"ابو موسیٰ اشعری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
م خودکار: درستی املا ← 2، اس ک\1، 3، 4، 5، یا، 6، پڑ گئی، 7، 8، 9، 0، عبد اللہ، جس، علاحدہ، ہو گئی، \1 رہے، دار الحکومت، ہو گیا، کر دیے، چاہیے، کی بجائے، کر دیا، سر انجام، کر دے، ہو گئے، امرا، پزیرائی، گزار، دیے، کیے، دار الخلافہ، 1، دھوکا
سطر 6:
 
== نام،نسب،خاندان ==
<big>عبداللہعبد اللہ نام،ابوموسیٰ کنیت ،والد کانام قیس اوروالدہ کانام طیبہ تھا،سلسلہ نسب یہ ہے:
عبداللہعبد اللہ بن قیس بن سلیم بن حضار بن حرب بن عامر بن عنزبن بکربن عامر بن عذربن وائل بن ناجیہ بن الجماہر بن لاشعر بن اددبن زید بن یشجب۔</big>
<big>حضرت ابوموسیٰ ؓ یمن کے رہنے والے تھے، ان کاخاندان قبیلہ اشعر سے تعلق رکھتا تھا،اسی کے انتساب سے وہ اشعری مشہور ہوئے اور ان کی والدہ طیبہ بنت وہب قبیلہ عک سے تعلق رکھتی تھیں، وہ اپنے صاحبزادہ کی ہدایت سے ایمان لائیں اورمدینہ پہنچ کر وفات پائی۔
<ref>(اسد الغابہ:۲2/۲۴۵245)</ref></big>
 
== اسلام ==
<big>ساقیِ توحید کے صلائے عام پر نزدیک والوں نے اپنے کان بند کرلیے تھے، لیکن حق کے متلاشی دور دراز ممالک سے دشوار گذارگزار منزلیں طے کرکے آتے تھے اوراپنی پیاس بجھاتے تھے،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ یمن سے چل کر مکہ آئے اور بادۂ اسلام کے ایک ہی جام میں سرشار ہوگئےہو گئے ،وہ مکہ میں قبیلہ عبد شمس سے حلیفانہ تعلق پیدا کرکے پھر اپنے وطن آئے<ref>(ایضاً)</ref> کہ اپنے اعزہ اوراحباب کو بھی یہ خوشخبری سنائیں۔</big>
 
== ہجرت ==
<big>حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ خاندان کے ایک ذی اثر رئیس تھے، اس لیے ان کی دعوتِ حق نے بہت جلد قبولیت عام حاصل کرلی اوروہ تقریبا ًبچاس حلقہ بگوشان اسلام کی ایک جماعت لے کر بحری راستہ سے بارگاہِ نبوت ﷺ کی طرف چل کھڑے، لیکن طوفان وبادِ مخالف نے اس کشتی کو حجاز کےکی بجائے حبش پہنچادیا، حضرت جعفر ؓ اوردوسرے ستم زدگانِ اسلام جو یہاں ہجرت کرکے آئے تھے اوراب تک موجود تھے،مدینہ منورہ کے قصد سے روانہ ہوئے تو حضرت ابوموسیٰ ؓ بھی اس قافلہ میں شریک ہوگئےہو گئے اور عین اس وقت مدینہ پہنچے جب کہ مجاہدین اسلام خیبر فتح کرکے واپس آرہےآ رہے تھے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ اوران کی تمام جماعت کو بھی خیبر کے مالِ غنیمت میں حصہ مرحمت فرمایا۔
<ref>(بخاری:۲2/۶۰۸608)</ref></big>
 
== غزوات ==
<big>حضرت ابوموسی ؓ فتح مکہ اورغزوۂ حنین میں شریک تھے، بنو ہوازن رزمگاہ حنین سے بھاگ کر وادیِ اوطاس میں پھر مجتمع ہونے لگے تو آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو عامرؓ کو ایک جمعیت کے ساتھ ان کے استیصالِ کامل پر مامور فرمایا، انہوں نے اوطاس پہنچ کر بنو ہوازن کے سردار ورید بن الصمہ کو قتل کیا اورخدانے اس کے ساتھیوں کو شکست فاش دی،لیکن اتفاقاً حشمی نام ایک مشرک کے تیرنے ان کو بھی زخمی کردیا،کر دیا، حضرت ابوموسیٰ ؓ اس مہم میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے بڑھ کر اُن سے پوچھا،یا عم! کس نے آپ کو زخمی کیا؟ انہوں نے اشارہ سے بتایا تو میں اس پرجھپٹ پڑا،وہ مجھ کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا؛ لیکن میں تعاقب کرتا جاتا تھا اورکہتا جاتا تھا کیا تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تو ثابت قدم نہ رہے گا؟ غرض وہ ان غیرت انگیز جملوں سے جوش میں آکر پلٹ پڑا اورتلوار کے دو دوہاتھ چلنے لگے،یہاں تک کہ میں نے اس کو قتل کیا اورابو عامر کو آکر بشارت دی کہ خدانے آپ کے دشمن کو مارڈالا۔</big>
 
<big>حضرت ابوعامرؓ کازخم نہایت مہلک تھا، انہوں نے حالتِ نزع میں حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنا جانشین بنایا اورکہا،جانِ برادر! رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرنا اورکہنا کہ میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں، اس وصیت کے تھوڑی دیر بعد روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی،حضرت ابوموسیٰ اشعر ؓ نے ان کو سپرد خاک کرکے فوج کو مراجعت کاحکم دیا اوربارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکر میدانِ جنگ کی کیفیت اورحضرت ابوعامر ؓ کی وصیت بیان کی،سرورِکائنات ﷺ نے اسی وقت پانی مانگ کر وضو فرمایا، پھر دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا کی اے خدا! ابوعامرؓ کو بخش دے،اے خدا تو اس کو قیامت کے روز اپنی بہت سی مخلوق پر تفوق عطا فرما، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے لیے بھی، فرمایا خدایا عبداللہعبد اللہ ابن قیس کی خطائیں بخش دے اورقیامت کے دن اس کا باعزت داخلہ فرما۔
<ref>(بخاری :۲2/۶۹۹699)</ref></big>
 
