"زبیر ابن عوام" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے |
م خودکار: درستی املا ← 9، \1 رہے، 5، دیے، عبد اللہ، 3، چاہیے، ہو گئے، 8، 2، جائداد، 7، کر دیا، دیے، 0، علاحدہ، 6، 1، ہو گیا، اہل و عیال |
||
سطر 138:
== جنگ جمل اورحضرت زبیرؓ کی حق پسندی ==
<big>حضرت طلحہ وزبیر ؓ نے اہل کوفہ کو بھی خطو ط لکھ کر شرکت کی ترغیب دی ؛لیکن وہاں حضرت حسن ؓ نے پہنچ کر پہلے ہی ان کو اپنا طرفدار بنالیا اور تقریبا ًنوہزار کی عظیم الشان جمعیت مقام ذی قار میں حضرت علی ؓ کی فوج سے مل کر بصرہ کی طرف بڑھی، حضرت طلحہ وزبیر کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی اپنی فوج کو مرتب ومنظم کرکے آگے بڑھادیا، دسویں جمادی الآخر
<big>اس لیے پہلے مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی،حضرت علی ؓ تنہاگھوڑا آگے بڑھا کر بیچ میدان میں آئے اورحضرت زبیر ؓ کو بلا کر کہا"ابوعبداللہ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب کہ ہم اورتم دونوں ہاتھ میں ہاتھ
حضرت علی ؓ تو صرف ایک بات یاد دلاکر پھر اپنی جگہ چلے گئے،لیکن حضرت زبیر ؓ کے قلب حق پرست میں ایک خاص سخت تلاطم برپا
<big>حضرت زبیر ؓ کے صاحب حضرت
<big>ابن جرموز:ابوعبداللہ آپ نے قوم کو کس حال میں چھوڑا؟
حضرت زبیر ؓ: سب باہم ایک دوسرے کا گلاکاٹ رہے تھے۔
ابن جرموز: آپ کہاں
حضرت زبیر ؓ: میں اپنی غلطی پر متنبہ
ابن جرموز نے کہا چلئے مجھے بھی اسی طرف کچھ دور تک جانا ہے، غرض دونوں ساتھ چلے،ظہر کی نماز کا وقت آیاتو زبیر ؓ نماز پڑھنے کے لیے ٹھہرے ،ابن جرموز نے کہا میں بھی شریک ہوں گا،حضرت زبیر ؓ نے کہا میں تمہیں امان دیتا ہوں کیا تم بھی میرے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھو گے،اس نے کہاں ہاں اس عہد و پیمان کے بعد دونوں اپنے گھوڑے سے اترے اورمعبود حقیقی کے سامنے سرنیاز جھکانے کو کھڑے
</big>
== شہادت ==
<big>حضرت زبیر ؓ جیسے ہی سجدہ میں گئے کہ عمروبن جرموز نے غداری کرکے تلوار کا وار کیا اورحواری رسول ﷺ کا سرتن سے جدا ہوکر خاک و خون میں تڑپنے لگا، افسوس !جس نے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں کبھی اپنی جان کی پروانہ کی اورجس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے بارہا مصائب وشدائدکے پہاڑ ہٹائے تھے وہ آج خود ایک کلمہ خوان اورپیروِ رسول ﷺ کی شقاوت اوربے رحمی کا شکار
<big>ابن جرموزحضرت زبیر ؓ کی تلوار اورزرہ وغیرہ لے کر بارگاہِ مرتضوی ؓ میں حاضر ہوا اورفخر کے ساتھ اپنا کارنامہ بیان کیا، جناب مرتضیٰ ؓ نے تلوار پر ایک حسرت کی نظر ڈال کر فرمایا اس نے بارہا رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے مصائب کے بادل ہٹائے ہیں اے ابن صفیہ کے قاتل تجھے بشارت ہو کہ جہنم تیری منتظر ہے۔
<ref>(مسند
حضرت زبیر ؓ نے چونسٹھ برس کی عمرپائی اور
== اخلاق وعادات ==
سطر 163:
خشیتِ الہی
جب یہ آیت نازل ہوئی"إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ،ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ "
<ref>(الزمر:
توسرورِکائنات ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ کیا قیامت کے روز ہمارے جھگڑے پھر دہرائے جائیں گے؟ ارشاد ہوا ہاں ایک ایک ذرہ کا حساب ہوکر حقدار کو اس کا حق دلایا جائے گا، یہ سن کر ان کا دل کانپ اُٹھا کہنے لگے،اللہ اکبر!کیسا سخت موقع ہوگا۔
<ref>(ایضا:
<big>تقویٰ وپرہیز گاری حضرت زبیر ؓ کی کتاب اخلاق کا سب سے روشن باب ہے،وہ خود اس کا خیال رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرتے تھے، ایک دفعہ وہ اپنے غلام ابراہیم کی دادی ام عطاء کے پاس گئے دیکھا کہ یہاں ایام تشریق کے بعد بھی قربانی کا گوشت موجود ہے،کہنے لگے،ام عطاء رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے، انہوں نے عرض کیا کہ میں کیا کروں لوگوں نے اس قدر
<ref>(ایضاً جلد
<big>حضرت زبیر ؓ نے جب دعوتِ اصلاح کا علم بلند کیا تو ایک شخص نے آکر کہا اگر حکم دیجئے تو علی ؓ کی گردن اڑادوں"بولے تم تنہا اس عظیم الشان فوج کا کیسے مقابلہ کرو گے؟ اس نے کہا میں علی ؓ کی فوج میں جاکر مل جاؤں گا اور کسی وقت موقع پاکر دھوکے سے قتل کرڈالوں گا،فرمایا نہیں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے، اس لیے کوئی مومن کسی کو اچانک نہ مارے۔
<ref>(مسند:
== قلتِ روایت کا سبب ==
