"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
م خودکار: درستی املا ← بالکل، 4، 5، ہو گئے، دیے، پڑ گیا، 7، 8، \1 رہے، 9، ہو گیا، 3، 0، دھوکا، علاحدہ، کی بجائے، لیے، قرارداد، سر انجام، رہے \1، چاہیے، منشا، موقع، کیے، کر دیا، ہو گئی، کر دیں، کر دیے، گزار، 6، اور، عبد اللہ، علما، بیعت \1، جس، جنھوں، 1، 2، کر لیا؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 5:
 
== نام و نسب ==
[[Fileفائل:عبد الله بن عباس.png|thumbتصغیر| ]]
آپ کا نام عبد اللہ، ابوالعباس کنیت تھی۔ آپ کے والد کا نام [[عباس بن عبدالمطلب]] اور والدہ کا نام ام الفضل لبابہ تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
 
سطر 34:
 
== خلفائے راشدین کا عہد ==
حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ صرف تیرہ برس کے تھے کہ حضرت سرورِ کائنات ﷺ نے اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی،سوادوبرس کے بعد خلیفہ اول نے بھی داغِ مفارقت دیا، خلیفہ دوم یعنی حضرت عمر فاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو وہ سنِ شباب کو پہنچ چکے تھے،حضرت عمرؓ نے ان کو جوہر قابل پاکر خاص طور سے اپنے دامن تربیت میں لے لیا اوراکابرصحابہ ؓ کی علمی صحبتوں میں شریک کیا،یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا، صحیح بخاری میں خود حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے، اس پر بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ اس نوعمر کو ہمارے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں اورہمارے لڑکوں کو جوان کے ہمسر ہیں کیوں یہ موقع نہیں دیتے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا، یہ وہ شخص ہے جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔
<ref>(بخاری :۲2/۶۱۵615)</ref>
محدث ابن عبدالبر استیعاب میں تحریر فرماتے ہیں
"کان عمر یحب ابن عباس ویقربہ"
یعنی حضرت عمرؓ ابن عباس ؓ کو محبوب رکھتے تھے اور ان کو تقرب دیتے تھے، بسااوقات حضرت عمرؓ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا،عبداللہہوتا،عبد اللہ بن عباس ؓ اس کا جواب دیناچاہتے؛ لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے، حضرت عمر ؓ ان کی ہمت بندھاتے اورفرماتے علم سن کی کمی اورزیادتی پر موقو نہیں ہے تم اپنے نفس کو حقیر نہ بناؤ،<ref>(ایضاً:۶۵۱651)</ref> حضرت عمرؓ اکثر پیچیدہ اورمشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے اوران کی فطری ذہانت وطباعی سے خوش ہوکر داد دیتے تھے،انشا اللہ علم وفضل کے بیان میں اس کی تفصیل آئے گی۔
خلیفہ ثالث کے عہد میں عبداللہعبد اللہ بن ابی سرح والیٔ مصر کے زیر اہتمام ۲۷ھ27ھ میں افریقہ پر فوج کشی ہوئی، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ ایک جماعت کے ساتھ مدینہ منورہ سے چل کر اس مہم میں شریک ہوئے اورایک سفارت کے موقع میں جرجیر شاہِ افریقہ سے مکالمہ ہوا،اس کو ان کی ذہانت وطباعی سے نہایت حیرت ہوئی اور بولا میں خیال کرتا ہوں کہ آپ "حبرعرب" (عرب کے کوئی عالم متبحر) ہیں۔
<ref>(اصابۃ تذکرہ عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ)</ref>
 
== امارت حج ==
چونکہ ۳۵ھ35ھ میں حضرت عثمان ؓ محصور تھے اس لیے اس سال وہ خود امارتِ حج کا قرض انجام نہ دے سکے،انہوں نے حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کو بلاکر فرمایا، خالدبن عاس کو میں نے مکہ کا والی مقرر کیا ہے،میں ڈرتا ہوں کہ امارتِ حج کے فرائض انجام دینے پر شاید ان کی مزاحمت کی جائے اوراس طرح خانۂ خدا میں فتنہ و فساد اٹھ کھڑا ہو اس لیے میں تم کو اپنا قائم مقام بنا کر بھیجتا ہوں۔
<ref>(طبری واقعات ۳۵ھ35ھ)</ref>
حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ اس خدمت کو سرانجامسر انجام دے کر واپس آئے تو مدینہ نہایت پر آشوب ہورہا تھا، خلیفہ ثالث شہید ہوچکے تھے اور حضرت علی ؓ کو بارِ خلافت اٹھانے پر لوگ مجبور کررہےکر رہے تھے انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا۔
حضرت علیؓ نے کہا:خلافت کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ میں خیال کرتا ہوں کہ اس حادثہ عظیم کے بعد کوئی شخص اس بار کو اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباسؓ نے کہا یہ ضرور ہے کہ اب جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی اس پر خونِ ناحق کا اتہام لگایا جائے گا،تاہم لوگوں کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے۔
غرض اہل مدینہ کے اتفاقِ عام سے حضرت علی ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے اورنئے سرے سے ملکی نظم ونسق کا اہتمام شروع ہوا، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے مشورہ دیا کہ سردست موجودہ عمال وحکام برقراررکھے جائیں؛ لیکن جب حضرت علی ؓ نے سختی کے ساتھ اس سے انکار کیا تو انہوں نے دوسرے روز اپنی رائے واپس لے لی اورکہا امیر المومنین میں نے رائے دینے کے بعد غور کیا تو آپ ہی کا خیال انسب نظر آیا، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ فوراً اصل حقیقت کوتاڑ گئے اوربولے میرے خیال میں مغیرہ کی پہلی رائے خیر خواہی پر مبنی تھی،لیکن دوسری دفعہ انہوں نے آپ کو دھوکہدھوکا دیا۔
حضرت علی نے پوچھاؓ خیر خواہی کیاتھی؟حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا: آپ جانتے ہیں کہ معاویہ اوران کے احباب دنیا دار ہیں،اگر آپ ان کو برطرف کردیںکر دیں گے تو وہ تمام ملک میں شورش و فتنہ پردازی کی آگ بھڑکادیں گے اوراہل شام وعراق کو خلیفہ ثالث کے انتقام پر اُبھارکر آپ کے خلاف کھڑاکردیں گے۔
حضرت علیؓ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ تمہاری رائے مصالح دنیاوی کے لحاظ سے نہایت صائب ہے؛ تاہم میرا ضمیر اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں جن لوگوں کی بداعمالیوں سے واقف ہوں ان کو اپنے عہدوں پر برقرار رہنے دوں،خدا کی قسم میں کسی کو نہ رہنے دوں گا،اگر سرکشی کریں گے تو تلوار سے فیصلہ کروں گا۔
حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے کہا:میری بات مانیے گھر کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جایے یا اپنی جاگیر پرمنبع چلے جائیے، لوگ تمام دنیا کی خاک چھان ماریں گے،لیکن آپ کے سوا کسی کو خلافت کے لائق نہ پائیں گے،خدا کی قسم اگر آپ ان مصریوں کا ساتھ دیں گے تو کل ضرور آپ پر عثمان ؓ کے خون کا اتہام لگایا جائے گا۔
حضر ت علی ؓ نے کہااب کنارہ کش ہونا میرے امکان سے باہر ہے۔
حضرت علی ؓ نے حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کو امیر معاویہ ؓ کےکی بجائے شام کا والی مقرر کرنا چاہا،لیکن انہوں نے انکار کیا،اوربار بار یہی مشورہ دیا کہ آپ معاویہ ؓ کو برقرار رکھ کر اپنا طرفدار بنالیجئے،یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے برہم ہو کر نہایت سختی سے انکار کردیاکر دیا اورفرمایا خدا کی قسم یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
<ref>(طبری صفحہ ۳۰۸۵3085)</ref>
غرض اس تشدد آمیز طرزِ عمل پر حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ واقعہ بن کر سامنے آیا، تمام ملک میں جناب امیر ؓ کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی، ایک طرف حضرت طلحہ ؓ، حضرت زبیر ؓ اورحضرت عائشہ ؓ نے مطالبہ اصلاح وانتقام کا علم بلند کرکے بصرہ پر قبضہ کرلیاکر لیا اور دوسری طرف امیر معاویہ ؓ نے شام میں ایک عظیم الشان جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔کر دیں۔
 
