"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 272:
حضرت ابن عباس ؓ کو ذات نبوی ﷺ کے ساتھ غیر معمولی شیفتگی اورگرویدگی تھی،آپ کی وفات کے موقع کے ایک واقعہ کویاد کرتے تو روتے روتے بیقرار ہوجاتے ہیں، سعید بن جبیر تابعی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا،پنجشنبہ کا دن کون پنجشنبہ اتنا کہنے پائے تھے ،ابھی مبتدا کی خبر نہ نکلی تھی کہ زار وقطار رونے لگے اور اس قدر روئے کہ سامنے پڑے ہوئے سنگ ریزے ان کے آنسوؤں سے تر ہوگئے، ہم لوگوں نے کہا ابوالعباس ؓ پنجشنبہ کے دن میں کیاخاص بات تھی،بولے اس دن آنحضرت ﷺ کی بیماری نے شدت پکڑی تھی،آپ نے فرمایا،لاؤ میں تم لوگوں کو ایک پرچہ پر لکھ دوں کہ گمراہی سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاؤ،اس پر لوگ جھگڑنے لگے،حالانکہ نبی ﷺ کے پاس جھگڑا مناسب نہیں ہے اور کہنے لگے کہ (بیماری کی تکلیف سے) ہذیان ہوگیا ہے اور آپ سے بار بار پوچھتے تھے کہ یہ حکم آپ حواس کی حالت میں دے رہے ہیں ،یا ہذیان ہے، آپ نے فرمایا میرے پاس سے ہٹ جاؤ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف مجھے لے جانا چاہتے ہو۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۱/۳۳۰)</ref>
 
== رسول کی خدمت ==
ام المومنین حضرت میمونہ ؓ ان کی خالہ تھیں، یہ ان کے پاس بہت رہا کرتے تھےٍ،اکثر راتوں کو بھی رہ جاتے تھے، اس لیے آنحضرت ﷺ کی خدمت گذاری کا بھی انہیں موقع ملتا رہتا تھا، ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے،ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھا،حضرت میمونہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھا ہے،آپ نے دعادی خدایاان کو دین میں سمجھ اورقرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جائے ضرور ت سے فارغ ہوکر تشریف لائے،تو ایک طشت پانی ڈھکا ہوارکھا دیکھا پوچھا کس نے رکھا ہے،ابن عباس ؓ نے عرض کیا میں نے، فرمایا: خدایا ان کو قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما،<ref>(مستدرک حاکم :۳/۵۳۴،۵۳۵)</ref> کبھی کبھی آپ ﷺ خود بھی ان سے کام لیا کرتے تھے،ایک دفعہ یہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، سمجھ گئے کہ میرے پاس آرہے ہیں، بچپن کا زمانہ تھا بھاگ کے ایک مکان کے دروازے کی آڑ میں چھپ رہے، آنحضرت ﷺ نے پشت سے آکر پکڑلیا اورفرمایا جاؤ معاویہ ؓ کو بلالاؤ، معاویہ ؓ اس وقت آپ کے کاتب تھے ابن عباس ؓ نے جاکر کہا کہ نبی ﷺ کو تمہاری ضرورت ہے،فوراً چلو۔
<ref>(مستدرک حاکم:۳/۵۳۴،۵۳۷بشرط شیخین)</ref>
 
== رسول کا احترام ==
آنحضرت ﷺ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ نماز میں بھی آپ کے برابر گھڑا ہونا گستاخی سمجھتے تھے، ایک مرتبہ آخر شب میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے،ابن عباس ؓ آکر پیچھے کھڑے ہوگئے، آنحضرت ﷺ نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے برابر کرلیا ،اس وقت تو یہ ساتھ کھڑے ہوگئے،مگر جیسے ہی آپ نے نماز شروع کی ابن عباس ؓ ہٹ کر اپنی جگہ پر آگئے، نمازختم کرنے کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا کہ میں نے تم کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا تم پیچھے کیوں ہٹ گئے، عرض کیا کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر نماز پڑھے ،آنحضرت ﷺ اس معقول عذر پر خوش ہوئے اوران کے لیے فہم و فراست کی دعا فرمائی۔
<ref>(ایضاً)</ref>
 
== اولاد ==