"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے |
م خودکار: درستی املا ← بالکل، 4، 5، ہو گئے، دیے، پڑ گیا، 7، 8، \1 رہے، 9، ہو گیا، 3، 0، دھوکا، علاحدہ، کی بجائے، لیے، قرارداد، سر انجام، رہے \1، چاہیے، منشا، موقع، کیے، کر دیا، ہو گئی، کر دیں، کر دیے، گزار، 6، اور، عبد اللہ، علما، بیعت \1، جس، جنھوں، 1، 2، کر لیا؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 5:
== نام و نسب ==
[[
آپ کا نام عبد اللہ، ابوالعباس کنیت تھی۔ آپ کے والد کا نام [[عباس بن عبدالمطلب]] اور والدہ کا نام ام الفضل لبابہ تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
سطر 34:
== خلفائے راشدین کا عہد ==
حضرت
<ref>(بخاری :
محدث ابن عبدالبر استیعاب میں تحریر فرماتے ہیں
"کان عمر یحب ابن عباس ویقربہ"
یعنی حضرت عمرؓ ابن عباس ؓ کو محبوب رکھتے تھے اور ان کو تقرب دیتے تھے، بسااوقات حضرت عمرؓ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش
خلیفہ ثالث کے عہد میں
<ref>(اصابۃ تذکرہ
== امارت حج ==
چونکہ
<ref>(طبری واقعات
حضرت
حضرت علیؓ نے کہا:خلافت کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میں خیال کرتا ہوں کہ اس حادثہ عظیم کے بعد کوئی شخص اس بار کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
حضرت
غرض اہل مدینہ کے اتفاقِ عام سے حضرت علی ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے اورنئے سرے سے ملکی نظم ونسق کا اہتمام شروع ہوا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے مشورہ دیا کہ سردست موجودہ عمال وحکام برقراررکھے جائیں؛ لیکن جب حضرت علی ؓ نے سختی کے ساتھ اس سے انکار کیا تو انہوں نے دوسرے روز اپنی رائے واپس لے لی اورکہا امیر المومنین میں نے رائے دینے کے بعد غور کیا تو آپ ہی کا خیال انسب نظر آیا، حضرت
حضرت علی نے پوچھاؓ خیر خواہی کیاتھی؟حضرت
حضرت علیؓ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تمہاری رائے مصالح دنیاوی کے لحاظ سے نہایت صائب ہے؛ تاہم میرا ضمیر اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں جن لوگوں کی بداعمالیوں سے واقف ہوں ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے دوں،خدا کی قسم میں کسی کو نہ رہنے دوں گا،اگر سرکشی کریں گے تو تلوار سے فیصلہ کروں گا۔
حضرت
حضر ت علی ؓ نے کہااب کنارہ کش ہونا میرے امکان سے باہر ہے۔
حضرت علی ؓ نے حضرت
<ref>(طبری صفحہ
غرض اس تشدد آمیز طرزِ عمل پر حضرت
== جنگ جمل ==
حضرت علی ؓ بصرہ کو محفوظ رکھنے کے خیال سے ایک فوجِ گراں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے،لیکن وہ پہلے داعیانِ اصلاح کے قبضہ میں آچکا تھا، اس لیے طرفین نے میدان ذی قار میں صف آرائی کی،حضرت
== ولایت بصرہ ==
بصرہ پر دوبارہ قبضہ ہونے کے بعد حضرت
== معرکۂ صفین ==
جنگ جمل کے بعد امیر معاویہ ؓ سے معرکہ صفین پیش آیا، حضرت
چونکہ دنوں طرف سے روزانہ تھوڑی تھوڑی فوجیں نکل کر معرکہ آرا ہوتی تھیں، اس لیے اس جنگ کا سلسلہ طویل عرصہ تک قائم رہا، لیکن رفتہ رفتہ حامیانِ خلافت کا پلہ بھاری ہونے لگا یہاں تک کہ ایک روز شامی فوجوں نے شکست کے خوف سے اپنے نیزوں پر قرآن مجید بلند کر کے صلح کی دعوت دی،گوجناب مرتضیٰ ؓ اوران کے چاہنے والوں نے اپنی فوج کو اس دامِ تزویز سے محفوظ رکھنے کی بے پناہ کوشش کی تاہم مخالف کا جادو چل چکا تھا، ایک بڑی جماعت نے دعوتِ قرآن کو تسلیم کرنے پر اصرار کیا۔