== جنگ جمل ==
حضرت علی ؓ بصرہ کو محفوظ رکھنے کے خیال سے ایک فوجِ گراں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تھے،لیکن وہ پہلے داعیانِ اصلاح کے قبضہ میں آچکا تھا، اس لیے طرفین نے میدان ذی قار میں صف آرائی کی،حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ جناب امیر ؓ کی طرف سے اہل حجاز کی افسری پر مامور ہوئے اورجنگ شروع ہونے پر نہایت شجاعت وجانبازی کے ساتھی نبرد آزما ہوئے ،یہاں تک کہ حامیانِ عرشِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔
== ولایت بصرہ ==
بصرہ پر دوبارہ قبضہ ہونے کے بعد حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ یہاں کے گورنر بنائے گئے اورزیاد ان کے مشیر اوربیت المال کے مہتمم مقرر ہوئے۔
 
== معرکۂ صفین ==
جنگ جمل کے بعد امیر معاویہ ؓ سے معرکہ صفین پیش آیا، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ بصرہ سے ایک جماعت فراہم کرکے جناب امیر ؓ کی حمایت میں میدانِ جنگ میں پہنچے اور نہایت جانبازی وپامردی کے ساتھ سرگرمِ کارزار ہوئے، حضرت علی ؓ نے ان کو میسرہ کا افسر مقرر فرمایا تھا۔
چونکہ دنوں طرف سے روزانہ تھوڑی تھوڑی فوجیں نکل کر معرکہ آرا ہوتی تھیں، اس لیے اس جنگ کا سلسلہ طویل عرصہ تک قائم رہا، لیکن رفتہ رفتہ حامیانِ خلافت کا پلہ بھاری ہونے لگا یہاں تک کہ ایک روز شامی فوجوں نے شکست کے خوف سے اپنے نیزوں پر قرآن مجید بلند کر کے صلح کی دعوت دی،گوجناب مرتضیٰ ؓ اوران کے چاہنے والوں نے اپنی فوج کو اس دامِ تزویز سے محفوظ رکھنے کی بے پناہ کوشش کی تاہم مخالف کا جادو چل چکا تھا، ایک بڑی جماعت نے دعوتِ قرآن کو تسلیم کرنے پر اصرار کیا۔
 
== ثالثی اوراس کا حشر ==
غرض جنگ ملتوی ہوگئیہو گئی اور مسئلہ خلافت کا فیصلہ دوحکم پر محمول ہوا،شامیوں نے حضرت عمروبن العاص ؓ کو حکم مقرر کیا اوراہلِ عراق کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا انتخاب ہوا، حضرت علی ؓ حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کو ثالث بنانا چاہتے تھے؛ لیکن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا اورکہا آپ اورعبداللہ بن عباس ؓ ایک ہی ہیں حکم کو غیر جانبدار ہونا چاہئے۔چاہیے۔
دونوں فریق کے اتفاق سے دومۃ الجندل حکمین کے لیے مقامِ اجلاس قرارپایا اورہر ایک نے اپنے حکم کے ساتھ چارہزار آدمیوں کی جمعیت ساتھ کردی، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ساتھ جو فوج گئی تھی اس کے افسر شریح بن ہانی اورمذہبی نگران حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ تھے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نہایت نیک طینت وسادہ مزاج تھے وہ جب تخلیہ میں حضرت عمروبن العاص ؓ سے کسی فیصلہ پر متفق ہوکر باہر تشریف لائے تو حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے ان سے کہا،خدا کی قسم! مجھے یقین ہے کہ عمرو نے آپ کو دھوکہدھوکا دیا ہوگا اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو توآپ ہرگز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا وہ نہایت چالاک ہیں،کیا عجب ہے کہ آپ کے بیان کی مخالفت کربیٹھیں، بولے،ہم دونوں ایک ایسی رائے پر متحد ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں، غرض دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عمرو بن العاص ؓ کے اصرار پر کھڑے ہوکر یہ متفق علیہ فیصلہ سنایا۔
صاحبو!ہم نے علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کرکے پھر نئے سرے سے مسلمانوں کو مجلسِ شوریٰ کے انتخاب کا حق دیا وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے۔
حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ نہایت صحیح ثابت ہوا ،عمروبن العاص ؓ نے قرار دادقرارداد سے منحرف ہوکر کہا، صاحبو! بیشک علی ؓ کو جیسا کہ ابوموسیٰ نے معزول کیا، میں بھی معزول کرتا ہوں؛ لیکن معاویہ ؓ کو اس منصب پر قائم رکھتا ہوں؛ کیونکہ وہ امیر المومنین عثمان ؓ کے ولی اورخلافت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ ؓ اس خلاف بیانی پر ششدرہ گئے،چلاکرکہنے لگے یہ کیا غداری ہے؟ یہ کیا بے ایمانی ہے؟افسوس !ابن عباس ؓ نے مجھے عمروکی غداری سے ڈرایاتھا؛لیکن میں نے اس پر اطمینان رکھا،مجھے کبھی یہ گمان نہ تھا کہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی پر کسی چیز کو ترجیح دیں گے، غرض اسی ثالثی نے گتھی کو سلجھانے کےکی بجائے اورزیادہ الجھادیا،جناب امیر ؓ کے اعوان وانصار میں تفریق واختلاف کی ہوا چل گئی اورایک بڑی جماعت نے لشکر حیدری سے کنارہ کش ہوکر خارجی فرقہ کی بنیاد ڈالی،اس کا عقیدہ تھا کہ معاملاتِ دین میں حکم مقرر کرنا کفر ہے،اس بنا پر دونوں حکم اوران کے انتخاب کرنے والے کافر ہیں۔
<ref>(یہ تمام واقعات طبری سے ماخوذ ہیں)</ref>
 
