"زبیر ابن عوام" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
م خودکار: درستی املا ← 9، \1 رہے، 5، دیے، عبد اللہ، 3، چاہیے، ہو گئے، 8، 2، جائداد، 7، کر دیا، دیے، 0، علاحدہ، 6، 1، ہو گیا، اہل و عیال
سطر 138:
 
== جنگ جمل اورحضرت زبیرؓ کی حق پسندی ==
<big>حضرت طلحہ وزبیر ؓ نے اہل کوفہ کو بھی خطو ط لکھ کر شرکت کی ترغیب دی ؛لیکن وہاں حضرت حسن ؓ نے پہنچ کر پہلے ہی ان کو اپنا طرفدار بنالیا اور تقریبا ًنوہزار کی عظیم الشان جمعیت مقام ذی قار میں حضرت علی ؓ کی فوج سے مل کر بصرہ کی طرف بڑھی، حضرت طلحہ وزبیر کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اپنی فوج کو مرتب ومنظم کرکے آگے بڑھادیا، دسویں جمادی الآخر ۳۶ھ36ھ جمعرات کے دن دونوں فوجوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، کیسا عبرت انگیز نظارہ تھا،چند دن بیشتر جو لوگ بھائی بھائی تھے، آج باہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوکر نگاہِ غیظ وغضب سے اپنے مقابل کو گھوررہےگھور رہے ہیں ؛لیکن ذاتی مخاصمت وعداوت سے نہیں بلکہ حق وصداقت کے جوش میں ،یہی وجہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے کچھ آدمی اس طرح ہیں تو کچھ اس طرف ،چونکہ دونوں جماعتوں کے سربراہ کاروں کو اصلاح مدنظر تھی۔</big>
 
<big>اس لیے پہلے مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی،حضرت علی ؓ تنہاگھوڑا آگے بڑھا کر بیچ میدان میں آئے اورحضرت زبیر ؓ کو بلا کر کہا"ابوعبداللہ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب کہ ہم اورتم دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیئےدیے رسالت مآب ﷺ کے سامنے گذرے تھے،اوررسول اللہ ﷺ نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم اس کو دوست رکھتے ہو؟ تم نے عرض کیا تھی ہاں یا رسول اللہ ﷺ یاد کرو اس وقت تم سے حضور انور ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایک دن تم اسی سے ناحق لڑوگے،<ref>(مستدرک حاکم:۳3/۳۶۶366)</ref>حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا ہاں!اب مجھے بھی یاد آیا۔
حضرت علی ؓ تو صرف ایک بات یاد دلاکر پھر اپنی جگہ چلے گئے،لیکن حضرت زبیر ؓ کے قلب حق پرست میں ایک خاص سخت تلاطم برپا ہوگیاہو گیا تمام عزائم اور ارادے فسخ ہو گئے، ام المومنین ؓ کے پاس آکر کہنے لگے میں برسرِ غلط تھا، علی ؓ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کا مقولہ یاد دلادیا ،حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا پھر اب کیا ارادہ ہے؟ بولے"اب میں اس جھگڑے سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔</big>
 
<big>حضرت زبیر ؓ کے صاحب حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا آپ لوگوں کو دوگروہوں کے درمیان پھنسا کر خود علی ؓ کے خوف سے بھاگنا چاہتے ہیں، حضرت زبیر ؓ نے کہا میں قسم کھاتا ہوں کہ علی ؓ سے نہیں لڑوں گا" عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا قسم کا کفارہ ممکن ہے اوراپنے غلام مکحول کو بلاکر آزاد کردیا،لیکنکر دیا،لیکن حوارِی رسول ﷺ کا دل اچاٹ ہوچکا تھا، کہنے لگے جان پدرعلی ؓ نے ایسی بات یاد دلائی کہ تمام جوش فرو ہوگیاہو گیا ،بے شک ہم حق پر نہیں ہیں آؤ تم بھی میرا ساتھ دو ،حضرت عبداللہعبد اللہ نے انکار کردیاکر دیا تو تنہا بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے؛ تاکہ وہاں سے اپنا اسباب وسامان لے کر حجاز کی طرف نکل جائیں، احنف بن قیس نے حضرت زبیر ؓ کو جاتے دیکھا تو کہا دیکھو یہ کسی وجہ سے واپس جارہےجا رہے ہیں، کوئی جاکر خبر لائے،عمروبن جرموز نے کہا میں جاتا ہوں اورہتھیار سج کر گھوڑا دوڑاتے ہوئے حضرت زبیرؓ کے پاس پہنچا وہ اس وقت اپنے غلاموں کو اسباب وسامان کے ساتھ روانگی کا حکم دے کر بصرہ کی آبادی سے دور نکل آئے تھے، ابن جرموز نے قریب پہنچ کر پوچھا:</big>
 