<big>حضرت زبیر ؓ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے حواری اورہر وقت کے حاضر رہنے والوں میں تھے،لیکن کمال اتقاء کے باعث بہت کم حدیثیں روایت کرتے تھے ،ایک دفعہ آپ کے صاحبزادہ حضرت
من کذب علی متعمدا فلیبتوا مقعدہ من النار
یعنی جس نے قصدا ًمیری طرف غلط بات منسوب کی اسے
<ref>(ابوداؤد کتاب العلم باب فی التشدید فی الکذب علی رسول اللہ ﷺ ومسند :
== مساوات پسندی ==
<big>مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دومسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کےماموں حضرت حمزہ ؓ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ ؓ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر
<ref>(مسند:
== استقلال ==
سطر 188:
امانت
<big>حواریِ رسول کی امانت،دیانت اورانتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا،یہاں تک کہ لوگ عموماًاپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل واولاد اورمال ومتاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے،مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انہوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگے"میں آپ کو خدا،رسول ﷺ اورقرابت داری کا واسطہ دلاتا ہوں، میں نے فاروق اعظم ؓ کو کہتے سنا ہے کہ زبیر ؓ دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان ؓ، مقداد
<ref>(اصابہ :
== فیاضی ==
<big>فیاضی،سخاوت اورخداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر ؓ کے پاس ایک ہزار غلام تھے،روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انہوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل
== ذریعہ ٔمعاش اورتمول ==
معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا، اورعجیب بات ہے کہ انہوں نےجس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔
<ref>(استیعاب :
<big>تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدررقم حاصل کی،حضرت زبیر ؓ کے تمول کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑدولاکھ درہم (یادینار)کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ
<ref>(بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی مالہ)</ref></big>
== قرض اوراس کی ادائیگی ==
<big>حضرت زبیر ؓ اس قدر تمول کے باوجود بائیس لاکھ کے مقروض تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ عموما ًاپنا مال ان کے پاس جمع کرتے تھے،لیکن یہ احتیاط کے خیال سے سب سے کہہ دیتے تھے کہ امانت نہیں ؛بلکہ قرض کی حیثیت سے لیتا ہوں، ہوتے ہوتے اسی طرح بائیس لاکھ کے مقروض
<ref>(ایضاً)</ref></big>
<big>حضرت زبیر ؓ جب جنگ جمل کے لیے تیارہوئے تو انہوں نے اپنے صاحبزادہ
<ref>(بخاری کتاب الجہاد باب برکۃ الغازی فی مالہ)</ref>
</big>
== جاگیروزراعت ==
<big>فتح خیبر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم فرمادیا تھا، چنانچہ حضرت زبیر ؓ کو بھی اس میں سے ایک وسیع اورسرسبز قطعہ ملاتھا، اس کے علاوہ مدینہ کے اطراف میں بھی ان کے کھیت تھے، جن کو وہ خود آباد کرتے تھے، کبھی کبھی آب پاشی وغیرہ کے متعلق دوسرے شرکاء سے جھگڑا بھی ہوجاتا تھا، ایک دفعہ ایک انصاری سے جن کا کھیت حضرت زبیر ؓ کے کھیت سے ملا ہوا نیچے کی طرف تھا، آب پاشی کے متعلق جھگڑا ہوا، انصار ی ؓ نے بارگاہِ نبوت میں شکایت کی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا کہ تم اپنا کھیت سینچ کر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدیا کرو، انصاری اس فیصلہ سے ناراض ہوئے اور کہنے لگے"یارسول اللہ! آپ نے اپنے پھوپھی زادہ کی پاسداری فرمائی،چونکہ انصاری کو اس آب پاشی سے متمتع ہونے کا کوئی حق نہ تھا اوررسول اللہ ﷺ نے محض ان کی رعایت سے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا،اس لیے چہرہ سرخ
کھیت کی نگرانی اورفصل کی حفاظت کا فرض بسااوقات خود ہی انجام دیتے تھے،ایک دفعہ عہد فاروقی ؓ میں حضرت
<ref>(ابن ہشام:
<big>حضرت ابوبکر ؓ نے بھی مقام جرف میں انہیں ایک جاگیر مرحمت فرمائی تھی، اسی طرح حضرت عمر ؓ نے مقام عقیق کی زمین انہیں دے دی تھی،<ref>(ابن سعد قسم اول جلد
== آل واولاد سے محبت ==
<big>حضرت زبیرؓ کو بیوی بچوں سے نہایت محبت تھی،خصوصاً حضرت
== غذا ولباس ==
سطر 227:
ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
===== اسماء بنت ابی بکر ؓ =====
ان کے بطن سے چھ بچے ہوئے،نام یہ ہیں:
===== ام خالد بنت خالد بن سعید =====
انہوں نے خالد، عمر، حبیبہ ،سودہ،اورہندیادگار چھوڑی۔
|