حضرت علی ؓ نے حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کو خارجیوں کے پاس بھیجا کہ بحث ومباحثہ سے ان کی ضلالت دورکردیں، لیکن قلوب تاریک ہوچکے تھے،آنکھوں پر ضلالت وگمراہی کا پردہ پڑچکا تھا،اس لیے ارشادوہدایت کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔
معرکہ نہروان
خارجیوں نے نہروان میں مجمتع ہوکر عملاً سرکشی اختیار کی اورتمام ملک میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کردیا،کر دیا، حضرت علی ؓ دوبارہ شام پر فوج کشی کے خیال سے روانہ ہوچکے تھے،ان سرکشوں کا حال سن کر نہروان کی طرف پلٹ پڑے، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ گورنری کے عہد پر بصرہ پہنچ گئے تھے، وہ وہاں سے تقریبا ًسات ہزار کی جمعیت فراہم کرکے مقام نخیلہ میں افواجِ خلافت سے مل گئے اورنہروان پہنچ کر نہایت بہادری وپامردی کے ساتھ سرگرم پیکار ہوئے۔
<ref>(تاریخ الطوال)</ref>
 
== ایران کی حکومت ==
جنگِ نہروان نے گوخارجیوں کا زورتوڑدیا تھا تاہم ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے فارس،کرمان اورایران کے دوسرے اضلاع میں پھیل کر ایک عام شورش برپا کردی اورذمیوں کو بھڑکا کر آمادہ بغاوت کردیا،چنانچہکر دیا،چنانچہ ایران کے اکثر صوبوں میں عمال نکال دیئےدیے گئے، اورعجمیوں نے خراج اداکرنے سے قطعاً انکار کردیا،حضرتکر دیا،حضرت علی ؓ نے اپنے تمام عمال کو بلا کر اس شورش کے متعلق مشورہ طلب کیا،حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا میں ایران میں تسلط قائم کرنے کا ذمہ لیتا ہوں؛ چونکہ بصرہ ایران کے باغی اضلاع سے بلکلبالکل متصل تھا اوروہ ایک عرصہ سے وہاں کامیابی کے ساتھ گورنری کے فرائض انجام دے رہے تھے،اس لیے حضرت علی ؓ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اوران کو تمام ایران کا حاکم اعلی بنادیا۔
<ref>(تاریخ طبری: ۳۴۴۹3449)</ref>
== بغاوت کا استیصال ==
حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے بصرہ پہنچ کر زیاد بن ابیہ کو ایک زبردست جمعیت کے ساتھ ایران کی بغاوت فروکرنے پر مامور فرمایا، چنانچہ انہوں نے بہت جلد کرمان، فارس اورتمام ایران میں امن وسکون پیدا کردیا۔کر دیا۔
<ref>(ایضاً)</ref>
 
== مکہ میں عزلت نشینی ==
ایک روایت کے مطابق۴۰ھمطابق40ھ یعنی حضرت علی ؓ کی زندگی ہی میں حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے بصرہ کے عہد امارت سے مستعفی ہوکر مکہ میں عزلت نشینی اختیار کرلی،وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ اور ابواسوددئلی قاضیِ بصرہ میں باہم مخالفت تھی، ابو الاسود نے بارگاہ خلافت میں ان کی شکایت لکھی کہ انہوں نے بیت المال میں تصرف بے جا کیا ہے، حضرت علی ؓ نے ان سے جواب طلب کیا تو انہوں نے لکھا:
ان الذی بلغک وباطل وانی لماتحت یدی ضابط قائم لدولد حافظ فلا تصدق الظنون
آپ کو جو خبر ملی ہے وہ قطعا غلط ہے،میرے قبضہ میں جو کچھ ہے میں اس کا محافظ ونگہبان ہوں، آپ ان بدگمانیوں کو باورنہ فرمائیں۔
حضرت علی ؓ نے اس کے جواب میں ان سے بیت المال کا تمام وکمال حساب طلب کیا،عبداللہکیا،عبد اللہ بن عباس ؓ کو یہ ناگوار گذار،انہوںگزار،انہوں نے برداشتہ خاطر ہوکر لکھا۔
فهمت تعظيمك مرزأة ما بلغك أني رزأته من مال أهل هذا البلد فابعث إلى عملك من أحببت فإني ظاعن عنه والسلام
<ref>(تاریخ طبری:ذکر ماکان فیھامن الاحداث)</ref>
میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس شکایت کو کہ میں نے اس شہروالوں کے مال میں کچھ خورد برد کیا ہے،زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں، اس لیے آپ اپنے کام پر جس کو چاہے بھیج دیجئے میں اس سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔
ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ نے جب زیادہ باز پرس کی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا ہے اور بیت المال سے ایک بڑی رقم لے کر مکہ چلے گئے۔
لیکن صحیح یہ ہے کہ حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ حضرت علی ؓ کی شہادت تک بصرہ کی گورنری پر مامور تھے،البتہ جب حضرت امام حسین ؓ اورامیر معاویہ ؓ میں مصالحت کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی تو انہوں نے بطور حفظ ما تقدم پہلے ہی امیر معاویہ ؓ کو خط لکھ کر جان و مال کی امان حاصل کی اورمکہ جاکر گوشہ نشین ہوگئے۔ہو گئے۔
<ref>(طبری ذکر بیعت حسن بن علی ؓ)</ref>
 
