی فرماں برداری کرتی رہیں تو مردوں کے اعمال کے برابر ہی عورتوں کو بھی ثواب ملے گا یہ سن کر اسماء بنت یزید مارے خوشی کے نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی باہر نکلیں۔<ref>الاستیعاب ،باب النساء،باب الالف3267،أسماء بنت یزید،ج4،ص350</ref><ref>جنتی زیور،عبد المصطفٰی اعظمی،صفحہ529 تا530،ناشرمکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی</ref>
جامعہ ترمذی، ابن سعد اور مسند ابن حنبل میں اس بیعت کا کس قدرتذکرہ آیا ہے، مسند میں ہے کہ اس بیعت میں اسماء رضی اللہ عنہا کی خالہ بھی شریک تھیں، جوسونے کے کنگن اور انگوٹھیاں پہنے تھیں، آپ نے فرمایا ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ بولیں نہیں، فرمایا توکیا تم کویہ پسند ہے کہ خدا آگ کے کنگن اور انگوٹھیاں پہنائے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا خالہ ان کواُتاردو؛ چنانچہ فوراً تمام چیزیں اُتار کرپھینک دیں، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم زیور نہ پہنیں گے توشوہر بے وقعت سمجھے گا، ارشاد ہوا توپھرچاندی کے زیور بنواؤ اور ان پرزعفران مل لو کہ سونے کی چمک پیدا ہوجائے؛ غرض ان باتوں کے بعد جب بیعت کا وقت آیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی چند اقرار کرائے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں، اپنا ہاتھ بڑھائیے، فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ کنگن کا واقعہ خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا تھا۔
<ref>(ان واقعات کے لیے
== عام حالات ==
<ref>(مسند:
<ref>(اصابہ:
== وفات ==
یرموک کے بعد مدت تک زندہ رہیں اور پھروفات پائی، وفات کا سال معلوم نہیں ہے۔
سطر 17:
محمود بن عمروانصاری، مہاجربن ابی مسلم، شہر بن حوشب، مجاہد، اسحاق بن راشد؛ لیکن ان میں سب سے زیادہ شہربن حوشب نے روایتیں کی ہیں۔
== اخلاق ==
استیعاب میں ہے: کَانَتْ مِنْ ذَوَاتِ الْعَقْلِ وَالدِّیْنِ۔
ترجمہ:یعنی وہ عقل اور دین دونوں سے متصف تھیں۔
<ref>(الإستيعاب في معرفة الأصحاب:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں <ref>(مسند:
<ref>(مسند:
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اکثر اوقات کاشانۂ نبوت میں حاضر ہوتیں، ایک مرتبہ بیٹھی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا، گھر میں کہرام مچ گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ واپس آئے تووہی حالت قائم تھی، فرمایا کیوں روتی ہو؟ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا ہماری حالت یہ ہے کہ لونڈی آٹاگوندھنے بیٹھی ہے، ہم کوسخت بھوک ہوتی ہے وہ پکاکرفارغ نہیں ہوتی کہ ہم بھوک سے بیتاب ہوجاتے ہیں؛ پھردجال کے زمانہ میں جوقحط
<ref>(مسند:
مہمان نواز تھیں (ایک بار حضرت) شہربن حوشب آئے تو (انہو ں نے) ان کے سامنے کھانا رکھا (حضرت شہر بن حوشب نے) انکار کیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا (جس سے یہ اشارہ مقصود تھا کہ انکار مناسب نہیں ہے؛ انہو ں نے کہا: اب دوبارہ ایسی غلطی نہ
<ref>(مسند:
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
|