<big>۹ھ میں غزوۂ تبوک کا اہتمام شروع ہوا تو حضرت ابوموسیٰ ؓ کو ان کے ساتھیوں نے بھیجا کہ دربارِ نبوت ﷺ سے ان کے لیے سواریوں کا انتظام کریں،اتفاق سے آنحضرت ﷺ اس وقت حالتِ غیظ میں تھے،لیکن حضرت ابوموسیٰ ؓ اس کا اندازہ نہ کرسکے اورعرض کیا یارسول اللہ میرے ساتھیوں نے مجھ کو بھیجا ہے کہ حضور ان کو سواریاں مرحمت فرمائیں ،آنحضرت ﷺ غصہ میں بیٹھے ہی تھے برہم ہوکر فرمایا واللہ ! تمہیں کوئی سواری نہ دوں گا، حضرت ابوموسیٰ ؓ کچھ اپنی محرومی اورکچھ اس خوف سے کہ شاید رسول خدا ﷺ ان سے ناراض ہیں نہایت غمزدہ واپس آکر اپنے ساتھیوں کو اس کی اطلاع دی،لیکن وہ ابھی اچھی طرح کھڑے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حضرت بلال ؓ پکارتے ہوئے آئے،عبداللہآئے،عبد اللہ بن قیس کہاں ہو؟چلو رسولِ خدا ﷺ یاد فرماتے ہیں وہ ان کے ساتھ پھر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دوساتھ بندے ہوئے اونٹوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان کو اپنے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ان کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئے اور کہا کہ رسول خدا ﷺ نے یہ دواونٹ تمہاری سواری کے لیے مرحمت فرمائے ہیں،لیکن خدا کی قسم چند آدمیوں کو میرے ساتھ کسی ایسے شخص کے پاس چلنا ہوگا جس نے رسول اللہ ﷺ کی گفتگو سنی تھی، تاکہ یہ نہ خیال کرو کہ میں نے پہلے جو کچھ کہا تھا وہ دل سے گھڑ کرکہا تھا، لوگوں نے کہا خدا کی قسم ہم آپ کو سچا سمجھتے ہیں،آیندہ جو آپ کی خوشی ہو، غرض انہوں نے چند آدمیوں کو ساتھ لے جاکر لوگوں سے تمام واقعہ کی تصدیق کرادی۔
<ref>(بخاری :۲2/۶۳۳633)</ref></big>
 
== ولایت یمن ==
<big>تبوک سے واپس آنے کے بعد ایک روز دواشعری بزرگ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنے ساتھ لے کر دربارِ نبوت ﷺ میں حاضر ہوئے اورآنحضرت ﷺ سے کسی عہدہ کی خواہش کی، آپﷺ مسواک فرمارہےفرما رہے تھے، اس سوال پر دفعۃ مسواک رک گئی اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا، ابوموسیٰ !ابوموسیٰ ؓ ! انہوں نے عرض کیا،کیا یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ میں ان کے دل کے حال سے آگاہ نہ تھا اورنہ یہ جانتا تھا کہ وہ کس عہدہ کی خواہش کریں گے،ارشاد ہوا کہ جو کوئی خود سے کسی عہدہ کی خواہش کرے گا اس کو ہرگز اس پر مامور نہ کروں گا، لیکن ابو موسیٰ تم یمن جاؤ میں نے تم کو وہاں کا عامل مقرر کیا۔
یمن دوحصوں پر منقسم تھا ،ایک ا قصائے یمن جس میں جند اورعدن وغیرہ کے اضلاع شامل تھے اوردوسرا یمن ادنی یا زیریں یمن، اول الذکر پرحضرت معاذ بن جبل ؓ کا تقرر ہوا، اوردوسرے پر حضرت ابوموسیٰ اشعری مامور ہوئے ،آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو رخصت کرتے ہوئے حسب ذیل نصیحت فرمائی:
یسراولاتعسرا وابشراولاتنفرواتطاوعا
سطر 34:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارے ملک میں جو سے ایک قسم کی شراب بنائی جاتی ہے اس کو "مزر" کہتے ہیں نیز شہد سے ایک طرح کی شراب ہوتی ہے جو "تبع" کے نام سے مشہور ہے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ ‘ہر وہ چیز جو نشہ لائے حرام ہے۔
<ref>(بخاری کتاب المغازی)</ref>
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ چونکہ اپنے وطن میں گورنر ہوکر آئے تھے جہاں پہلے سے ان کا اثر موجود تھا، اس لیے قدرۃ انہوں نے اپنے خدمات نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیئے،دیے، حضرت معاذبن جبل ؓ سے دوستانہ تعلقات ومراسم کا سلسلہ بھی قائم تھا،بسااوقات یہ دونوں بزرگ سرحد پرآکر فروکش ہوتے اورباہم ملاقات کرکے تبادلۂ خیالات فرماتے تھے، ایک مرتبہ حضرت معاذبن جبل ؓحضرت ابوموسیٰ ؓ کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے پاس لوگوں کا ہجوم ہے اورایک شخص کے دونوں ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے ہیں، انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ"عبداللہعبد اللہ بن قیس ! یہ کون ہے؟ بولے"یہ مرتد ہوگیاہو گیا ہے" انہوں نے اس کے قتل کا مشورہ دیا، حضرت ابو موسیٰ نے کہا کہ "یہ گرفتار ہوکر آیا ہے،آپ گھوڑے سے اتر آئیے بولے جب تک وہ قتل نہ ہوگا میں نہ اتروں گا" حضرت ابوموسیٰ ؓ نے اسکےاس کے قتل کا حکم دیا تو وہ اتر کر اندر آئے اور دیر تک دوستانہ صحبت قائم رہی، حضرت معاذ ؓ نے پوچھا کہ آپ قرآن کس طرح پڑھتے ہیں ،بولے کہ رات دن میں جب موقع مل جاتا ہے تھوڑا تھوڑا کرکے پڑھ لیتا ہوں، پھر پوچھا کہ آپ کس طرح تلاوت کرتے ہیں؟ بولے کہ میں رات کو ایک نیند سوکر اُٹھ بیٹھتا ہوں اوراس وقت خدا کو جس قدر منظور ہوتا ہے پڑھ لیتا ہوں۔
<ref>(بخاری باب بعث ابی موسیٰ ومعاذ الی الیمن)</ref></big>
 