== حضرت امام حسین ؓکو کوفہ جانے سے منع کرنا ==
۶۰ھ60ھ میں امیر معاویہ ؓ کے بعد جب یزید مسند نشین حکومت ہوا تو شیعانِ علی مرتضیٰ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو اس انقلاب سے فائدہ اٹھانے پر ابھارا اورکوفہ آنے کی دعوت دی، چنانچہ وہ مدینہ سے مکہ آئے اوریہاں سے عازم کوفہ ہوئے۔
چونکہ حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کوفیوں کی غداری کا دیرینہ تجربہ رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو بہ اصرار کوفہ جانے سے منع کیا اورکہا:
عبداللہعبد اللہ بن عباسؓ: اے ابن عم میں اپنے دل کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں؛لیکن وہ نہیں ہوتا، اس طریقہ سے جانے میں مجھ کو تمہاری ہلاکت وتباہی کا خوف ہے، اہل عراق نہایت غدار ہیں،تم ان کے قول وقرار پر اعتبار نہ کرو،تم اہل حجاز کے سردار ہو،اس لیے کوفہ جانے سے یہاں مقیم رہنا زیادہ مناسب ہے ،ہاں اگر اہل کوفہ درحقیقت تمہارے عقیدت کیش ہیں تو ان کو لکھو کہ وہ پہلے اپنے ملک سے دشمن کو نکال باہرکریں، پھران کے پاس جاؤ، اگر یہ منظور نہ ہوتو یمن کی راہ لو، وہاں بہت سے قلعے اورگھاٹیاں ہیں ،ملک نہایت وسیع وفراخ ہے اورتمہارے والد کا اثر بھی خاصہ ہے،علاوہ ازیں دشمن کے دورہونے کے باعث لوگوں سےمراسلت ومکاتبت کرسکتے ہو اورتمام ملک میں اپنے داعی پھیلا سکتے ہو،مجھے امید ہے کہ اس طرح زیادہ آسانی واطمینان کے ساتھ تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا۔
حضرت امام حسین ؓ: اے ابن عم! خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ آپ میرے سچے خیر خواہ مہربان ہیں؛لیکن اب سفر کوفہ کی تیاریاں ہوچکی ہیں اور میں نے وہاں جانے کا عزم مصمم کرلیاکر لیا ہے۔
عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ اگر تم جاتے ہو تو خدارا بیوی،بچوں کو ساتھ نہ لے جاؤ، خدا کی قسم مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم بھی اس طرح نہ شہید کیے جاؤ جس طرح حضرت عثمان ؓ اپنی عورتوں اوربچوں کے سامنے ذبح کئےکیے گئے۔
لیکن مشیتِ الہی میں کس کو دخل تھا، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کے ضدواصرار کے باوجود حضرت امام حسین ؓ اپنے تمام خاندان کے ساتھ راہی کوفہ ہوئے اورمیدان کربلانے وہ خونیں منظر پیش کیا جس سے جگرپاش پاش ہوتا ہے،حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کو اپنے خاندان کی تباہی کا جو روح فرسا صدمہ ہوا ہوگا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے؟ وہ بیس سال سے گوشہ نشین تھے؛ لیکن اس واقعہ کے بعد تمام دنیا ان کے سامنے تیرہ و تار تھی ،بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اخیر عمر میں نابینا ہوگئےہو گئے تھے۔<ref>(اسد الغابہ:۳3/۱۹۵195)</ref>شاید اسی جگر خراش سانحہ کا اثر ہو۔
عبداللہعبد اللہ بن زبیر ؓ کی بیعت سے انکار
اسی سال حضرتِ عبداللہعبد اللہ بن زبیر ؓ نے مکہ میں خلافت کا دعویٰ کیا،چونکہ حجازوعراق میں حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کے معتقدین کی ایک بڑی جماعت تھی، اس لیے انہوں نے ان سے بیعت کے لیے بے حد اصرار کیا اوربصورتِ انکار آگ میں جلادینے کی دھمکی دی،لیکن وہ تمام جھگڑوں سے کنارہ کش ہوچکے تھے،اس بناپر انہوں نے نہایت سختی سے انکار کیااور ابوطفیل کو کوفہ بھیج کر اپنے معتقدین سے مدد طلب کی۔
ابو طفیل کا بیان ہے کہ ہم کوفہ سے چارہزار جان نثاروں کی ایک جماعت لےکر نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو عبداللہعبد اللہ بن زبیر ؓ نے غلافِ کعبہ تھام کر پناہ حاصل کی، حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کے مکان کے ارد گرد لکڑیوں کا انبار لگایا جاچکا تھا،ہم نے ان سے کہا اگر آپ اجازت دیجئے تو اس شخص سے مخلوقِ الہی کو نجات دیں، بولے نہیں یہ حرم ہے ،یہاں کشت وخون جائز نہیں ،تم صرف میری حفاظت کرو اورمجھے پناہ دو۔
<ref>(اسد الغابہ:۳3/۱۹۵195)</ref>
حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ درحقیقت بنوامیہ کی بہ نسبت حضرت عبداللہعبد اللہ بن زبیر ؓ کو خلافت کا زیادہ مستحق سمجھتے تھے،ابن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا،کیا آپ ابن زبیر ؓ سے لڑکر حرم الہی کو حلال کرنا چاہتے ہیں؟ بولے معاذ اللہ!حرم میں خونریزی کرناتو صرف بنوامیہ اورابن زبیر ؓ کی قسمت میں لکھا ہے، میں خدا کی قسم کبھی ایسی جرأت نہ کروں گا،میں نے کہا لوگ ابن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کررہےکر رہے ہیں،معلوم نہیں ان کو خلافت کا دعویٰ کس بنا پر ہے؟ فرمایا،کیوں نہیں ان کے والد زبیر ؓ حواری رسول ﷺ تھے، ان کے نانا ابوبکر ؓ آنحضرت ﷺ کے رفیق غار تھے، ان کی ماں اسماء ؓ ذات النطاق تھیں، ان کی خالہ عائشہ ؓ ام المومنین تھیں، ان کے والد کی پھوپھی خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کی حرم محتر تھیں،اوران کی دادی صفیہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں، پھر وہ ایک خود بھی پاک باز مومن اوقاریِ قرآن ہیں،خدا کی قسم! اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو ایک رشتہ دار کا احسان ہوگا اوراگر وہ میری پرورش کریں گے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔
<ref>(بخاری :۲2/۶۷۲672)</ref>
== طائف منتقل ہونا ==
لیکن اس دلی ہمدردی وجانبداری کے باوجود انکار بیعت سے جو مخالفت پیدا ہوگئیہو گئی تھی، اس کی بنا پر مکہ میں ان کا رہنا خطرہ سے خالی نہ تھا،اس لیے کوفی معاونین کی حفاظت میں مکہ سے طائف منتقل ہوگئےہو گئے اور بقیہ زندگی کے دن وہیں پورے کئے۔کیے۔
 
== علم وفضل ==
فضل وکمال کے اعتبار سے ابن عباس ؓ اس عہدِ مبارک کے ممتاز ترین علماءعلما میں تھے ان کی ذات ایسی زندہ کتاب خانہ تھی، جس میں تمام علوم ومعارف بہ ترتیب جمع تھے،قرآن،تفسیر،حدیث، فقہ، ادب، شاعری،وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِطولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔
 