== ثالثی اوراس کا حشر ==
غرض جنگ ملتوی
دونوں فریق کے اتفاق سے دومۃ الجندل حکمین کے لیے مقامِ اجلاس قرارپایا اورہر ایک نے اپنے حکم کے ساتھ چارہزار آدمیوں کی جمعیت ساتھ کردی، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ساتھ جو فوج گئی تھی اس کے افسر شریح بن ہانی اورمذہبی نگران حضرت
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نہایت نیک طینت وسادہ مزاج تھے وہ جب تخلیہ میں حضرت عمروبن العاص ؓ سے کسی فیصلہ پر متفق ہوکر باہر تشریف لائے تو حضرت
صاحبو!ہم نے علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے پھر نئے سرے سے مسلمانوں کو مجلسِ شوریٰ کے انتخاب کا حق دیا وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے۔
حضرت
حضرت ابوموسیٰ ؓ اس خلاف بیانی پر ششدرہ گئے،چلاکرکہنے لگے یہ کیا غداری ہے؟ یہ کیا بے ایمانی ہے؟افسوس !ابن عباس ؓ نے مجھے عمروکی غداری سے ڈرایاتھا؛لیکن میں نے اس پر اطمینان رکھا،مجھے کبھی یہ گمان نہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی پر کسی چیز کو ترجیح دیں گے، غرض اسی ثالثی نے گتھی کو سلجھانے
<ref>(یہ تمام واقعات طبری سے ماخوذ ہیں)</ref>
حضرت علی ؓ نے حضرت
معرکہ نہروان
خارجیوں نے نہروان میں مجمتع ہوکر عملاً سرکشی اختیار کی اورتمام ملک میں قتل و غارتگری کا بازار گرم
<ref>(تاریخ الطوال)</ref>
== ایران کی حکومت ==
جنگِ نہروان نے گوخارجیوں کا زورتوڑدیا تھا تاہم ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے فارس،کرمان اورایران کے دوسرے اضلاع میں پھیل کر ایک عام شورش برپا کردی اورذمیوں کو بھڑکا کر آمادہ بغاوت
<ref>(تاریخ طبری:
== بغاوت کا استیصال ==
حضرت
<ref>(ایضاً)</ref>
== مکہ میں عزلت نشینی ==
ایک روایت کے
ان الذی بلغک وباطل وانی لماتحت یدی ضابط قائم لدولد حافظ فلا تصدق الظنون
آپ کو جو خبر ملی ہے وہ قطعا غلط ہے،میرے قبضہ میں جو کچھ ہے میں اس کا محافظ ونگہبان ہوں، آپ ان بدگمانیوں کو باورنہ فرمائیں۔
حضرت علی ؓ نے اس کے جواب میں ان سے بیت المال کا تمام وکمال حساب طلب
فهمت تعظيمك مرزأة ما بلغك أني رزأته من مال أهل هذا البلد فابعث إلى عملك من أحببت فإني ظاعن عنه والسلام
<ref>(تاریخ طبری:ذکر ماکان فیھامن الاحداث)</ref>
میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس شکایت کو کہ میں نے اس شہروالوں کے مال میں کچھ خورد برد کیا ہے،زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں، اس لیے آپ اپنے کام پر جس کو چاہے بھیج دیجئے میں اس سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔
ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے جب زیادہ باز پرس کی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا ہے اور بیت المال سے ایک بڑی رقم لے کر مکہ چلے گئے۔
لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت
<ref>(طبری ذکر بیعت حسن بن علی ؓ)</ref>
== حضرت امام حسین ؓکو کوفہ جانے سے منع کرنا ==
چونکہ حضرت
حضرت امام حسین ؓ: اے ابن عم! خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ میرے سچے خیر خواہ مہربان ہیں؛لیکن اب سفر کوفہ کی تیاریاں ہوچکی ہیں اور میں نے وہاں جانے کا عزم مصمم
لیکن مشیتِ الہی میں کس کو دخل تھا، حضرت
اسی سال حضرتِ
ابو طفیل کا بیان ہے کہ ہم کوفہ سے چارہزار جان نثاروں کی ایک جماعت لےکر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو
<ref>(اسد الغابہ:
حضرت
<ref>(بخاری :
== طائف منتقل ہونا ==
لیکن اس دلی ہمدردی وجانبداری کے باوجود انکار بیعت سے جو مخالفت پیدا
== علم وفضل ==
فضل وکمال کے اعتبار سے ابن عباس ؓ اس عہدِ مبارک کے ممتاز ترین
== تفسیر ==
باالخصوص قرآن پاک کی تفسیر وتاویل میں جو مہارت اورآیات قرآنی کے شانِ نزول اورناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی، حضرت
<ref>(مستدرک حاکم :
حضرت عمرؓ کی علمی مجلسوں میں یہ برابر شریک ہوتے تھے اور قرآن پاک کے فہم میں وہ اکثر بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے،ایک دن فاروق اعظم کے حلقۂ مجلس میں اکابر صحابہ کا مجمع تھا، ابن عباسؓ بھی موجود تھے،حضرت عمرؓ نے اس آیت کا مطلب پوچھا:
"أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ"
<ref>(البقرۃ:
کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرےگا کہ اس کا کھجور اورانگور کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں رواں ہوں، اس کے لیے ہر قسم کے پھل اس میں موجود ہوں، اوراس شخص پر بڑھاپا آگیا ہو اوراس کے ناتواں بچے ہوں، اس حالت میں اس باغ میں ایسا بگولہ آیا، جس میں آگ بھری تھی،اس نے باغ کو جلادیا، اسی طریقہ سے اللہ تمہارے لیے کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے، شاید تم بچو۔
لوگوں نے کہا واللہ اعلم!حضرت عمرؓ کو اس بے معنی جواب پر غصہ آگیا، بولے اگر نہیں معلوم تو صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ نہیں معلوم، ابن عباس ؓ جھجکتے ہوئے بولے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، فرمایا تم اپنے کو چھوٹا نہ سمجھو جو دل میں ہو بیان کرو، کہا اس میں عمل کی مثال دی گئی ہے،جواب گو صحیح تھا، تاہم ناکافی تھا، حضرت عمرؓ نے پوچھا کیسا عمل؟ ابن عباس ؓ نے اس سے زیادہ نہ بتاسکے،تب خود حضرت عمرؓ نے بتایا کہ اس میں اس دولت مند کی تمثیل ہے جو خدا کی اطاعت بھی کرتا ہے،لیکن اس کو شیطانی وسوسہ گناہوں میں مبتلاکردیتا ہے،اوراس کے تمام اچھے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔
<ref>(بخاری جلد،کتاب الفسیر باب قولہ ایود احدکم ان تکون لہ جنۃ الخ)</ref>
حضرت عمرؓ ان کی ذہانت اورذکاوت کی وجہ سے ان کو شیوخ بدر کے ساتھ مجلسوں میں شریک کرتے تھے،بعض صحابہؓ کو اس سے شکایت پیدا ہوئی، انہوں نے کہا کہ ان کو ہمارے ساتھ مجلسوں میں کیوں شریک کرتے ہو، ان کے برابر تو ہمارے لڑکے ہیں ،فرمایا تم لوگ ان کا مرتبہ جانتے ہو، اس کے بعد ان کی ذہانت کا مشاہدہ کرانے کے
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
<ref>(جب خدا کی نصرت اورفتح آگئی تو اے پیغمبر تو بہ اور استغفار کرنا)</ref>
کے بارہ میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ کسی نے جواب دیا کہ نصرت و فتح پر ہم کو خدا کی حمد وثناء کا حکم دیا گیا ہے، کوئی خاموش رہا، پھر ابن عباسؓ سے پوچھا کہ ابن عباسؓ! تمہارا بھی یہی خیال ہے ،انہوں نے کہا نہیں پوچھا پھر کیا ہے؟ عرض کیا اس میں آنحضرتﷺ کی وفات کا اشارہ ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا جو تم کہتے ہو یہی میرا بھی خیال ہے۔
<ref>(بخاری:
درحقیقت حضرت ابن عباسؓ کی فہم تفسیر قرآن میں ایسی دقیقہ رس تھی کہ وہاں تک مشکل سے دوسروں کا خیال پہنچ سکتا تھا؛چنانچہ اس سورہ کا مقصد خاص محرمان اسرار کے علاوہ عام لوگ کم سمجھ سکتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اکثر صحابہؓ میں مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی کہ اس میں خدانے فتح و نصرت اور اسلام کی مقبولیت کے ایفائے عہد پر حمدو ثناء کا حکم دیا ہے،لیکن مقرب بارگاہ رسالت، محرمِ اسرار نبوت ،ثانی اثنین فی الغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں سے جوئے اشک رواں
(بخاری)
بظاہر اس سورہ کو آنحضرتﷺ کی وفات سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا ؛لیکن اگر انسان کے مقصدِ حیات کو پیش نظر رکھ کر اس کی ترتیب اوراس کے معنی پر غور کیا جائے تو مطلب واضح ہوجاتا ہے،دنیا میں انسان ایک نہ ایک مقصد لے کر آتا
حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں ہمیشہ عام، جامع اورقرینِ عقل شق کو اختیار کرتے تھے،سورۂ کوثر کی تفسیر خود آنحضرت ﷺ سے حضرت عائشہ ؓ اورمتعدد اکابر صحابہ ؓ کے ذریعہ سے منقول ہے،حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے سورۂ کوثر کے نزول کے وقت پوچھا جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے، لوگوں نے عرض کیا خدا اوراس کا رسول خوب جانتا ہے، فرمایا خدانے مجھ سے ایک نہر کا وعدہ کیا ہے جس میں بیشمار بھلائیاں ہیں،قیامت کے دن اس حوض پر میری امت آئے گی<ref>(مسلم)</ref> حضرت عائشہ ؓ اور حضرت انس ؓ کوثر سے مراد نہر لیتے ہیں اورحضرت ابن عباس ؓ "خیر کثیر"مراد لیتے ہیں(بخاری کتاب التفسیر انا اعطینک الکوثر)حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے عطیہ الہی کی وسعت اورعظمت بہت بڑھ جاتی ہے، اوردوسری تفسیریں بھی اس کے تحت میں آجاتی ہیں، اورقرآن پاک کے سلسلہ کلام کا بھی یہی اقتضا ہے کہ کوثر سے مراد"خیر کثیر" لیا جائے،تاکہ اس کے بعد کفار سے برأت (قل یاایھا الکافرون) اورفتح ونصرت(فتح مکہ) کی بشارت اسی سلسلہ میں داخل ہوجائے۔
قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
<ref>(شوریٰ:
کہدواے محمد :تبلیغ رسالت کے عوض میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا،صرف یہ کہ قرابت داری کی محبت ملحوظ رکھو۔
عام مفسرین"قربیٰ"سے مراد خاص آنحضرت ﷺ کے اہل
<ref>(ایضاً باب قولہ تعالی قل لا الخ)</ref>
تفسیر قرآن اورفہم قرآن کے فطری ملکہ کے علاوہ شانِ نزول اورناسخ ومنسوخ کے بارہ میں اس قدر حاضر المعلومات تھے کہ بمشکل کوئی ایسی آیت نکل سکے گی جس کے تمام جزئیات اورمَالَہ وماعلیہ سے پوری ان کو واقفیت نہ ہو۔
لَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
<ref>(نساء:
اے مسلمانو!(اظہار اسلام کے لیے)جو تم کو سلام کرے،اس کو تم خواہ مخواہ نہ کہو تو مسلمان نہیں ہے۔
بظاہر یہ ایک عام حکم ہے اس کی تفسیر بھی ابن عباس ؓ کی ممنونِ احسان ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ کسی غزوہ میں ایک شخص کچھ مالِ غنیمت لیے ہوئے تھا، مسلمانوں کا سامنا ہوا تو اس نے سلام کیا، ان لوگوں نے (شبہ میں) مارڈالا، اورمالِ غنیمت چھین لیا، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔
<ref>(بخاری باب قولہ تعالی،لاتقولوا،مسنداحمد بن حنبل:
اسی طریقہ سے اس آیت:
وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ
(حجر:
ہم نے تم میں سے بعض ان لوگوں کو جو آگے بڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں جان لیا ہے اوران کو بھی جو پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔
کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک خوبصورت عورت جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھی،بعض محتاط اشخاص اگلی صف میں چلے جاتے تھے کہ اس پر نظر نہ پڑے اوربعض دیکھنے کی نیت سے پیچھے رہتے تھے اوررکوع میں بغل کے راستہ سے نظر ڈال لیتے تھے،ان کی اس خیانت پر یہ آیت نازل ہوئی۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :
قرآن مجید کا یہ حکم :
"لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"
<ref>(آل عمران:
اورجو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے،بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
بظاہر انسانی فطرت کے کس قدر خلاف ہے،کیونکہ ہرشخص اپنے کیے پر خوش ہوتا ہے اورجو نہیں کرتا ہے اس پر بھی تعریف کاخواہاں رہتا ہے، اگر بہت بلند اخلاق کا شخص ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہ دوسرا جذبہ اس میں نہ ہوگا، اس تہدیدی حکم کے استفسار کے لیے مروان نے اپنے دربان کو
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ
<ref>(آل عمران:
جب خدانے ان لوگوں سے جن کو کتاب دی ہے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے لوگوں کو کھول کھول کے سنائیں گے۔
تلاوت کرکے کہا کہ ان کو یہ حکم ملاتھا، مگر انہوں نے بالکل اس کے برعکس عمل کیا، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے کسی بات کے متعلق استفسار فرمایا، انہوں نے اصل جواب جوان کی کتاب میں تھا چھپا ڈالا اوراپنے حسب
(جیسا کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خوشنودی کے خواہاں ہوئے تھے) تو ایسے لوگوں کے لیے عذاب سے چھٹکارا نہیں ہے اوران کے لیے دردناک عذاب ہے۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :
ذیل کے واقعہ سے ان کی فراست ،طباعی،دقیقہ سنجی،اور قوتِ استنباط کا اندازہ ہوگا، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے اخیر عشرہ کی ایک طاق رات ہے،تم لوگ اس سے کون سی طاق رات سمجھتے ہو؟ کسی نے ساتویں کسی نے پانچویں،کسی نے تیسری بتائی،ابن عباس ؓ سے فرمایا تم کیوں نہیں بولتے،عرض کیا اگر آپ فرماتے ہیں تو مجھ کو کیا عذر ہوسکتا ہے،حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے بولنے ہی کے لیے تمہیں بلایا ہے،کہا میں اپنی ذاتی رائے دوں گا،فرمایا ذاتی رائے تو پوچھتا ہی ہوں،کہا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات کے عدد کو بہت اہمیت دی ہے ،چنانچہ فرمایا ہے کہ سات آسمان، سات زمین، ایک دوسرے
ایک مرتبہ حضرت ابن عمر ؓ کے پاس ایک شخص آیا، اوراس نے آیت
"کانتا رتقا ففتقنا"
کا مطلب پوچھا، انہوں نے امتحان کی غرض سے ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیا کہ ان سے پوچھ کر بتاؤ، اس نے جاکر پوچھا،انہوں نے بتایا کہ آسمان کا فتق یہ ہے کہ پانی نہ برسائے زمین کا فتق یہ ہے کہ نباتات نہ اگائے،سائل نے واپس آکر یہ جواب حضرت ابن عمرؓ کو سنایا انہوں نے کہا ابن عباس ؓ کو نہایت سچا علم مرحمت ہوا ہے، مجھ کو تفسیر قرآن میں ان کی دلیری پر حیرت ہوتی تھی ؛لیکن اب معلوم ہوا کہ درحقیقت علم ان ہی کا حصہ ہے،<ref>(اصابہ :
<ref>(کتاب الناسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)</ref>
علومِ قرآنی میں علم النسخ کی اہمیت بالکل عیاں ہے، حضرت ابن عباس ؓ اس بحرزخار کے بھی شناور تھے، اورتمام ناسخ اورمنسوخ احکام ان کے ذہن میں مستحضر تھے، یہ اس علم کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بغیر اس پر حاوی ہوئے وعظ کی لب کشائی کی اجازت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ کسی راستہ سے گذر