== حجۃ الوداع میں شرکت ==
<big>۱۰ھ10ھ میں آنحضرت ﷺ نے آخری حج فرمایا، حضرت ابوموسی ؓ یمن سے شرکت کے لیے آئے،آنحضرت ﷺ نے پوچھا،عبداللہپوچھا،عبد اللہ بن قیس !کیا تم حج کے ارادے سے آئے ہو؟ عرض کیا ہاں !یا رسول اللہ، فرمایانیت کیاتھی؟ بولے میں نے کہا تھا کہ جو رسول اللہ کی نیت ہے وہی میری نیت ہے، ارشاد ہوا کہ قربانی اپنے ساتھ لائے ہو؟ عرض کیا ،نہیں ،حکم ہوا کہ تم طواف اورسعی کرکے احرام کھول دو ،یہ اس وجہ سے کہ حج قران کی صورت میں قربانی لانا ضروری تھا۔
<ref>(بخاری:۲2/۶۲۴624)</ref></big>
 
== یمن میں فتنہ وفساد ==
<big>حضرت ابوموسیٰ ؓ حج سے فارغ ہوکر پھر یمن واپس آئے،لیکن یہاں اسود عنسی کے ادعائے نبوت نے بہت جلد تمام ملک میں شورش وبغاوت پھیلادی،یہاں تک کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ حضر ابوموسیٰ اشعری ؓ کے مرکز حکومت"مارب" چلے آنے پر مجبور ہوئے،لیکن یہ بھی زیادہ دنوں تک محفوظ نہ رہ سکا اوربلآخر ان دونوں کو حضرموت میں پناہ لینی پڑی۔
<ref>(تاریخ طبری :۱۸۵۴1854)</ref>
گوابن مکتوح مرادی کی تلوار نے بہت جلد اسود عنسی کا قصہ تمام کردیا،کر دیا، تاہم آنحضرت ﷺ کی وفات سے دفعۃ پھر ارتدادوسرکشی کی آگ بھڑک اٹھی، لیکن خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک زبردست مہم بھیج کر از سرنو تسلط قائم کردیاکر دیا اور اس طرح یمن کے امراءامرا اورحکام پھر اپنے اپنے عہدوں پر واپس آگئے،حضرت ابوموسیٰ ؓ بھی حضرت موت سے اپنے دارلحکومتدار الحکومت "مارب" واپس آئے اورخلیفہ دوم کی ابتدائے خلافت تک نہایت تدبروجانفشانی کے ساتھ گورنری کے فرائض انجام دیتے رہے۔
</big>
 
== فتح نصیبین ==
<big>حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں جب بیرونی فتوحات کا زیادہ وسیع پیمانہ پر انتظام کیا گیا اورحضرت سعد وقاص ؓ کی زیر قیادت رزمگاہِ عراق کی طرف ایک بہت بڑی مہم روانہ ہوئی توحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی شوقِ جہاد میں عہدہ امارت سے مستعفی ہوکر اس فوج کشی میں شریک ہوئے۔
عراق کا اکثر حصہ فتح کرلینے کے بعد حضرت سعد وقاص ؓ نے ؁ 17ھ میں دریائے دجلہ اورفرات کے درمیانی علاقہ یعنی الجزیرہ پر ایک عام فوج کشی کا اہتمام کیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ کو نصیبین کی فتح پر مامور کیا، انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ یہ مہم سرانجامسر انجام دی۔
<ref>(طبری :۲۵۰۶2506)</ref></big>
 
== ولایتِ بصرہ ==
سطر 58:
 
== فتح خوزستان ==
<big>بصرہ کی سرحد خوزستان سے ملی ہوئی تھی اور وہ اب تک ایرانیوں کے قبضہ میں تھا،۱۶ھتھا،16ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے اس کو فتح کرنے کے خیال سے اہواز پر فوج کشی کی تو یہاں کے رئیس نے ایک قلیل سی رقم دے کر صلح کرلی اورحضرت مغیرہ ؓ وہیں رک گئے، ۱۷ھ17ھ میں ان کی جگہ پر حضرت ابوموسیٰ ؓ آئے، اس انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کردی اور علانیہ بغاوت کا اظہار کیا،مجبورا ًانہوں نے لشکر کشی کی اور ہواز کو فتح کرکے مناذر کا رخ کیا، یہ ایک نہایت مستحکم مقام تھا،حضرت مہاجربن زیاد ؓ جو ایک معزز افسر تھے،یہاں ایک معرکہ میں شہید ہوئے اورقلعہ والوں نے ان کا سرکاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکادیا۔
حضرت ابوموسیٰ حضرت مہاجر ؓ کے بھائی ربیع کو اس کے محاصرہ پر چھوڑ کر سوس کی طرف بڑھے، ربیع نے مناذر کو سرکرلیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ نے سوس کا محاصرہ کرکے ہر طرف سے رسد بند کردی، قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہوچکا تھا، مجبوراً رئیس شہر نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی چھوڑدیئے جائیں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے منظور کیا،رئیس نے ایک ایک کرکے سو آدمیوں کو پیش کیا اوروہ سب چھوڑ دیئےدیے گئے ،لیکن بد قسمتی سے اس نے شمار میں خود اپنا نام نہیں لیا، چنانچہ جب سو آدمیوں کی تعداد پوری ہوگئیہو گئی تو انہوں نے رئیس کو جوشمارے سے باہر تھا قتل کرادیا۔
سوس کے بعد رامہرمز کا محاصرہ ہوا اورآٹھ لاکھ درہم سالانہ پر صلح ہوگئیہو گئی یزدگرد نوجوان شہنشاہِ ایران اس وقت قم میں مقیم تھا، اس کو حضرت ابوموسیٰ ؓ کی فتوحات کی خبریں پہنچیں تو اس نے اپنے ماموں ہرمزان کو خوزستان کی حفاظت کے لیے بھیجا،ہرمزان نے شوستر پہنچ کر اس کو مستحکم کیا اورتمام ملک میں جوش پیدا کرکے اپنے گرد ایک بہت بڑی فوج جمع کرلی،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ان حالات سے درباِ خلافت کو مطلع کیا اورمدد کی درخواست کی وہاں سے حضرت عماربن یاسر ؓ کے نام جو کوفہ کے گورنر تھے، حکم آیا کہ نعمان بن مقرن کو ایک ہزار سپاہیوں کے ساتھ مدد کو بھیجیں، لیکن غنیم کی کثرت اورسروسامان کے مقابلہ میں یہ معیت بیکار تھی، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے دوبارہ لکھا جس کے جواب میں حضرت عمار بن یاسر ؓ کوفہ سے ایک بڑی فوج لے کر آئے اوردوسری طرف جریز بجلی ایک جرار لے کر جلولاء پر حملہ آور ہوئے، غرض حضرت ابوموسیٰ ؓ نے اس سروسامان سے شوسترکا رخ کیا اورشہر کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے،ہرمزان نے خود قلعہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا اورشکست کھا کر پھر قلعہ بند ہوگیا۔ہو گیا۔</big>
 
<big>شوسترنہایت مستحکم مقام تھا، اس کی تسخیر کے متعلق حضرت ابوموسیٰ ؓ کی تمام کوششیں بے نتیجہ رہیں، لیکن خدانے غیب سے سامان پیدا کردیا،کر دیا، ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ان کے پاس آیا اورکہا کہ اگر میری جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہر پر قبضہ کرادوں، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے منظور کیا،اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا،ساتھ لیا،اورنہروجیل سے گذر کر ایک تہ خانہ کی راہ لی خاص شہر میں داخل ہوا، اشرس کے منہ پر چادر ڈال دی اورکہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے چلے آؤ؛ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گذرتا ہوا خاص ہرمزان کے محل میں آیا، شہری نے ان کو تمام عمارات کی سیر کرائی اورموقع کے نشیب وفراز دیکھا کر،حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا،ا شرس نے تفصیل کے ساتھ تمام کیفیت بیان کی اورکہا کہ دوسوجانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہوجائے ،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے فوج کی طرف دیکھا دوسو بہادروں نے بڑھ کر کہا خدا کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے،اشرس ان کو لے کر اسی تہ خانہ کی راہ شہر میں داخل ہوئے اورپہرہ والوں کو تہ تیغ کرکے اندر کی طرف سے دروازے کھول دیئےدیے ادھر حضرت ابوموسیٰ اشعرؓ تمام فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے،دروازہ کھلنے کے ساتھ تمام لشکر ٹوٹ پڑا اورشہر میں ہلچل پڑگئی،پڑ گئی، ہرمزان نے بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی ،مسلمان قلعہ کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا میرے ترکش میں اب تک سو تیر ہیں اورجب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ ڈھیر ہوجائیں میں گرفتار نہیں ہوسکتا،تاہم میں اس شرط پر اترآتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو اورجو کچھ فیصلہ ہو عمرؓ کے ہاتھ سے ہو، حضرت ابوموسی ؓ نے منظور کیا اوراس کو حضرت انس ؓ کے ساتھ مدینہ بھیجدیا۔
<ref>(طبری:۲۵۵۵2555)</ref></big>
 
<big>شوستر کے بعد جندی سابورپر حملہ ہوا اس کا کئی دن تک محاصرہ رہا، ایک دن شہر والوں نے خود شہر کے دروازے کھول دیئےدیے اورنہایت اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے، مسلمانوں کو ان کے اطمینان پر تعجب ہوا،سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امن دے چکے اب کیا جھگڑا رہا، سب کو حیرت ہوئی کہ امن کس نے دیا؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے فرمایا کہ ایک غلام کی خودرائی حجت نہیں ہوسکتی، شہروالے کہتے تھے کہ ہم آزاد اورغلام نہیں جانتے،بالآخر دربارخلافت سے استصواب کیا گیا تو حکم ہوا کہ مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے چکے،<ref>(طبری: ۲۵۶۸2568)</ref> اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھادیا اوراس طرح نہ صرف فتوحات کی فہرست میں ایک نئے ملک کا اضافہ ہوا، بلکہ بصرہ جہاں حضرت ابوموسیٰ ؓ عہدہِ امارت پر سرفراز ہوئے تھے، دشمنوں سے بالکل محفوظ ہوگیا۔ہو گیا۔</big>
 
== معرکہ ٔنہاوند ==
<big>خوزستان کی شکست سے متاثر ہوکر۲۱ھہوکر21ھ میں ایرانیوں نے نہاوند میں ایک آخری اورفیصلہ کن جنگ کی تیاریاں کیں، حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرن کو ایک بڑی جمعیت کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا اورحضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو لکھاکہ بصرہ سے ان کو مدد پہنچائیں ،چنانچہ وہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ خود کمک لے کر گئے اورنہاوند فتح کرکے واپس آئے۔
<ref>(طبری:۲۶۰۱2601)</ref></big>
 
== تبادلہ ==
<big>بصرہ کی کثرتِ آبادی کے لحاظ سے اس صوبہ کا رقبہ نہایت مختصر تھا،اس بنا پر اہلِ بصرہ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کی وساطت سے دربارِ خلافت میں یہ درخواست پیش کی کہ خوزستان کے مفتوحہ علاقہ میں سے رامہرمز،ابذح اورماہ یا ماسپند ان کے اضلاع بصرہ سے ملحق کردیئےکر دیے جائیں؛ لیکن اہل کوفہ اس علاوقہ کی فتح میں برابر کے شریک تھے،انہوں نے اس پرصدائے احتجاج بلند کی اورحضرت عمار بن یاسر ؓ والی کوفہ سے درخواست کی کہ وہ اس علاقہ کو کوفہ میں شامل کرنے کی کوشش کریں،لیکن حضرت عمارؓ نے اس معاملہ میں بالکل غیر جانب داری اختیار کرلی اورفرمایا کہ مجھے ان جھگڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
غرض حضرت ابوموسیٰ ؓ کی تحریک پر یہ اضلاع بصرہ سے ملحق کردیئےکر دیے گئے اوراہل کوفہ نے حضرت عمار بن یاسر ؓ سے ناخوش ہوکر مسلسل شکایتوں کے بعد ان کو معزول کرادیا، حضرت عمرؓ نے کوفہ والوں سے پوچھا کہ تم کس کو اپنا والی بنانا چاہتے ہو؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ بصرہ والوں کی حمایت کی تھی ،اس کے لحاظ سے انہوں نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کا نام لیا، چنانچہ وہ ان کی درخواست پر ۲۲ھ22ھ میں بصرہ سے کوفہ تبدیل کردیئےکر دیے گئے،لیکن ایک ہی سال کے بعد یعنی ۲۳ھ23ھ میں پھر بصرہ منتقل کئےکیے گئے۔
<ref>(تاریخ طبری:۲۶۷۸2678)</ref></big>
 
== الزام ==
<big>اسی سال ضبہ نامی ایک شخص نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کے خلاف دربارِ خلافت میں حسب ذیل شکایتیں پیش کیں۔
(۱1)ابوموسیٰ ؓ نے اسیرانِ جنگ میں سے ساٹھ رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لیے رکھے ہیں۔
(۲2)انہوں نے عنانِ حکومت زیاد بن سمیہ کو سپرد کردی ہے اوروہی سیاہ سپید کا مالک ہے۔
(۳3)انہوں نے حطیہ شاعر کو ایک ہزار انعام دیا ہے۔
(۴4)عقیلہ نامی ان کی ایک لونڈی ہے جس کو دونوں وقت نہایت عمدہ غذائیں بہم پہنچائی جاتی ہیں ،حالانکہ اس قسم کی غذا عام مسلمانوں کو میسر نہیں۔
حضرت عمرؓ نے ان شکایتوں کو اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ کو دارالخلافہدار الخلافہ طلب کرکے باضابطہ تحقیقات کی،چنانچہ پہلاالزام غلط ثابت ہوا،دوسرے الزام کا انہوں نے یہ جواب دیا کہ زیاد صاحبِ تدبیر وسیاست ہے، اس لیے میں نے اس کو اپنا مشیر کار بنایا ہے،حضرت عمرؓ نے زیاد کو بلاکر کے امتحان لیا تو حقیقت میں قابل آدمی تھا،اس لیے انہوں نے خود حکام بصرہ کو ہدایت کی کہ زیاد کو مشیر کاربنائیں، تیسرے الزام کے جواب میں حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہاکہ حطیہ کو میں نے اپنے جیب خاص سے انعام دیا ہے کہ وہ ہجو نہ کہے،لیکن چوتھے الزام کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے، حضرت عمرؓ نے معمولی فہمائش کے بعد ان کو رخصت کردیا۔کر دیا۔
<ref>(تاریخ طبری:۲۷۱۱2711)</ref></big>
 
== فتح اصفہان ==
<big>حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے اسی سال یعنی ۲۳ھ23ھ میں اصفہان پر فوج کشی کی اوراس کو فتح کرکے اسلامی ممالک محروسہ میں داخل کردیا۔کر دیا۔
<ref>(تاریخ طبری:۲۷۱۳2713)</ref>
اصفہان فتح کرکے واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے ان کو اسی سال بصرہ سے کوفہ کی گورنری پر منتقل کردیا،کر دیا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی وہ پھر بصرہ تبدیل ہوکر آگئے۔</big>
 
== تعمیر نہر ابی موسیٰ ==
<big>بصرہ میں لوگوں کو پانی کی سخت تکلیف تھی،دربارخلافت میں اس کی شکایت پہنچی تو حکم آیا کہ دریائے دجلہ سے نہر کاٹ کر لائی جائے ،وہ شہر سے تقریباً دس میل دور تھا، لیکن اس کی ایک شاخ صرف چھ میل پر واقع تھی،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے خود مستعد ہوکر اس شاخ سے شہر بصرہ تک ایک نہر بنوائی جو اب تک "نہر ابی موسیٰ" کے نام شے مشہور ہے۔
اخیرذمی الحجہ۲۳ھالحجہ23ھ میں خلیفہ دوم نے شہادت پائی اورحضرت عثمان ذوالنورین ؓ نے مسند خلافت پر قدم رکھا، اس انقلاب میں عہدِ فاروقی ؓ کے اکثر عمال وحکام ایک ہی سال کے بعد سبکدوش ہوگئے،لیکنہو گئے،لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ۲۹ھ29ھ تک بصرہ میں عہدہ امارت کے فرائض انجام دیتے رہے بیان کیا جاتا ہے کہ خود حضرت عمرر ضی اللہ عنہ نے ان کو چارسال تک برقرار رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔
<ref>(تہذیب التہذیب :۵5/۳۶۳363)</ref></big>
 
== معزولی ==
<big>۲۹ھ29ھ میں کردوں نے بغاوت کردی، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے مسجد میں ان کے خلاف جہاد کا وعظ کہا اورراہِ خدا میں پیادہ پا چلنے کے فضائل بیان کئےکیے اس کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے مجاہدین جن کے پاس گھوڑے موجود تھے،وہ بھی پیادہ پا چلنے پر تیار ہوگئے،ہو گئے، لیکن حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے چند مخالفین نے کہا کہ ہم کو جلدی نہ کرنا چاہئےچاہیے ،دیکھیں ہمارا والی کس شان سے چلتا ہے،غرض صبح کے وقت دارالامارت کے قریب مجاہدین کا مجمع ہوا،حضرت ابوموسیٰ ؓ گھوڑے پر سوار ہوکر برآمد ہوئے ،لوگوں نے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑلی اوراس پر اعتراض کیا۔
ظاہر ہے کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کا مقصد یہ نہ تھا کہ جن کے پاس گھوڑے موجود ہوں وہ راہ خدا میں ان سے کام نہ لیں، لیکن درحقیقت خلیفہ سوم ؓ کے عہدِ خلافت کا نصف اخیر فتنہ اورسازش کا دور تھا ،مفسدہ پردازوں نے اسی وقت دارالخلافہدار الخلافہ کی راہ لی اوردربارِ خلافت سے ان کی معزولی کا مطالبہ کیا،چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے ان کو معزول کرکے ایک کمسن نوجوان عبداللہعبد اللہ بن عامر کو اس منصب پر مامور فرمایا۔
<ref>(تاریخ طبری:۲۸۲۸2828)</ref></big>
 
== امارت کوفہ ==
<big>۳۴ھ34ھ میں اہل کوفہ کی درخواست پر حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ پھر سعید بن العاص ؓ کی جگہ کوفہ کے والی مقررکیے گئے، لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام دنیائے اسلام پر آشوب تھی اور ملک میں ہر طرف سازش وفتنہ پردازی کا بازار گرم تھا،چونکہ حضرت ابو موسیٰ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی یاد تھی،اس لیے ان کو یقین تھا کہ عنقریب ہولناک خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوگا، وہ عموماً اپنے وعظ میں اہل کوفہ کو رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی سناتے اوراس آنے والے دورِ فتنہ سے کنارہ کش رہنے کی ہدایت فرماتے تھے،چنانچہ۳۵ھتھے،چنانچہ35ھ میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مسند نشین کے بعد وہ خطرہ بالکل سرپر آگیا۔
</big>
 
== خانہ جنگی سے اجتناب ==
<big>حضرت عائشہ ؓ، حضرت طلحہ ؓ اورحضرت زبیر ؓ نے خلیفہ ثالث ؓ کے قصاص اورمطالبۂ اصلاح کا علم بلند کرکے بصرہ کا رخ کیا،حضرت علی ؓ ان کے مقابلہ کے لیے مدینہ سے چل کر مقام ذی قار میں آئے اورحضرت امام حسن ؓ کو حضرت عمار بن یاسر ؓ کے ساتھ کوفہ بھیجا کہ وہاں لوگوں کو خلافت کی اعانت پر آمادہ کریں،حضرت امام حسن ؓ کوفہ پہنچے تو اس وقت حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ مسجد میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کررہےکر رہے تھے کہ سرورکائنات ﷺ نے جس فتنہ کا خوف دلایا تھا وہ اب سرپر ہے اس لیے اسلحہ بیکارکردو اورعزلت نشین ہوکر بیٹھ جاؤ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنہ وفساد کے زمانہ میں سونے والا بیٹھنے والے سے اوربیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہے۔<ref>(بخاری کتاب الفتن)</ref> اسی اثناء میں حضرت امام حسن ؓ داخلِ مسجد ہوئے اورحضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے مخاطب ہوکر کہا،آپ ابھی ہماری مسجد سے نکل جائیے وہ نہایت سکون وخاموشی کے ساتھ منبر سے اترآئے،اورملک شام کے ایک غیر معروف گاؤں میں جاکر گوشہ نشین ہوگئے۔ہو گئے۔
حضرت ابو موسی اشعری ؓ نے اہل کوفہ کو بارہا جس خطرہ سے آگا ہ کیا تھا، اس کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، جنگ جمل میں عرب کے ہزاروں گھر بے چراغ ہوگئےہو گئے اورمیدانِ صفین میں حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کی باہمی آویزش نے بیشمار مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہادیا۔</big>
 
== حکم مقرر ہونا ==
<big>معرکۂ صفین میں جب امیر معاویہ ؓ کے حامیوں نے حریف کا پلہ بھاری دیکھا،تو اپنے نیزوں پر دمشق کا مصحف اعظم بلند کرکے عجیب وغریب طریقہ پر مصالحت کی دعوت دی، گوجناب امیر ؓ اس پر راضی نہ تھے،تاہم قرآن کی دعوت کاردکرنا آسان نہ تھا،خود آپ کی فوج میں پھوٹ پڑ گئی،انجام کار تمام مابہ النزاع امور کا فیصلہ طرفین کے دوثالث پر محول ہوا، امیر معاویہ ؓ نے اپنی طرف سے حضرت عمروبن العاص ؓ کو حکم مانا اورحضرت علی ؓ کی طرف سے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کا انتخاب ہوا،دومۃ الجندل مقامِ اجلاس قرار پایااور دونوں حکم ایک مقررتاریخ پر مجمتع ہوئے،حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ ایک نہایت نکتہ رس اورمعاملہ فہم بزرگ تھے،انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ اورعمروبن العاص ؓ سے علیحدہعلاحدہ علیحدہعلاحدہ گفتگو کرکے ان کی رائے کا اندازہ کیا، تو ان کو یقین ہوگیاہو گیا کہ یہ دونوں کسی امر پر متفق نہیں ہو سکتے ؛کیونکہ اگر ایک طرف کمال غیر جانبداری وبے لوثی ہے تو دوسری طرف شدید خودغرضی وپاسداری۔
غرض دونوں حکم باہم مشورہ کے لیے گوشہ خلوت میں مجتمع ہوئے، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے محض بے لوثی کے ساتھ صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے خیال سے اس عہدہ کو قبول کیا تھا،ان کی رائے تھی کہ عنانِ خلافت کسی غیر جانبدار کے ہاتھ میں دے دی جائے تو اس خانہ جنگی کا دروازہ خود بخود بند ہوجائے گا، چنانچہ دونوں میں حسب ذیل گفتگو ہوئی:
ابو موسی ؓ :عمرو تم ایک ایسی رائے کے متعلق کیا خیال رکھتے ہو جس سے خدا کی خوشنودی اورقوم کی بہبودی دونوں میسر آئے؟
عمروبن العاص ؓ :وہ کیا ہے؟
ابوموسیٰ ؓ :عبداللہعبد اللہ بن عمر کو منصبِ خلافت پرمتمکن کرنا چاہئے،کیونکہچاہیے،کیونکہ انہوں نے ان خانہ جنگیوں میں کسی طرح حصہ نہیں لیا ہے
عمرو بن العاص ؓ :معاویہ ؓ میں کیا خرابی ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ عثمان ؓ مظلوم شہید ہوئے ،معاویہ ؓ ان کے قصاص کے دعویدار ہیں، ام المومنین ام حبیبہ ؓ ان کی بہن ہیں اور خود ان کو رسول اللہ ﷺ کی مصاحبت کا شرف حاصل ہے۔
ابوموسیٰ ؓ : معاویہ ؓ کے جن فضائل کا تم نے تذکرہ کیا، وہ استحقاقِ خلافت کے لیے کافی نہیں، اگر فضل و شرف ہی پر معیار ہو تو علی ؓ سے بڑھ کر کون ہے، رہا قصاص کا دعویٰ تو اس کے لیے معاویہ ؓ کو خلافت کے معاملہ میں مہاجرین اولین پر ترجیح نہیں دی جاسکتی،ہاں اگر تم مجھ سے اتفاق کرو،تو فاروقِ اعظم ؓ کا عہد لوٹ آئے اور فاضل و عالم عبداللہعبد اللہ اپنے باپ کی یاد پھر تازہ کردے۔کر دے۔
عمرو بن العاص ؓ : میرے لڑکے عبداللہعبد اللہ پر آپ کی نظرِ انتخاب کیوں نہیں پڑتی؟ فضل و منقبت میں تو وہ بھی کچھ کم نہیں۔
ابوموسی ؓ : بیشک وہ صاحبِِ فضل ومنقبت ہیں؛ لیکن ان خانہ جنگیوں میں شریک کرکے تم نے ان کے دامن کو بھی داغدار کردیاکر دیا ہے، برخلاف اس کے طیب بن الطیب عمرؓ کے بیٹے عبداللہعبد اللہ کا لباس تقویٰ تمام دھبوں سے محفوظ ہے۔
عمروبن العاص ؓ : ابوموسیٰ اس منصب کی صلاحیت صرف اسی میں ہوسکتی ہے جس کے دو داڑھ ہوں ،ایک سے کھائے اور دوسرے سے کھلائے۔
ابو موسیٰ ؓ : عمرو تمہارا بُرا ہو، شدید کشت وخون کے بعد مسلمانوں نے ہمارادامن پکڑا ہے،اب ہم ان کو پھر فتنہ وفساد میں مبتلا نہیں کریں گے۔
سطر 123:
ابوموسیٰ ؓ : ہمارا خیال ہے کہ علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں برطرف کیے جائیں اورمسلمانوں کی مجلسِ شوریٰ کو پھر نئے سرے سے اختیار دیا جائے کہ وہ جس کو چاہے منتخب کرے۔
عمروبن العاص ؓ : مجھے بھی اس سے اتفاق ہے۔
اس قرارداد کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے،حضرت عبداللہعبد اللہ بن عباس ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس آکر کہا"خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ عمرو ؓ نے آپ کو دھوکہدھوکا دیا ہوگا،اگر کسی رائے پر اتفاق ہوا ہو تو آپ ہر گز اعلان میں سبقت نہ کیجئے گا، کیا عجب ہے کہ وہ آپ کی مخالفت کربیٹھیں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نہایت نیک طینت بزرگ تھے،انہیں دنیا کی فریب کاریوں کی کیا خبر تھی، بولے ہم دونوں ایک ایسی رائے پر متفق ہوئے ہیں کہ اس میں اختلاف کی گنجائش ہی نہیں، غرض! دوسرے روز مسجد میں مسلمانوں کا مجمع ہوا، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے عمروبن العاص ؓ سے فرمایا کہ منبر پر چڑھ کر فیصلہ سنادو، بولے میں آپ پر سبقت نہیں کرسکتا ،آپ فضل و منقبت اورسن وسال میں مجھ سے افضل اوربڑے ہیں حضرت ابوموسیٰ ؓ پر ان کا یہ افسوں چل گیا،وہ بغیر سوچے سمجھے کھڑے ہوگئےہو گئے اورحمد وثناء کے بعد فرمایا:
"صاحبو! ہم نے علی ؓ اورمعاویہ ؓ دونوں کو معزول کیا اورپھر نئے سرے سے مجلس شوریٰ کو انتخاب کا حق دیا، وہ جس کو چاہے اپنا امیر بنائے"
ابو موسیٰ ؓ اپنا فیصلہ سنا کر اتر آئے تو عمروبن العاص ؓ نے کھڑے ہوکر کہا:
سطر 133:
 
== وفات ==
<big>حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو اپنے فریب کھاجانے پر اس قدر ندامت ہوئی کہ وہ اسی وقت مکہ معظمہ روانہ ہوگئےہو گئے اورپھر کسی چیز میں حصہ نہ لیا، وفات کے سن اورمقام میں مختلف روایتیں ہیں، بعض لوگ ان کی وفات کا مقام مکہ بتاتے ہیں اور بعض کوفہ، لیکن راجح مکہ کی روایت ہے،بہرحال باختلاف روایت ؁ ۴۲ھ42ھ ؁ ۴۴ھ44ھ ؁ ۵۲ھ52ھ میں بیمار پڑےاور بروایت صحیحہ ذالحجہ۴۴ھذالحجہ44ھ میں وفات پائی،<ref>(تذکرۃ الحفاظ:۱1/۱۲۱121)</ref> آخری وقت تک احکام نبویﷺ کا لحاظ رہا جب حالت زیادہ نازک ہوئی اورغشی طاری ہوگئی،توہو گئی،تو جس عورت کی گود میں سر تھا،اس نے گریاوزاری شروع کردی، اس وقت بولنے کی طاقت نہ تھی،ہوش آیا تو کہا جس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے برأت کی ہے، اس سے میں بھی بری ہوں، جیب وگریبان پھاڑنے والی ،نوحہ و بکا کرنے والی اور کپڑے پھاڑ نے والی عورتوں سے آپ نے برأت ظاہر کی ہے۔
<ref>(مسلم کتاب الایمان باب تحریم ضرب الخدود وشق الجیوب)</ref>
اس کے بعد کفن ودفن وغیرہ کے متعلق ضروری وصیتیں کیں کہ جنازہ تیز چال سے لے چلنا، جنازہ کے ساتھ انگیٹھی نہ لے چلنا،لحد اورمیری میت کے درمیان کوئی مٹی روکنے والی چیز نہ رکھنا، قبر پر کوئی عمارت نہ بنانا اور میں نوحہ وبین کرنے والی،جیب وگریبان چاک کرنے والی اورسرنوچنے والی عورتوں سے بری ہوں،<ref>(مسند احمد بن حنبل :۴4/۳۹۷397)</ref>وصیت سے فراغت ہوئی کہ طائرروح قفسِ عنصری سے پرواز کرکے اپنے اصلی نشیمن میں پہنچ گیا، وفات کے وقت ۶۱61 سال کی عمر تھی۔</big>
 
== حلیہ ==
سطر 141:
اولاد
وفات کے بعد متعدد نسلی یادگاریں چھوڑیں، نام یہ ہیں، ابراہیم، ابوبکر، ابوبردہ، موسیٰ۔
<ref>(تہذیب التہذیب :۵5/۳۶۲362)</ref></big>
 
== ذریعہ ٔمعاش ==
<big>ابتدا میں تنگدستی کی زندگی تھی،لیکن پھر فارغ البالی کا دورآیا، متعدد مہمیں ان کی افسری میں سر ہوئیں، مدتوں تک مختلف ممالک کے گورنررہے،حضرتگورنر رہے،حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ میں دوسرے مہاجرین کے ساتھ ان کا وظیفہ بھی مقرر کیا، غرض اطمینان اورفارغ البالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔</big>
 