== تفسیر ==
باالخصوص قرآن پاک کی تفسیر وتاویل میں جو مہارت اورآیات قرآنی کے شانِ نزول اورناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی، حضرت عبداللہعبد اللہ بن مسعود ؓ جو علم و فضل میں ان کے ہمسر تھے،فرماتے تھے کہ عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ قرآن کے کیا اچھے ترجمان ہیں،شقیق تابعی راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حج کے موسم میں عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے خطبہ دیا اوراس میں سورۂ نور کی تفسیر بیان کی میں کیا بتاؤں وہ کیا تفسیر تھی،اس سے پہلے نہ میرے کانوں نے سنی تھی،نہ آنکھوں نے دیکھی تھی،اگر اس تفسیر کو فارس اورروم والے سن لیتے تو پھر اسلام سے ان کو کوئی چیز نہ روک سکتی ۔
<ref>(مستدرک حاکم :۳3/۵۳۷537)</ref>
حضرت عمرؓ کی علمی مجلسوں میں یہ برابر شریک ہوتے تھے اور قرآن پاک کے فہم میں وہ اکثر بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے،ایک دن فاروق اعظم کے حلقۂ مجلس میں اکابر صحابہ کا مجمع تھا، ابن عباسؓ بھی موجود تھے،حضرت عمرؓ نے اس آیت کا مطلب پوچھا:
"أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ"
<ref>(البقرۃ:۲۶۶266)</ref>
کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرےگا کہ اس کا کھجور اورانگور کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں رواں ہوں، اس کے لیے ہر قسم کے پھل اس میں موجود ہوں، اوراس شخص پر بڑھاپا آگیا ہو اوراس کے ناتواں بچے ہوں، اس حالت میں اس باغ میں ایسا بگولہ آیا، جس میں آگ بھری تھی،اس نے باغ کو جلادیا، اسی طریقہ سے اللہ تمہارے لیے کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے، شاید تم بچو۔
لوگوں نے کہا واللہ اعلم!حضرت عمرؓ کو اس بے معنی جواب پر غصہ آگیا، بولے اگر نہیں معلوم تو صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ نہیں معلوم، ابن عباس ؓ جھجکتے ہوئے بولے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، فرمایا تم اپنے کو چھوٹا نہ سمجھو جو دل میں ہو بیان کرو، کہا اس میں عمل کی مثال دی گئی ہے،جواب گو صحیح تھا، تاہم ناکافی تھا، حضرت عمرؓ نے پوچھا کیسا عمل؟ ابن عباس ؓ نے اس سے زیادہ نہ بتاسکے،تب خود حضرت عمرؓ نے بتایا کہ اس میں اس دولت مند کی تمثیل ہے جو خدا کی اطاعت بھی کرتا ہے،لیکن اس کو شیطانی وسوسہ گناہوں میں مبتلاکردیتا ہے،اوراس کے تمام اچھے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔
<ref>(بخاری جلد،کتاب الفسیر باب قولہ ایود احدکم ان تکون لہ جنۃ الخ)</ref>
حضرت عمرؓ ان کی ذہانت اورذکاوت کی وجہ سے ان کو شیوخ بدر کے ساتھ مجلسوں میں شریک کرتے تھے،بعض صحابہؓ کو اس سے شکایت پیدا ہوئی، انہوں نے کہا کہ ان کو ہمارے ساتھ مجلسوں میں کیوں شریک کرتے ہو، ان کے برابر تو ہمارے لڑکے ہیں ،فرمایا تم لوگ ان کا مرتبہ جانتے ہو، اس کے بعد ان کی ذہانت کا مشاہدہ کرانے کے لئےلیے ایک دن ان کو بلا بھیجا اورلوگوں سے پوچھا کہ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ
<ref>(جب خدا کی نصرت اورفتح آگئی تو اے پیغمبر تو بہ اور استغفار کرنا)</ref>
کے بارہ میں تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ کسی نے جواب دیا کہ نصرت و فتح پر ہم کو خدا کی حمد وثناء کا حکم دیا گیا ہے، کوئی خاموش رہا، پھر ابن عباسؓ سے پوچھا کہ ابن عباسؓ! تمہارا بھی یہی خیال ہے ،انہوں نے کہا نہیں پوچھا پھر کیا ہے؟ عرض کیا اس میں آنحضرتﷺ کی وفات کا اشارہ ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا جو تم کہتے ہو یہی میرا بھی خیال ہے۔
<ref>(بخاری:۱1/۷۴۳،کتاب743،کتاب التفسیر ،باب قولہ فسبح بحمد ربک الخ)</ref>
درحقیقت حضرت ابن عباسؓ کی فہم تفسیر قرآن میں ایسی دقیقہ رس تھی کہ وہاں تک مشکل سے دوسروں کا خیال پہنچ سکتا تھا؛چنانچہ اس سورہ کا مقصد خاص محرمان اسرار کے علاوہ عام لوگ کم سمجھ سکتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اکثر صحابہؓ میں مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی کہ اس میں خدانے فتح و نصرت اور اسلام کی مقبولیت کے ایفائے عہد پر حمدو ثناء کا حکم دیا ہے،لیکن مقرب بارگاہ رسالت، محرمِ اسرار نبوت ،ثانی اثنین فی الغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں سے جوئے اشک رواں ہوگئیہو گئی کہ اس کی صبح وصل کا نور چھنتا ہو اورشام فراق کی تاریکی چھاتی ہوئی نظر آگئی تھی۔
(بخاری)
بظاہر اس سورہ کو آنحضرتﷺ کی وفات سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا ؛لیکن اگر انسان کے مقصدِ حیات کو پیش نظر رکھ کر اس کی ترتیب اوراس کے معنی پر غور کیا جائے تو مطلب واضح ہوجاتا ہے،دنیا میں انسان ایک نہ ایک مقصد لے کر آتا ہے،ہے اور اس کے حصول کے بعد اس کے آنے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے،پھر قیام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ،آنحضرتﷺ دین الہیٰ کی تبلیغ کے لئےلیے دنیا میں تشریف لائے تھے وہ پوری ہوچکی تو خدانے فرمایا کہ جب خدا کی مدد اوراس کی فتح آچکی اورتم نے دیکھ لیا لوگ جوق درجوق خدا کے دین میں داخل ہورہےہو رہے ہیں تو اب تم خدا کی تحمید و تقدیس کرو، اس سے مغفرت چاہو وہ بڑاتوبہ قبول کرنے والا ہے، یعنی خدا کو کچھ کام تمہارے ذریعہ لینا تھا وہ لے چکا اب تم کو اس سے ملنے کی تیار کرنی چاہیے۔
حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں ہمیشہ عام، جامع اورقرینِ عقل شق کو اختیار کرتے تھے،سورۂ کوثر کی تفسیر خود آنحضرت ﷺ سے حضرت عائشہ ؓ اورمتعدد اکابر صحابہ ؓ کے ذریعہ سے منقول ہے،حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے سورۂ کوثر کے نزول کے وقت پوچھا جانتے ہو کوثر کیا چیز ہے، لوگوں نے عرض کیا خدا اوراس کا رسول خوب جانتا ہے، فرمایا خدانے مجھ سے ایک نہر کا وعدہ کیا ہے جس میں بیشمار بھلائیاں ہیں،قیامت کے دن اس حوض پر میری امت آئے گی<ref>(مسلم)</ref> حضرت عائشہ ؓ اور حضرت انس ؓ کوثر سے مراد نہر لیتے ہیں اورحضرت ابن عباس ؓ "خیر کثیر"مراد لیتے ہیں(بخاری کتاب التفسیر انا اعطینک الکوثر)حضرت ابن عباس ؓ کی اس تفسیر سے عطیہ الہی کی وسعت اورعظمت بہت بڑھ جاتی ہے، اوردوسری تفسیریں بھی اس کے تحت میں آجاتی ہیں، اورقرآن پاک کے سلسلہ کلام کا بھی یہی اقتضا ہے کہ کوثر سے مراد"خیر کثیر" لیا جائے،تاکہ اس کے بعد کفار سے برأت (قل یاایھا الکافرون) اورفتح ونصرت(فتح مکہ) کی بشارت اسی سلسلہ میں داخل ہوجائے۔
قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
<ref>(شوریٰ:۲۳23)</ref>
کہدواے محمد :تبلیغ رسالت کے عوض میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا،صرف یہ کہ قرابت داری کی محبت ملحوظ رکھو۔
عام مفسرین"قربیٰ"سے مراد خاص آنحضرت ﷺ کے اہل بیتبیعت لیتے ہیں،لیکن ابن عباس ؓ قریش کے تمام قبائل کو اس میں شامل کرتے ہیں، ایک مرتبہ کسی نے ان سے "مودۃ فی القربی" کی تفسیر پوچھی،سعید بن جبیر بولے اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی قرابت ہے،یعنی آپ کے اہل بیت کی قرابت، ابن عباس ؓ نے کہا تم نے جلد بازی سے کام لیا، قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آنحضرت ﷺ کی قرابت نہ رہی ہو، اس آیت میں یہ سب شامل ہیں۔
<ref>(ایضاً باب قولہ تعالی قل لا الخ)</ref>
تفسیر قرآن اورفہم قرآن کے فطری ملکہ کے علاوہ شانِ نزول اورناسخ ومنسوخ کے بارہ میں اس قدر حاضر المعلومات تھے کہ بمشکل کوئی ایسی آیت نکل سکے گی جس کے تمام جزئیات اورمَالَہ وماعلیہ سے پوری ان کو واقفیت نہ ہو۔
 
لَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
<ref>(نساء:۹۴94)</ref>
اے مسلمانو!(اظہار اسلام کے لیے)جو تم کو سلام کرے،اس کو تم خواہ مخواہ نہ کہو تو مسلمان نہیں ہے۔
بظاہر یہ ایک عام حکم ہے اس کی تفسیر بھی ابن عباس ؓ کی ممنونِ احسان ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ کسی غزوہ میں ایک شخص کچھ مالِ غنیمت لیے ہوئے تھا، مسلمانوں کا سامنا ہوا تو اس نے سلام کیا، ان لوگوں نے (شبہ میں) مارڈالا، اورمالِ غنیمت چھین لیا، اس پر یہ حکم نازل ہوا۔
<ref>(بخاری باب قولہ تعالی،لاتقولوا،مسنداحمد بن حنبل:۱1/۲۲۹229)</ref>
اسی طریقہ سے اس آیت:
وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ
(حجر:۲۴24)
ہم نے تم میں سے بعض ان لوگوں کو جو آگے بڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں جان لیا ہے اوران کو بھی جو پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔
کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک خوبصورت عورت جماعت کی نماز میں شریک ہوتی تھی،بعض محتاط اشخاص اگلی صف میں چلے جاتے تھے کہ اس پر نظر نہ پڑے اوربعض دیکھنے کی نیت سے پیچھے رہتے تھے اوررکوع میں بغل کے راستہ سے نظر ڈال لیتے تھے،ان کی اس خیانت پر یہ آیت نازل ہوئی۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۱1/۳۰۵305)</ref>
قرآن مجید کا یہ حکم :
"لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"
<ref>(آل عمران:۱۸۸188)</ref>
اورجو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے،بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
بظاہر انسانی فطرت کے کس قدر خلاف ہے،کیونکہ ہرشخص اپنے کیے پر خوش ہوتا ہے اورجو نہیں کرتا ہے اس پر بھی تعریف کاخواہاں رہتا ہے، اگر بہت بلند اخلاق کا شخص ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہ دوسرا جذبہ اس میں نہ ہوگا، اس تہدیدی حکم کے استفسار کے لیے مروان نے اپنے دربان کو عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ کے پاس بھیجا کہ ان سے جاکر پوچھو کہ ہم میں سے کون ایسا ہے،جس کے دل میں یہ جذبہ نہ ہو، اس حکم کے مطابق تو ہم سب عذاب میں مبتلا ہوں گے حضرت ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ اس کو ہم لوگوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک خاص موقعہموقع پراہل کتاب کے بارہ میں نازل ہوئی تھی،پھر یہ آیت۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ
<ref>(آل عمران:۱۸۷187)</ref>
جب خدانے ان لوگوں سے جن کو کتاب دی ہے یہ وعدہ لیا کہ وہ اسے لوگوں کو کھول کھول کے سنائیں گے۔
تلاوت کرکے کہا کہ ان کو یہ حکم ملاتھا، مگر انہوں نے بالکل اس کے برعکس عمل کیا، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ان سے کسی بات کے متعلق استفسار فرمایا، انہوں نے اصل جواب جوان کی کتاب میں تھا چھپا ڈالا اوراپنے حسب منشاءمنشا دوسرافرضی جواب دے کر آنحضرت ﷺ پر ظاہر کیا کہ انہوں نے اصل جواب دیا ہے اور پھراس فعل پر آنحضرت ﷺ سے خوشنودی کے طالب ہوئے اوراپنی اس چالاکی پر شاداں وفرحاں ہوئے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہوتے ہیں(جیسا کہ اہل کتاب اپنی چالاکی پر خوش ہوئے تھے) اورجو نہیں کیا ہے اس پر تعریف کے خواہاں ہوتے ہیں
(جیسا کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی خوشنودی کے خواہاں ہوئے تھے) تو ایسے لوگوں کے لیے عذاب سے چھٹکارا نہیں ہے اوران کے لیے دردناک عذاب ہے۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۱1/۲۹۸298)</ref>
ذیل کے واقعہ سے ان کی فراست ،طباعی،دقیقہ سنجی،اور قوتِ استنباط کا اندازہ ہوگا، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں سوال کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے اخیر عشرہ کی ایک طاق رات ہے،تم لوگ اس سے کون سی طاق رات سمجھتے ہو؟ کسی نے ساتویں کسی نے پانچویں،کسی نے تیسری بتائی،ابن عباس ؓ سے فرمایا تم کیوں نہیں بولتے،عرض کیا اگر آپ فرماتے ہیں تو مجھ کو کیا عذر ہوسکتا ہے،حضرت عمرؓ نے فرمایا میں نے بولنے ہی کے لیے تمہیں بلایا ہے،کہا میں اپنی ذاتی رائے دوں گا،فرمایا ذاتی رائے تو پوچھتا ہی ہوں،کہا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات کے عدد کو بہت اہمیت دی ہے ،چنانچہ فرمایا ہے کہ سات آسمان، سات زمین، ایک دوسرے موقعہموقع پر فرمایا ہے کہ ہم نے زمین کو پھاڑا اوراس میں غلہ،انگور،شاخ، زیتون ،کھجور،کے درخت،گنجان باغ، اورمیوے اُگائے،یہ بھی سات باتیں ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ تم لوگ اس بچہ سے بھی گئے گذرے ہوئے،جس کے سرکے گوشہ بھی ابھی درست نہیں ہوئے،یہ جواب کیوں نہ دیا،<ref>(مستدرک حاکم جلد ۳3 صفحہ ۵۳۹539)</ref>گو بعض دوسرے صحابہ ؓ نے بھی سات کی تعیین کی تھی،لیکن کسی استدلال کے ساتھ نہیں، سبھوں نے ایک ایک طاق رات اپنے اپنے قیاس و فہم کے مطابق لی، کسی نے سات کی شب بھی لی، لیکن ابن عباس نے قرآن سے اس کی تائید پیش کی،حضرت ابن عباس ؓ تفسیر میں نہایت دلیری سے کام لیتے تھے، بعض محتاط صحابہ ؓ اس دلیری کو ناپسند کرتے تھے، لیکن بالآخر ان کو بھی ان کی مہارتِ تفسیر کا اعتراف کرناپڑا۔
