"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 209:
<ref>(مسلم:۱ )</ref>
 
== تلامذہ ==
 
ان کی اس فیض رسانی و علم وعرفان کی بارش نے ان کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع کردیا تھا، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے،مشہور تلامذہ اورشاگردوں کی مختصر فہرست یہ ہے۔
بیٹوں میں محمد اور علی،پوتوں میں محمد بن علی، بھائیوں میں کثیر، بھتیجوں میں عبداللہ بن عبیداللہ، اورعبداللہ بن معبد، عام لوگوں میں عبداللہ بن عمر، ثعلبہ بن حکم، مسور بن مخرمہ، ابو الطفیل، ابوامامہ بن سہل،سعید بن مسیب، عبداللہ بن حارث، عبداللہ بن عبداللہ، عبداللہ بن شداد، یزید بن اصم، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابو حمزہ ضبعی، ابومجلز لاحق بن حمید، ابورجاء عطاردی، قاسم بن محمد، عبید بن اسباق، علقمہ بن وقاص، علی بن حسین، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عکرمہ،عطاء،طاؤس،کریب،سعید بن جبیر، مجاہد ،عمروبن دینار، ابوالجوزاء، اوس بن عبداللہ ربعی، ابوالشعثا، جابر بن زید، بکر بن عبداللہ مزنی، حصین بن جندب، حکم بن اعرج، ابوالجویرہ، حطان بن خفاف، حمید بن عبدالرحمن بن عوف، رفیع ابوالعالیہ،مقسم ،ابوصالح السمان ،سعد بن ہشام، سعید بن ابوالحسن بصری، سعید بن حویرث، سعید بن ابی ہند، ابوالحباب سعید بن یسار، سلیمان بن یسار، ابوزمیل سماک بن ولید، سنان بن سلمہ، صہیب ،طلحہ بن عبداللہ بن عوف، عامر الشعبی ،عبداللہ بن ابی ملیکہ، عبداللہ بن کعب بن مالک، عبداللہ بن عبید، عبید بن حنین، عبدالرحمن بن مطعم، عبدالرحمن بن وعلہ، عبدالعزیز بن رفیع، عبدالرحمن بن عاص نخعی، عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور، عبیداللہ بن یزید الملکی، علی بن ابو طلحہ، عمرو بن مرہ، عمرو بن میمون،عمران بن حطان ،عماربن ابی عمار، محمد بن عبادبن جعفر، مسلم بن صبیح، سلم القریر، موسیٰ بن سلمہ، میمون بن مہران جزری، نافع بن جبیر بن مطعم، ناعم،نضر بن انس، یحییٰ بن یعمر، ابوالبختری الطائی، ابوالحسن الاعرج،یزید بن ہرمز، ابوحمزہ قصاب، ابوالزبیرمکی، ابوعمر البہرانی، ابو المتوکل الناجی،ابولنضرہ العبدی، فاطمہ بنت حسین، محمد بن سیرین وغیرہم۔<ref>(تہذیب التہذیب)</ref>
== فقہ وفرائض ==
حضرت ابن عباس ؓ کے فتاویٰ فقہ کی سنگ بنیاد ہیں، اس کی تشریح کے لیے ایک دفتر چاہئے،اس لیے ہم ان کو قلم انداز کرتے ہیں، تاہم ان کی فقہ دانی کا سرسری اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ابوبکر محمد بن موسیٰ خلیفہ مامون الرشید کے پر پوتے نے جو اپنے زمانہ کے امام تھے،ان کے فتاویٰ ۲۰ جلدوں میں جمع کیے تھے۔
<ref>(اعلام الموقعین:۱/ ۱۳)</ref>
مکہ میں فقہ کی بنیادان ہی نے رکھی،وہ تمام فقہاء جن کا سلسلہ مکہ کے شیوخ تک پہنچتا ہے،وہ سب بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کے خوشہ چین تھے، ایک فقیہ ومجتہد کے لیے قیاس ناگزیر ہے،کیونکہ وقتاً فوقتاً بہت سے ایسے نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں جو حضرت حامل شریعت علیہ السلام کے عہد میں نہ تھے اوران کے متعلق کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، ایسے وقت میں مجتہد کا یہ فرض ہے کہ وہ منصوصہ احکام اوران میں علت مشترک نکال کر ان پر قیاس کرکے حکم صادر کرے، ورنہ فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، حضرت ابن عباس ؓ کے سامنے جب کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے، اگر اس سے جواب مل جاتا تو فبہا، ورنہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرتے، اگر اس سے بھی مقصد برآری نہ ہوتی،توحضرت ابوبکر ؓ وعمرؓ کا فیصلہ دیکھتے، اگر اس سے بھی عقدہ حل نہ ہوتا تو،پھر اجتہاد کرتے،<ref>(اعلام الموقعین:۱/۱۳)</ref> مگر اسی کے ساتھ قیاس بالرائے کو برا سمجھتے تھے،چنانچہ وہ اس کی مذمت میں کہتے ہیں کہ جو شخص کسی مسئلہ میں ایسی رائے دیتا ہے جو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ میں نہیں ہے، تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ خدا سے ملے گا تو اس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا۔
<ref>(اعلام الموقعین:۱/۳)</ref>
حضرت علی ؓ کے عہدِ خلافت میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے، حضرت علی ؓ نے ان کو زندہ جلادیا، ابن عباس ؓ کو معلوم ہواتو کہا اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو جلانے کی بجائے قتل کی سزا دیتا؛کیونکہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہےکہ جو شخص مذہب تبدیل کرے اس کو قتل کردو، پھر فرمایا کہ :جو عذاب خدا کا مخصوص ہے اس کو تم لوگ نہ دو، یعنی آگ میں کسی کو نہ جلاؤ،حضرت علی ؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا ابن عباس ؓ پر افسوس ہے۔
<ref>(مستدرک حاکم:۳ /۵۳۹)</ref>
فقہ کے ساتھ ساتھ فرائض میں بھی درک تھا، اگرچہ وہ اس فن میں حضرت معاذ بن جبل ؓ ،زید بن ثابت ؓ اورعبداللہ بن مسعود ؓ کے برابر نہ تھے، تاہم عام صحابہ ؓ میں حضرت ابن عباس ؓ بھی اس فن میں ممتاز درجہ رکھتے تھے، عبید اللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ حساب اورفرائض میں ابن عباس ؓ ممتاز درجہ رکھتے تھے۔
<ref>(اسد الغابہ:۲/۱۹۳)</ref>