<ref>(کتاب النساسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)</ref>
گو حضرت ابن عباس ؓ قرآن کی تعلیم میں بخل نہ کرتے تھے، اوران کا دروازہ ہر طالب قرآن کے لیے کھلا ہوا تھا، تاہم وہ اس نکتہ سے بھی بے خبر نہ تھے کہ جب کثرت سے قرآن کی اشاعت ہوگی اورہر کس وناکس فہم قرآن کا مدعی ہوجائے گا توامت میں اختلاف کا دروازہ کھل جائے گا، ان کی اس نکتہ رسی کا اعتراف حضرت عمرؓ کو بھی کرنا پڑا،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں سارے ممالک محروسہ میں حافظِ قرآن مقرر
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ، وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ، وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
<ref>(بقرہ:
اے محمد لوگوں میں سے بعض ایسے آدمی بھی ہیں جن کی باتیں تم کو دنیاوی زندگی میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اوروہ اپنی دلی باتوں پر خداکو گواہ بناتا ہے،حالانکہ وہ دشمنوں میں بڑا جھگڑالو ہے اورجب وہ تمہارے پاس لوٹ کر جائے تو ملک میں پھرے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اورکھیتی اورنسل کو تباہ کرے اوراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا اورجب اس سے کہا جائے کہ خداسے ڈرو تو اس کو عزت نفس گناہ پر آمادہ کرے،ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اوروہ بہت بُراٹھکاناہے اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اوراللہ بندوں پر شفقت کرنے والا ہے۔
یہ آیتیں سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے سچ کہا۔
<ref>(مستدرک حاکم جلد
== حدیث ==
حضرت ابن عباس ؓ مخصوص صحابہ ؓ میں ہیں جو علم حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں،اگر حدیث کی کتابوں سے ان کی روایتیں
<ref>(تہذیب الکمال :
ان کی روایات کی کثرت اور معلومات کی وسعت خود ان کی ذاتی کاوش وجستجو کا نتیجہ ہیں، گوبہت سی روایتیں براہِ راست خود زبانِ وحی والہام سے لی ہیں، لیکن آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت ان کی
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایک انصاری سے کہا کہ آنحضرت ﷺ وفات پاگئے، مگر آپ ﷺ کے اصحاب زندہ ہیں چلو ان سے تحصیل علم کریں، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ! مجھو کو تم پر حیرت ہوتی ہے،تم دیکھتے ہو کہ لوگ علم میں خود تمہارے محتاج ہیں، پھر تم دوسروں کے پاس جاتے ہو،یہ جواب سن کر ان کو چھوڑدیا اورتنہا جہاں کہیں سراغ ملتا کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے،فوراً مشقت اٹھا کر اس کے پاس پہنچتے اوراطلاع دیتے وہ گھر سے نکل آتا اورکہتا کہ تم نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، وہ کہتا: اے ابن عم رسول ﷺ !آپ نے کیوں زحمت گوارا کی،کسی دوسرے کو بھیج دیا ہوتا، کہتے نہیں یہ میرا فرض تھا، اس طریقہ سے عرب کے گوشہ گوشہ سے ایک ایک دانہ چن چن کر خرمنِ علم کا انبار لگایا، جب ان کے فضل وکمال کا چرچا زیادہ ہوا،اس وقت ان انصاری نے
<ref>(مستدرک حاکم جلد
ابوسلمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کہتے تھے
<ref>(تذکرہ الحفاظ :