ایک مرتبہ حضرت ابن عمر ؓ کے پاس ایک شخص آیا، اوراس نے آیت
"کانتا رتقا ففتقنا"
کا مطلب پوچھا، انہوں نے امتحان کی غرض سے ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیا کہ ان سے پوچھ کر بتاؤ، اس نے جاکر پوچھا،انہوں نے بتایا کہ آسمان کا فتق یہ ہے کہ پانی نہ برسائے زمین کا فتق یہ ہے کہ نباتات نہ اگائے،سائل نے واپس آکر یہ جواب حضرت ابن عمرؓ کو سنایا انہوں نے کہا ابن عباس ؓ کو نہایت سچا علم مرحمت ہوا ہے، مجھ کو تفسیر قرآن میں ان کی دلیری پر حیرت ہوتی تھی ؛لیکن اب معلوم ہوا کہ درحقیقت علم ان ہی کا حصہ ہے،<ref>(اصابہ :۴4/ ۹۶96)</ref> حضرت ابن عمرؓ اس کے بعد قرآن کے سائلین کو خود جواب نہ دیتے تھے،بلکہ ابن عباس ؓ کے پاس بھیج دیتے تھے،ایک مرتبہ عمروبن حبشی نے ایک آیت کے متعلق ان سے استفسار کیا، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ سے پوچھو، قرآن کے جاننے والے جو لوگ باقی رہ گئے ہیں،ان میں سب سے زیادہ معلومات وہی رکھتے ہیں۔
<ref>(کتاب الناسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)</ref>
علومِ قرآنی میں علم النسخ کی اہمیت بالکل عیاں ہے، حضرت ابن عباس ؓ اس بحرزخار کے بھی شناور تھے، اورتمام ناسخ اورمنسوخ احکام ان کے ذہن میں مستحضر تھے، یہ اس علم کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بغیر اس پر حاوی ہوئے وعظ کی لب کشائی کی اجازت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ کسی راستہ سے گذر رہےتھے،رہے تھے، ایک اور واعظ وعظ کہہ رہا تھا، اس سے پوچھا ناسخ منسوخ جانتے ہو کسے کہتے ہیں، اس نے کہا نہیں ،فرمایا: تو تم خود بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔
<ref>(کتاب النساسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)</ref>
گو حضرت ابن عباس ؓ قرآن کی تعلیم میں بخل نہ کرتے تھے، اوران کا دروازہ ہر طالب قرآن کے لیے کھلا ہوا تھا، تاہم وہ اس نکتہ سے بھی بے خبر نہ تھے کہ جب کثرت سے قرآن کی اشاعت ہوگی اورہر کس وناکس فہم قرآن کا مدعی ہوجائے گا توامت میں اختلاف کا دروازہ کھل جائے گا، ان کی اس نکتہ رسی کا اعتراف حضرت عمرؓ کو بھی کرنا پڑا،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں سارے ممالک محروسہ میں حافظِ قرآن مقرر کردیئےکر دیے تھے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیں، ایک دن ابن عباس ؓ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حاکم کوفہ کا خط آیا کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا، حضرت عمرؓ نے یہ مژدہ سنکر تکبیر کا نعرہ لگایا،لیکن ابن عباس ؓ بولے کہ اب ان میں اختلاف کا تخم پڑگیا،پڑ گیا، حضرت عمرؓ نے غصہ سے پوچھا تم کو کیسے معلوم ہوا، اس واقعہ کے بعد یہ گھر چلے آئے،لیکن حضرت عمرؓ کے دل میں ان کا کہنا کھٹکتا رہا،چنانچہ آدمی بھیج کر ان کو بلا بھیجا، انہوں نے عذر کردیا،دوبارہکر دیا،دوبارہ پھر آدمی بھیجا کہ تم کو آنا ہوگا،اس تاکید پر یہ چلے آئے،حضرت عمرؓ نے پوچھا تم نے کوئی رائے ظاہر کی تھی، انہوں نے کہا پناہ بخدا اب میں کبھی دوبارہ کوئی خیال نہ ظاہر کروں گا، حضرت عمرؓ نے کہا میں طے کرچکا ہوں کہ جو تم نے کہا تھا اس کو کہلوا کر رہوں گا، اس اصرار پر انہوں نے کہا کہ آپ نے جب کہا کہ میرے پاس خط آیا ہے کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن یاد کرلیا،کر لیا، اس پر میں نے کہا کہ ان لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا،ہو گیا، حضرت عمرؓ نے کہا یہ تم نے کیسے جانا، انہوں نے سورۂ بقرہ کی یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ، وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ، وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
<ref>(بقرہ:۲۰۴تا204تا ۲۰۶206)</ref>
اے محمد لوگوں میں سے بعض ایسے آدمی بھی ہیں جن کی باتیں تم کو دنیاوی زندگی میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اوروہ اپنی دلی باتوں پر خداکو گواہ بناتا ہے،حالانکہ وہ دشمنوں میں بڑا جھگڑالو ہے اورجب وہ تمہارے پاس لوٹ کر جائے تو ملک میں پھرے تاکہ اس میں فساد پھیلائے اورکھیتی اورنسل کو تباہ کرے اوراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا اورجب اس سے کہا جائے کہ خداسے ڈرو تو اس کو عزت نفس گناہ پر آمادہ کرے،ایسے شخص کے لیے جہنم کافی ہے اوروہ بہت بُراٹھکاناہے اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اوراللہ بندوں پر شفقت کرنے والا ہے۔
یہ آیتیں سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم نے سچ کہا۔
<ref>(مستدرک حاکم جلد ۳3 صفحہ ۵۴۰540 شرط شیخین)</ref>
 