<big>ابن جرموز:ابوعبداللہ آپ نے قوم کو کس حال میں چھوڑا؟
حضرت زبیر ؓ: سب باہم ایک دوسرے کا گلاکاٹ رہے تھے۔
ابن جرموز: آپ کہاں جارہےجا رہے ہیں۔
حضرت زبیر ؓ: میں اپنی غلطی پر متنبہ ہوگیا،ہو گیا، اس لیے اس جھگڑے سے کنارہ کش ہوکر کسی طرف نکل جانے کا قصد ہے۔
ابن جرموز نے کہا چلئے مجھے بھی اسی طرف کچھ دور تک جانا ہے، غرض دونوں ساتھ چلے،ظہر کی نماز کا وقت آیاتو زبیر ؓ نماز پڑھنے کے لیے ٹھہرے ،ابن جرموز نے کہا میں بھی شریک ہوں گا،حضرت زبیر ؓ نے کہا میں تمہیں امان دیتا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھو گے،اس نے کہاں ہاں اس عہد و پیمان کے بعد دونوں اپنے گھوڑے سے اترے اورمعبود حقیقی کے سامنے سرنیاز جھکانے کو کھڑے ہوگئے۔ہو گئے۔
</big>
 
== شہادت ==
<big>حضرت زبیر ؓ جیسے ہی سجدہ میں گئے کہ عمروبن جرموز نے غداری کرکے تلوار کا وار کیا اورحواری رسول ﷺ کا سرتن سے جدا ہوکر خاک و خون میں تڑپنے لگا، افسوس !جس نے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں کبھی اپنی جان کی پروانہ کی اورجس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے بارہا مصائب وشدائدکے پہاڑ ہٹائے تھے وہ آج خود ایک کلمہ خوان اورپیروِ رسول ﷺ کی شقاوت اوربے رحمی کا شکار ہوگیا۔اِنَّاہو گیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ</big>
 
<big>ابن جرموزحضرت زبیر ؓ کی تلوار اورزرہ وغیرہ لے کر بارگاہِ مرتضوی ؓ میں حاضر ہوا اورفخر کے ساتھ اپنا کارنامہ بیان کیا، جناب مرتضیٰ ؓ نے تلوار پر ایک حسرت کی نظر ڈال کر فرمایا اس نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے مصائب کے بادل ہٹائے ہیں اے ابن صفیہ کے قاتل تجھے بشارت ہو کہ جہنم تیری منتظر ہے۔
<ref>(مسند جلد۱جلد1 صفحہ ۸۹89)</ref>
حضرت زبیر ؓ نے چونسٹھ برس کی عمرپائی اور ۳۶ھ36ھ میں شہید ہوکر وادی السباع میں سپرد خاک ہوئے، فنور اللہ مرقدہ وحسن مثواہ-</big>
 
== اخلاق وعادات ==
سطر 163:
خشیتِ الہی
جب یہ آیت نازل ہوئی"إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ،ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ "
<ref>(الزمر:۳۰،۳۱30،31)</ref>
توسرورِکائنات ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ کیا قیامت کے روز ہمارے جھگڑے پھر دہرائے جائیں گے؟ ارشاد ہوا ہاں ایک ایک ذرہ کا حساب ہوکر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے گا، یہ سن کر ان کا دل کانپ اُٹھا کہنے لگے،اللہ اکبر!کیسا سخت موقع ہوگا۔
<ref>(ایضا:۱1/۱۶۷167)</ref></big>
 