ابو رافع ؓ آنحضرت ﷺ کے غلام تھے،اس لیے ان کو آنحضرت ﷺ کے افعال دیکھنے اوراقوال سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا،ابن عباس ؓ ان کے پاس کاتب لے کر آتے اور پوچھتے کہ آنحضرت ﷺ نے فلاں فلاں دن کیا کیا کیا،ابو رافع ؓ بیان کرتے اورکاتب قلمبند کرتا جاتا۔
<ref>(اصابہ:
اسی تلاش وجستجو نے ان کو اقوال وافعال نبوی کا سب سے بڑا حافظ بنادیا تھا،اکثراکابر صحابہ ؓ کو جوعمر اورمرتبہ میں ان سے کہیں زیادہ تھے،ان کے مقابلہ میں اپنے قصورِعلم کا اعتراف کرنا پڑتا تھا،یہ فتویٰ دیتے تھے کہ حائضہ طواف رخصت کیے بغیر لوٹ جائے،حضرت زید بن ثابت ؓ انصاری کاتب وحی کو معلوم ہوا تو انہوں نے پوچھا تم حائضہ عورت کو یہ فتویٰ دیتے ہو، انہوں نے کہا ہاں، زید بن ثابت ؓ نے کہا یہ فتویٰ نہ دیا کرو، انہوں نے کہا میں تو یہی دوں گا، اگر آپ کو شک ہے تو فلاں انصاریہ سے جاکر پوچھ لیجئے کہ اس کو یہ حکم دیا تھا یا نہیں،زید بن ثابت ؓ نے جاکر پوچھا تو ابن عباس ؓ کا فتویٰ صحیح نکلا، چنانچہ ہنستے ہوئے واپس آئے اور بولے تم نے سچ کہا تھا۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :
اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ان میں اور مسوربن مخرمہ میں محرم کے سردھونے کے بارہ میں اختلاف ہوا، یہ کہتے تھے محرم سردھوسکتا ہے،مخرمہ اس کے خلاف تھے، اس پر
<ref>(ابوداؤد کتاب المناسک باب الحرم یضل راسہ)</ref>
جب صحابہ کرام ؓ میں آنحضرت ﷺ کے کسی قول وفعل کے بارہ میں اختلاف ہوتا تو وہ ابن عباس ؓ کی طرف رجوع کرتے، اس بارہ میں کہ آنحضرت ﷺ نے کہاں سے احرام باندھا؟ صحابہ ؓ میں بہت اختلاف ہے،سعید بن جبیر نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ابو العباس مجھ کو حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اصحاب ؓ میں آپ کے احرام باندھنے کی جگہ کی تعیین میں بہت زیادہ اختلاف ہے،انہوں نے کہا میرے معلومات اس بارہ میں سب سے زیادہ ہیں،چونکہ آنحضرت ﷺ نے ایک ہی حج کیا ہے،اس لیے لوگوں میں اختلاف پیدا
<ref>(ابو داؤد کتاب المناسک باب وقت الاحرام)</ref>
== روایتوں میں احتیاط ==
عموماًکثیر الروایت راویوں کے متعلق یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں محتاط نہیں ہوتے اوررطب ویابس کا امتیاز نہیں رکھتے،لیکن ابن عباس ؓ کی ذات اس سے مستثنی اوراس قسم کے شکوک وشبہات سے ارفع واعلی تھی، وہ حدیث بیان کرتے وقت اس کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے کہ کوئی غلط روایت آنحضرت ﷺ کی جانب نہ منسوب ہونے پائے،جہاں اس قسم کا کوئی خفیف سا بھی خطرہ ہوتا، وہ بیان نہ کرتے تھے، چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے،جب تک جھوٹ کا خطرہ نہ تھا، لیکن جب سے لوگوں نے ہر قسم کی رطب ویابس حدیثیں بیان کرنا شروع
سطر 246:
== وصال ==
[[
ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور مکہ میں زندگی بسر کرتے تھے، انہیں عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک بن مروان کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ عبد اللہ بن زبیر نے آپ سے بیعت طلب کی لیکن ابن عباس نے انکار کر دیا؛ لہذا ابن زبیر نے انہیں طائف جلا وطن کر دیا۔ مشہور یہ ہے کہ ابن عباس کا انتقال سن 68 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات سن 69 ہجری میں نقل ہوئی ہے۔ ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے لہذا ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے:
|