"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 41:
خلیفہ ثالث کے عہد میں عبداللہ بن ابی سرح والیٔ مصر کے زیر اہتمام ۲۷ھ میں افریقہ پر فوج کشی ہوئی، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ایک جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ سے چل کر اس مہم میں شریک ہوئے اورایک سفارت کے موقع میں جرجیر شاہِ افریقہ سے مکالمہ ہوا،اس کو ان کی ذہانت وطباعی سے نہایت حیرت ہوئی اور بولا میں خیال کرتا ہوں کہ آپ "حبرعرب" (عرب کے کوئی عالم متبحر) ہیں۔
<ref>(اصابۃ تذکرہ عبداللہ بن عباس ؓ)</ref>
 
== امارت حج ==
چونکہ ۳۵ھ میں حضرت عثمان ؓ محصور تھے اس لیے اس سال وہ خود امارتِ حج کا قرض انجام نہ دے سکے،انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو بلاکر فرمایا، خالدبن عاس کو میں نے مکہ کا والی مقرر کیا ہے،میں ڈرتا ہوں کہ امارتِ حج کے فرائض انجام دینے پر شاید ان کی مزاحمت کی جائے اوراس طرح خانۂ خدا میں فتنہ و فساد اٹھ کھڑا ہو اس لیے میں تم کو اپنا قائم مقام بنا کر بھیجتا ہوں۔
<ref>(طبری واقعات ۳۵ھ)</ref>
حضرت عبداللہ ؓ اس خدمت کو سرانجام دے کر واپس آئے تو مدینہ نہایت پر آشوب ہورہا تھا، خلیفہ ثالث شہید ہوچکے تھے اور حضرت علی ؓ کو بارِ خلافت اٹھانے پر لوگ مجبور کررہے تھے انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا۔
حضرت علیؓ نے کہا:خلافت کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میں خیال کرتا ہوں کہ اس حادثہ عظیم کے بعد کوئی شخص اس بار کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے کہا یہ ضرور ہے کہ اب جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی اس پر خونِ ناحق کا اتہام لگایا جائے گا،تاہم لوگوں کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے۔
غرض اہل مدینہ کے اتفاقِ عام سے حضرت علی ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے اورنئے سرے سے ملکی نظم ونسق کا اہتمام شروع ہوا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے مشورہ دیا کہ سردست موجودہ عمال وحکام برقراررکھے جائیں؛ لیکن جب حضرت علی ؓ نے سختی کے ساتھ اس سے انکار کیا تو انہوں نے دوسرے روز اپنی رائے واپس لے لی اورکہا امیر المومنین میں نے رائے دینے کے بعد غور کیا تو آپ ہی کا خیال انسب نظر آیا، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فوراً اصل حقیقت کوتاڑ گئے اوربولے میرے خیال میں مغیرہ کی پہلی رائے خیر خواہی پر مبنی تھی،لیکن دوسری دفعہ انہوں نے آپ کو دھوکہ دیا۔
حضرت علی نے پوچھاؓ خیر خواہی کیاتھی؟حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا: آپ جانتے ہیں کہ معاویہ اوران کے احباب دنیا دار ہیں،اگر آپ ان کو برطرف کردیں گے تو وہ تمام ملک میں شورش و فتنہ پردازی کی آگ بھڑکادیں گے اوراہل شام وعراق کو خلیفہ ثالث کے انتقام پر اُبھارکر آپ کے خلاف کھڑاکردیں گے۔
حضرت علیؓ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تمہاری رائے مصالح دنیاوی کے لحاظ سے نہایت صائب ہے؛ تاہم میرا ضمیر اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں جن لوگوں کی بداعمالیوں سے واقف ہوں ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے دوں،خدا کی قسم میں کسی کو نہ رہنے دوں گا،اگر سرکشی کریں گے تو تلوار سے فیصلہ کروں گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا:میری بات مانیے گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جایے یا اپنی جاگیر پرمنبع چلے جائیے، لوگ تمام دنیا کی خاک چھان ماریں گے،لیکن آپ کے سوا کسی کو خلافت کے لائق نہ پائیں گے،خدا کی قسم اگر آپ ان مصریوں کا ساتھ دیں گے تو کل ضرور آپ پر عثمان ؓ کے خون کا اتہام لگایا جائے گا۔
حضر ت علی ؓ نے کہااب کنارہ کش ہونا میرے امکان سے باہر ہے۔
حضرت علی ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو امیر معاویہ ؓ کے بجائے شام کا والی مقرر کرنا چاہا،لیکن انہوں نے انکار کیا،اوربار بار یہی مشورہ دیا کہ آپ معاویہ ؓ کو برقرار رکھ کر اپنا طرفدار بنالیجئے،یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے برہم ہو کر نہایت سختی سے انکار کردیا اورفرمایا خدا کی قسم یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
<ref>(طبری صفحہ ۳۰۸۵)</ref>
غرض اس تشدد آمیز طرزِ عمل پر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ واقعہ بن کر سامنے آیا، تمام ملک میں جناب امیر ؓ کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی، ایک طرف حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ اورحضرت عائشہ ؓ نے مطالبہ اصلاح وانتقام کا علم بلند کرکے بصرہ پر قبضہ کرلیا اور دوسری طرف امیر معاویہ ؓ نے شام میں ایک عظیم الشان جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔
 
 
 
 
 
 
 
== اولاد ==
آپ کے پانچ بیٹے تھے<ref>تاریخ ابنِ کثیر جلد 7</ref>