<big>تقویٰ وپرہیز گاری حضرت زبیر ؓ کی کتاب اخلاق کا سب سے روشن باب ہے،وہ خود اس کا خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرتے تھے، ایک دفعہ وہ اپنے غلام ابراہیم کی دادی ام عطاء کے پاس گئے دیکھا کہ یہاں ایام تشریق کے بعد بھی قربانی کا گوشت موجود ہے،کہنے لگے،ام عطاء رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے، انہوں نے عرض کیا کہ میں کیا کروں لوگوں نے اس قدر ہدئیےہدیے بھیج دیئےدیے کہ ختم ہی نہیں ہوتے ۔
<ref>(ایضاً جلد ۱1 صفحہ ۱۶۶166)</ref></big>
 
<big>حضرت زبیر ؓ نے جب دعوتِ اصلاح کا علم بلند کیا تو ایک شخص نے آکر کہا اگر حکم دیجئے تو علی ؓ کی گردن اڑادوں"بولے تم تنہا اس عظیم الشان فوج کا کیسے مقابلہ کرو گے؟ اس نے کہا میں علی ؓ کی فوج میں جاکر مل جاؤں گا اور کسی وقت موقع پاکر دھوکے سے قتل کرڈالوں گا،فرمایا نہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے، اس لیے کوئی مومن کسی کو اچانک نہ مارے۔
<ref>(مسند:۱1 / ۱۶۶166)</ref></big>
 
== قلتِ روایت کا سبب ==
<big>حضرت زبیر ؓ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے حواری اورہر وقت کے حاضر رہنے والوں میں تھے،لیکن کمال اتقاء کے باعث بہت کم حدیثیں روایت کرتے تھے ،ایک دفعہ آپ کے صاحبزادہ حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا،پدر بزرگوار کیا سبب ہے کہ آپ حضور ﷺ کی اتنی باتیں بیان نہیں کرتے جتنی اورلوگ بیان کرتے ہیں، فرمایا جان پدر! حضور ﷺ کی رفاقت اورمعیت میں دوسروں سے میرا حصہ کم نہیں ہے، میں جب سے اسلام لایا، رسول اللہ ﷺ سے جدا نہیں ہوا،لیکن حضور ﷺ کی صرف اس تنبیہ نے مجھے محتاط بنادیا ہے:
من کذب علی متعمدا فلیبتوا مقعدہ من النار
یعنی جس نے قصدا ًمیری طرف غلط بات منسوب کی اسے چاہئےچاہیے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے۔
<ref>(ابوداؤد کتاب العلم باب فی التشدید فی الکذب علی رسول اللہ ﷺ ومسند :۱1/۱۶۵،وصحیح165،وصحیح بخاری : ۱1/۲۱21)</ref></big>
 
== مساوات پسندی ==
<big>مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دومسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کےماموں حضرت حمزہ ؓ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ ؓ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر دیئےدیے ،لیکن ماموں کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن پڑی تھی، دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک کے لیے دودو کپڑے ہوں اوردوسرا بے کفن رہے،غرض تقسیم کرنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ناپا،اتفاق سے چھوٹا بڑا نکلا قرعہ ڈال کر تقسیم کیا کہ اس میں بھی کسی طرح کی ترجیح نہ پائی جائے۔
<ref>(مسند:۱1/۱۶۵165)</ref></big>
 
== استقلال ==
سطر 188:
 
امانت
<big>حواریِ رسول کی امانت،دیانت اورانتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا،یہاں تک کہ لوگ عموماًاپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل واولاد اورمال ومتاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے،مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انہوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگے"میں آپ کو خدا،رسول ﷺ اورقرابت داری کا واسطہ دلاتا ہوں، میں نے فاروق اعظم ؓ کو کہتے سنا ہے کہ زبیر ؓ دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان ؓ، مقداد ،عبداللہ،عبد اللہ بن مسعود ؓ اورعبدالرحمان بن عوف ؓ وغیرہ نے بھی ان کو اپنا وصی بنایا تھا، چنانچہ یہ دیانتداری کے ساتھ ان کے مال ومتاع کی حفاظت کرکے ان کے اہل وعیالو عیال پر صرف کرتے تھے۔
<ref>(اصابہ :۳3/۶6)</ref></big>
 
== فیاضی ==
<big>فیاضی،سخاوت اورخداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر ؓ کے پاس ایک ہزار غلام تھے،روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انہوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل وعیالو عیال پر صرف کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت صدقہ کردیا،کر دیا،<ref>(ایضاً جلد ۲2 صفحہ۶صفحہ6)</ref>غرض ایک پیغمبر کے حواری میں جو خوبیاں ہوسکتی ہیں،حضرت زبیر ؓ کی ذات والا صفات میں ایک ایک کرکے وہ سب موجود تھیں۔
== ذریعہ ٔمعاش اورتمول ==
معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا، اورعجیب بات ہے کہ انہوں نےجس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔
<ref>(استیعاب :۱1/۲۰۸208)</ref></big>
<big>تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدررقم حاصل کی،حضرت زبیر ؓ کے تمول کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑدولاکھ درہم (یادینار)کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ جائیدادجائداد غیر منقولہ کی صورت میں تھا، اطراف مدینہ میں ایک جھاڑی تھی، اس کے علاوہ مختلف مقامات میں مکانات تھے،چنانچہ خاص مدینہ میں گیارہ ،بصرہ میں دو اورمصروکوفہ میں ایک ایک مکان تھا۔
<ref>(بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی مالہ)</ref></big>
 
== قرض اوراس کی ادائیگی ==
<big>حضرت زبیر ؓ اس قدر تمول کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ عموما ًاپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے،لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں ؛بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں، ہوتے ہوتے اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض ہوگئے۔ہو گئے۔
<ref>(ایضاً)</ref></big>
 
<big>حضرت زبیر ؓ جب جنگ جمل کے لیے تیارہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ عبداللہعبد اللہ ؓ سے کہا"جان پدر مجھے سب سے زیادہ خیال اپنے قرض کا ہے، اس لیے میرا مال ومتاع بیچ کر سب سے پہلے قرض ادا کرنا اورجو کچھ بچ رہے اس میں سے ایک ثلث خاص تمہارے بچوں کے لیے وصیت کرتا ہوں ،ہاں اگر مال کفایت نہ کرے تو میرے مولیٰ کی طرف رجوع کرنا ،حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے پوچھا"آپ کا مولیٰ کون ہے؟ میرا مولیٰ خدا ہے جس نے ہر مصیبت کے وقت میری دستگیری کی ہے۔"
عبداللہعبد اللہ بن زبیر ؓ نے حسب وصیت مختلف آدمیوں کے ہاتھ جھاڑی بیچ کر قرض ادا کرنے کا سامان کیا اورچاربرس تک موسم حج میں اعلان کرتے رہے کہ زبیر ؓ پر جس کا قرض ہو آکر لے لے،غرض اس طرح سے قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس قدر رقم بچ رہی کہ صرف حضرت زبیر ؓ کی چاربیویوں میں سے ہر ایک کو بارہ بارہ لاکھ حصہ ملا، موصی لہ اوردوسرے ورثہ کے علاوہ تھے۔
<ref>(بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی فی مالہ)</ref>
</big>
 