== حدیث ==
حضرت ابن عباس ؓ مخصوص صحابہ ؓ میں ہیں جو علم حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں،اگر حدیث کی کتابوں سے ان کی روایتیں علیحدہعلاحدہ کرلی جائیں تو اس کے بہت سے اوراق سادہ رہ جائیں گے، ان کی مرویات کی مجموعی تعداد ۲۶۶۰2660 ہے، ان میں ۷۵75 متفق علیہ ہیں،یعنی بخاری اورمسلم دونوں میں ہیں، ان کے علاوہ ۱۸18 روایتوں میں بخاری منفرد ہیں اور۴۹اور49 میں مسلم۔
<ref>(تہذیب الکمال :۲۰۲202)</ref>
ان کی روایات کی کثرت اور معلومات کی وسعت خود ان کی ذاتی کاوش وجستجو کا نتیجہ ہیں، گوبہت سی روایتیں براہِ راست خود زبانِ وحی والہام سے لی ہیں، لیکن آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر۱۴،عمر14، ۱۵15 سال سے زائد نہ تھی، ظاہر ہے کہ اس عمر میں علم کا اتنا سرمایہ کہاں سے حاصل کرسکتے تھے، ان کے ذوقِ علم اور تلاش وجستجو کا اندازہ ذیل کے واقعات سے ہوگا۔
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ایک انصاری سے کہا کہ آنحضرت ﷺ وفات پاگئے، مگر آپ ﷺ کے اصحاب زندہ ہیں چلو ان سے تحصیل علم کریں، انہوں نے کہا ابن عباس ؓ! مجھو کو تم پر حیرت ہوتی ہے،تم دیکھتے ہو کہ لوگ علم میں خود تمہارے محتاج ہیں، پھر تم دوسروں کے پاس جاتے ہو،یہ جواب سن کر ان کو چھوڑدیا اورتنہا جہاں کہیں سراغ ملتا کہ فلاں شخص نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے،فوراً مشقت اٹھا کر اس کے پاس پہنچتے اوراطلاع دیتے وہ گھر سے نکل آتا اورکہتا کہ تم نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے، وہ کہتا: اے ابن عم رسول ﷺ !آپ نے کیوں زحمت گوارا کی،کسی دوسرے کو بھیج دیا ہوتا، کہتے نہیں یہ میرا فرض تھا، اس طریقہ سے عرب کے گوشہ گوشہ سے ایک ایک دانہ چن چن کر خرمنِ علم کا انبار لگایا، جب ان کے فضل وکمال کا چرچا زیادہ ہوا،اس وقت ان انصاری نے جنہوںجنھوں نے ساتھ چلنے سے انکار کردیاکر دیا تھا،ندامت کے ساتھ اقرار کیا،ابن عباس ؓ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔
<ref>(مستدرک حاکم جلد ۳3 فضائل ابن عباس ؓ سعی ابن عباس ؓ فی طالب العلم)</ref>
ابوسلمہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کہتے تھے کہ جس شخص کے متعلق مجھ کو پتہ چلتا کہ اس نے آنحضرت ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے تو میں خود اس کے مکان پر جاکر حاصل کرتا ؛حالانکہ اگر میں چاہتا تو راوی کو اپنے یہاں بلواسکتا تھا۔
<ref>(تذکرہ الحفاظ :۱1/۵5)</ref>
ابو رافع ؓ آنحضرت ﷺ کے غلام تھے،اس لیے ان کو آنحضرت ﷺ کے افعال دیکھنے اوراقوال سننے کا زیادہ موقع ملتا تھا،ابن عباس ؓ ان کے پاس کاتب لے کر آتے اور پوچھتے کہ آنحضرت ﷺ نے فلاں فلاں دن کیا کیا کیا،ابو رافع ؓ بیان کرتے اورکاتب قلمبند کرتا جاتا۔
<ref>(اصابہ:۴4/۹۶96)</ref>
اسی تلاش وجستجو نے ان کو اقوال وافعال نبوی کا سب سے بڑا حافظ بنادیا تھا،اکثراکابر صحابہ ؓ کو جوعمر اورمرتبہ میں ان سے کہیں زیادہ تھے،ان کے مقابلہ میں اپنے قصورِعلم کا اعتراف کرنا پڑتا تھا،یہ فتویٰ دیتے تھے کہ حائضہ طواف رخصت کیے بغیر لوٹ جائے،حضرت زید بن ثابت ؓ انصاری کاتب وحی کو معلوم ہوا تو انہوں نے پوچھا تم حائضہ عورت کو یہ فتویٰ دیتے ہو، انہوں نے کہا ہاں، زید بن ثابت ؓ نے کہا یہ فتویٰ نہ دیا کرو، انہوں نے کہا میں تو یہی دوں گا، اگر آپ کو شک ہے تو فلاں انصاریہ سے جاکر پوچھ لیجئے کہ اس کو یہ حکم دیا تھا یا نہیں،زید بن ثابت ؓ نے جاکر پوچھا تو ابن عباس ؓ کا فتویٰ صحیح نکلا، چنانچہ ہنستے ہوئے واپس آئے اور بولے تم نے سچ کہا تھا۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۱1/ ۲۲۶226)</ref>
اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ان میں اور مسوربن مخرمہ میں محرم کے سردھونے کے بارہ میں اختلاف ہوا، یہ کہتے تھے محرم سردھوسکتا ہے،مخرمہ اس کے خلاف تھے، اس پر عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے عبداللہعبد اللہ بن حنین کو حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے پاس تحقیق کے لیے بھیجا، یہ اس وقت کپڑا آڑ کیے ہوئے کنوئیں پر نہارہےنہا رہے تھے، عبداللہعبد اللہ نے سلام کیا،انہوں نے پوچھا کون؟ کہامیں ہوں عبداللہعبد اللہ بن حنین،ابن عباس ؓ نے پوچھا ہے کہ آنحضرت ﷺ احرام کی حالت میں کسی طرح سردھوتے تھے، ابوایوب ؓ نے عملا ًنقشہ کھینچ کر بتادیا۔
<ref>(ابوداؤد کتاب المناسک باب الحرم یضل راسہ)</ref>
جب صحابہ کرام ؓ میں آنحضرت ﷺ کے کسی قول وفعل کے بارہ میں اختلاف ہوتا تو وہ ابن عباس ؓ کی طرف رجوع کرتے، اس بارہ میں کہ آنحضرت ﷺ نے کہاں سے احرام باندھا؟ صحابہ ؓ میں بہت اختلاف ہے،سعید بن جبیر نے ابن عباس ؓ سے کہا کہ ابو العباس مجھ کو حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے اصحاب ؓ میں آپ کے احرام باندھنے کی جگہ کی تعیین میں بہت زیادہ اختلاف ہے،انہوں نے کہا میرے معلومات اس بارہ میں سب سے زیادہ ہیں،چونکہ آنحضرت ﷺ نے ایک ہی حج کیا ہے،اس لیے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوگیا،ہو گیا، اس کا سبب یہ ہے کہ جب آپﷺ نے ذو الحلیفہ کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد احرام باندھا اورلبیک کہنا شروع کیا،جولوگ اس وقت موجود تھے انہوں نے اسی کو یادرکھا،پھر جب آپ ﷺ اونٹنی پر سوار ہوئے اور وہ چلی تو پھر آپ نے لبیک کہا،اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ یہ سمجھے کہ آپ نے یہیں ابتدا کی ہے،چنانچہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب آپﷺ اونٹنی پر سوار ہوکر چلے اسی وقت سے لبیک کہنا شروع کیا، اس کے بعد جب آپ ﷺ بلندی پر چڑھے اس وقت سے کہنا شروع کیا،لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے مسجد میں احرام باندھا،اس کے بعد جب اونٹنی چلی تب، اورجب بلند مقام پر چڑھے تب دونوں مرتبہ لبیک کہا۔
<ref>(ابو داؤد کتاب المناسک باب وقت الاحرام)</ref>
== روایتوں میں احتیاط ==
عموماًکثیر الروایت راویوں کے متعلق یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ روایت کرنے میں محتاط نہیں ہوتے اوررطب ویابس کا امتیاز نہیں رکھتے،لیکن ابن عباس ؓ کی ذات اس سے مستثنی اوراس قسم کے شکوک وشبہات سے ارفع واعلی تھی، وہ حدیث بیان کرتے وقت اس کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے کہ کوئی غلط روایت آنحضرت ﷺ کی جانب نہ منسوب ہونے پائے،جہاں اس قسم کا کوئی خفیف سا بھی خطرہ ہوتا، وہ بیان نہ کرتے تھے، چنانچہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے،جب تک جھوٹ کا خطرہ نہ تھا، لیکن جب سے لوگوں نے ہر قسم کی رطب ویابس حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں،کر دیں، اس وقت سے ہم نے روایت ہی کرنا چھوڑدیا،<ref>(مسند دارمی باب فی الحدیث عن الثقات)</ref>لوگوں سے کہتے کہ تم کو قال رسول اللہ کہتے وقت یہ خوف نہیں معلوم ہوتا کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے،یا زمین شق ہوجائے اورتم اس میں سما جاؤ،<ref>(ایضاباب ماتیقی من تفسیر حدیث النبی ﷺ )</ref>اسی احتیاط کی بناپر فتویٰ دیتے تو آنحضرت ﷺ کا نام نہ لیتے تھے،<ref>(مسند احمد ابن حنبل جلد۱جلد1 صفحہ ۳۵۰350)</ref> کہ آپ کی طرف نسبت کرنے کا بار نہ اٹھانا پڑے۔
 
 
سطر 246:
 
== وصال ==
[[Fileفائل:مسجد عبدالله بن عباس.jpg|thumbتصغیر|مسجد عبدالله بن عباس، طائف]]
ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور مکہ میں زندگی بسر کرتے تھے، انہیں عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک بن مروان کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ عبد اللہ بن زبیر نے آپ سے بیعت طلب کی لیکن ابن عباس نے انکار کر دیا؛ لہذا ابن زبیر نے انہیں طائف جلا وطن کر دیا۔ مشہور یہ ہے کہ ابن عباس کا انتقال سن 68 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات سن 69 ہجری میں نقل ہوئی ہے۔ ابن عباس آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے لہذا ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے: