"عبد اللہ بن عباس" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 172:
علومِ قرآنی میں علم النسخ کی اہمیت بالکل عیاں ہے، حضرت ابن عباس ؓ اس بحرزخار کے بھی شناور تھے، اورتمام ناسخ اورمنسوخ احکام ان کے ذہن میں مستحضر تھے، یہ اس علم کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بغیر اس پر حاوی ہوئے وعظ کی لب کشائی کی اجازت نہ دیتے تھے، ایک مرتبہ کسی راستہ سے گذر رہے تھے، ایک اور واعظ وعظ کہہ رہا تھا، اس سے پوچھا ناسخ منسوخ جانتے ہو کسے کہتے ہیں، اس نے کہا نہیں ،فرمایا: تو تم خود بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔
<ref>(کتاب النساسخ والمنسوخ ابو جعفر نحاس)</ref>
گو حضرت ابن عباس ؓ قرآن کی تعلیم میں بخل نہ کرتے تھے، اوران کا دروازہ ہر طالب قرآن کے لیے کھلا ہوا تھا، تاہم وہ اس نکتہ سے بھی بے خبر نہ تھے کہ جب کثرت سے قرآن کی اشاعت ہوگی اورہر کس وناکس فہم قرآن کا مدعی ہوجائے گا توامت میں اختلاف کا دروازہ کھل جائے گا، ان کی اس نکتہ رسی کا اعتراف حضرت عمرؓ کو بھی کرنا پڑا،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں سارے ممالک محروسہ میں حافظِ قرآن مقرر کر دیے تھے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم دیں، ایک دن ابن عباس ؓ انؓان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، حاکم کوفہ کا خط آیا کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا، حضرت عمرؓ نے یہ مژدہ سنکر تکبیر کا نعرہ لگایا،لیکن ابن عباس ؓ بولے کہ اب ان میں اختلاف کا تخم پڑ گیا، حضرت عمرؓ نے غصہ سے پوچھا تم کو کیسے معلوم ہوا، اس واقعہ کے بعد یہ گھر چلے آئے،لیکن حضرت عمرؓ کے دل میں ان کا کہنا کھٹکتا رہا،چنانچہ آدمی بھیج کر ان کو بلا بھیجا، انہوں نے عذر کر دیا،دوبارہ پھر آدمی بھیجا کہ تم کو آنا ہوگا،اس تاکید پر یہ چلے آئے،حضرت عمرؓ نے پوچھا تم نے کوئی رائے ظاہر کی تھی، انہوں نے کہا پناہ بخدا اب میں کبھی دوبارہ کوئی خیال نہ ظاہر کروں گا، حضرت عمرؓ نے کہا میں طے کرچکا ہوں کہ جو تم نے کہا تھا اس کو کہلوا کر رہوں گا، اس اصرار پر انہوں نے کہا کہ آپ نے جب کہا کہ میرے پاس خط آیا ہے کہ کوفہ والوں نے اتنا اتنا قرآن یاد کر لیا، اس پر میں نے کہا کہ ان لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا، حضرت عمرؓ نے کہا یہ تم نے کیسے جانا، انہوں نے سورۂ بقرہ کی یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ، وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ، وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
<ref>(بقرہ:204تا 206)</ref>