== جاگیروزراعت ==
<big>فتح خیبر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم فرمادیا تھا، چنانچہ حضرت زبیر ؓ کو بھی اس میں سے ایک وسیع اورسرسبز قطعہ ملاتھا، اس کے علاوہ مدینہ کے اطراف میں بھی ان کے کھیت تھے، جن کو وہ خود آباد کرتے تھے، کبھی کبھی آب پاشی وغیرہ کے متعلق دوسرے شرکاء سے جھگڑا بھی ہوجاتا تھا، ایک دفعہ ایک انصاری سے جن کا کھیت حضرت زبیر ؓ کے کھیت سے ملا ہوا نیچے کی طرف تھا، آب پاشی کے متعلق جھگڑا ہوا، انصار ی ؓ نے بارگاہِ نبوت میں شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا کہ تم اپنا کھیت سینچ کر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدیا کرو، انصاری اس فیصلہ سے ناراض ہوئے اور کہنے لگے"یارسول اللہ! آپ نے اپنے پھوپھی زادہ کی پاسداری فرمائی،چونکہ انصاری کو اس آب پاشی سے متمتع ہونے کا کوئی حق نہ تھا اوررسول اللہ ﷺ نے محض ان کی رعایت سے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا،اس لیے چہرہ سرخ ہوگیا،ہو گیا، اورحضرت زبیر ؓ کو حکم دیا کہ تم اپنے پورے حق سے فائدہ اٹھاؤ،یعنی خود آب پاشی کرکے پانی کو روک رکھو یہاں تک کہ نالیوں کے ذریعہ سے دوسری طرف بہ جائے۔
کھیت کی نگرانی اورفصل کی حفاظت کا فرض بسااوقات خود ہی انجام دیتے تھے،ایک دفعہ عہد فاروقی ؓ میں حضرت عبداللہعبد اللہ بن عمر ؓ اورحضرت مقداد بن الاسود ؓ کے ساتھ اپنی جاگیر کی دیکھ بھال کے لیے خیبر تشریف لے گئے اور رات کے وقت تک تینوں علیحدہعلاحدہ اپنی اپنی جاگیر کے قریب سوئے رات کی تاریکی میں کسی یہودی نے شرارت سے حضرت عبداللہعبد اللہ بن عمر ؓ کی کلائی اس زور سے موڑدی کہ بے اختیار ہو کر چلااُٹھے ،حضرت زبیر ؓ وغیرہ مدد کے لیے دوڑے اورواقعہ دریافت کرکے ان کو لیے ہوئے بارگاہِ خلافت میں حاضر ہوئے اوریہودیوں کی شرارت کا حال بیان کیا،چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسی واقعہ کے بعد یہودیوں کو خیبر سے جلاوطن کردیا۔کر دیا۔
<ref>(ابن ہشام:۲2/۲۰۱201)</ref></big>
<big>حضرت ابوبکر ؓ نے بھی مقام جرف میں انہیں ایک جاگیر مرحمت فرمائی تھی، اسی طرح حضرت عمر ؓ نے مقام عقیق کی زمین انہیں دے دی تھی،<ref>(ابن سعد قسم اول جلد ۳3 صفحہ ۱۷۳173)</ref> جو مدینہ کے اطراف میں ایک خوش فضا میدان ہے۔</big>
 
== آل واولاد سے محبت ==
<big>حضرت زبیرؓ کو بیوی بچوں سے نہایت محبت تھی،خصوصاً حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ اوران کے بچوں کو بہت مانتے تھے،چنانچہ اپنے مال میں سے ایک ثلث کی خاص ان کے بچوں کے لیے وصیت کی تھی،لڑکوں کی تربیت کو بھی خاص طورپر ملحوظ رکھتے تھے، جنگ یرموک میں شریک ہوئے تو اپنے صاحبزادہ عبداللہعبد اللہ بن زبیر ؓ کو بھی ساتھ لے گئے،اس وقت ان کی عمر صرف دس سال کی تھی، لیکن حضرت زبیر ؓ نے ان کو گھوڑے پر سوار کرکے ایک آدمی کے سپرد کردیاکر دیا کہ جنگ کے ہولناک مناظر دکھا کر جرات و بہادری کا سبق دے۔</big>
 
== غذا ولباس ==
سطر 227:
ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
===== اسماء بنت ابی بکر ؓ =====
ان کے بطن سے چھ بچے ہوئے،نام یہ ہیں: عبداللہ،عبد اللہ، عروہ،منذر، خدیجۃ الکبری،ام الحسن عائشہ۔
===== ام خالد بنت خالد بن سعید =====
انہوں نے خالد، عمر، حبیبہ ،سودہ،اورہندیادگار چھوڑی۔