== فضل وکمال ==
<big>حضرت ابوموسیٰ ؓ ان مخصوص صحابہ ؓ میں تھے،جن کو بارگاہِ رسالت میں خاص تقرب اور شرف پذیرائیپزیرائی حاصل تھا،اس لیے وہ نبوت کے چشمہ فیض سے پوری طرح سیراب تھے،وہ ان چھ آدمیوں میں سے ایک تھے،جن کو خود عہدِرسالت میں مسائل کے جواب اورفتویٰ دینے کی اجازت تھی۔
<ref>(تذکرۃ الحفاظ :۱1/۲۱21)</ref>
اسود تابعی کا بیان ہے کہ میں نے کوفہ میں حضرت علی ؓ اورحضرت ابوموسیٰ ؓ سے زیادہ کسی کو صاحب علم نہیں دیکھا،حضرت علی ؓ فرماتے تھے کہ:
"ابوموسیٰ ؓ سرتا پا علم کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔
<ref>(تذکرۃ الحفاظ :۱1/۲۰20)</ref>
اہل علم سے اکثر ان کی علمی صحبتیں اورعلمی بحثیں رہتی تھیں، جس نے ان کے علم کو اورچمکا دیا تھا، یوں تو ان کے علمی احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا،مگر ان میں حضرت عبداللہعبد اللہ بن مسعود ؓ، معاذ بن جبل ؓ سے خاص طور سے وہ علمی گفتگو کرتے تھے اور کبھی کبھی یہ گفتگو نیک نیتی کے ساتھ بحث ومناظرہ تک پہنچ جاتی اورجب تک مسئلہ کی پوری تنقیح نہ ہوجاتی برابر جاری رہتی۔
ایک مجلس میں تیمم کا مسئلہ چھڑا،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے عبداللہعبد اللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا اگر کسی کو نہانے کی ضرورت پیش آجائے اوراس کو ایک مہینہ تک پانی نہ ملے، تو کیا تیمم کرکے نماز پڑھ لے؟ حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا نہیں، خواہ ایک مہینہ تک پانی نہ ملے جب بھی تیمم نہ کرے، حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا تو پھر سورۂ مائدہ کی اس آیت کے متعلق کیا کہتے ہو؟
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
پانی نہ پاؤ توپاک مٹی سے تیمم کرو۔
حضرت عبداللہعبد اللہ نے کہا،اگر لوگوں کو تیمم کی اجازت دے دی جائے تو سردیوں کے موسم میں جب پانی ٹھنڈا ملتا ہے لوگ تیمم ہی پر اکتفا ء کرنے لگیں گے، اس پر شقیق (راوی) بولے کیا صرف اس خطرہ سے آپ تیمم کو بُرا سمجھتے ہیں،حضرت عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا ہاں، حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہا تم نے عمار کا وہ واقعہ جس کو انہوں نے حضرت عمرؓ سے بیان کیا تھا نہیں سنا کہ ان کو آنحضرت ﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا، اتفاق سے ان کو راہ میں غسل کی ضرورت پیش آئی اورپانی نہ ملا تو انہوں نے جانور کی طرح زمین پر لوٹ کر تیمم کیا اور واپس آکر آنحضرت ﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے ان کو تیمم کا طریقہ بتاکر فرمایا کہ اس قدر کافی تھا، اس پر عبداللہعبد اللہ ؓ نے کہا مگر شاید آپ کو یہ نہیں معلوم کہ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ کو کافی نہ سمجھا۔
<ref>(بخاری کتاب التیمم باب التیمم ضربۃ)</ref>
ایک مرتبہ دونوں میں حدیث کا مذاکرہ ہورہا تھا،حضرت ابوموسیٰ ؓ نے کہا" آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب علم اُٹھ جائے گا، جہالت کا دور دورہ ہوگا اورقتل وغارت کی گرم بازاری ہوگی۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۱1/۳۹۲392)</ref></big>
 
== اشاعتِ علم ==
<big>علم کی اشاعت اوراس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی وہ پوری کوشش کرتے تھے ان کا اصول یہ تھا کہ جو کچھ کسی کو معلوم ہواس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا اس کا فرض ہے ،ایک مرتبہ خطبہ میں لوگوں سے خطاب کرکے کہا کہ جس شخص کو خدا علم دے،اس کو چاہئےچاہیے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس کی تعلیم دے،اسی کے ساتھ جو اس کو معلوم نہ ہو، اس کے متعلق ہرگز ایک لفظ بھی وہ اپنی زبان سے نہ نکالے۔
<ref>(ابن سعد جزو ۴4 قسم اول صفحہ ۱۸18)</ref>
ان کے درس کے طریقے مختلف تھے، مستقل حلقہ درس کے علاوہ کبھی کبھی وہ لوگوں کو جمع کرکے خطبہ دیتے،ایک مرتبہ خطبہ دیا:
"لوگو!شرک سے بچنے کی کوشش کروکہ یہ چیونٹی کی چال سے زیادہ غیر محسوس ہے"
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۴4/۴۰۳403)</ref>
جہاں کہیں چند آدمی ایک جگہ ان کو اکٹھا مل جاتے ،ان کے کانوں تک وہ کوئی نہ کوئی حدیث ضرور پہنچادیتے، ایک دفعہ بنو ثعلبہ کے چند آدمی کہیں جارہےجا رہے تھے، ان کو راہ میں ایک حدیث سنادی۔
<ref>(مسند احمد بن حنبل :۴4/۴۱۷417)</ref>
اصفہان کی مہم سے واپس ہوتے وقت ایک جگہ پڑاؤ کیا ،کافی مجمع تھا کہا میں تم لوگوں کو ایک حدیث سنانا چاہتا ہوں جو ہم لوگوں کو آنحضرت ﷺ نے سنائی تھی، لوگوں نے کہا خدا ٓپ پر رحم کرے ضرور سنائیے بولے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
قیامت کے قرب میں "ہرج" زیادہ ہوگا، لوگوں نے پوچھا"ہرج"کیا؟ کہا قتل اورجھوٹ، لوگوں نے کہا کی اس سے بھی زیادہ قتل ہوگا، جتنا ہم لوگ کرتے ہیں؟ فرمایا اس سے مقصد کفار کا قتل نہیں ہے،بلکہ باہمی خونریزی ہے، حتیٰ کہ پڑوسی پڑوسی کو،بھائی بھائی کو،بھتیجا چچا کو،اورچچا بھتیجے کو قتل کرے گا لوگوں نے کہا سبحان اللہ عقل و ہوش رکھتے ہوئے؟ کہا عقل و ہوش کہاں عقل و ہوش تو اس زمانہ میں باقی نہ رہے گا، حتیٰ کہ آدمی خیال کرے گا کہ وہ کسی (حق) بات پر ہے، لیکن درحقیقت وہ کسی(حق) بات پر نہ ہوگا۔
یہ حدیث سن کر بولے کہ ہم میں سے تم میں سے کوئی بھی اس پیشین گوئی سے نہ نکل سکے گا، اس سے نکلنے کی صرف یہ صورت ہے کہ ہم بلاکچھ کیے ہوئے اس طریقہ سے پاک وصاف نکل جائیں جس طرح اس میں شریک ہوئے تھے۔
<ref>(مسند احمد ابن:۴4/۴۰۶406)</ref>
حضرت ابوموسیٰ ؓ کے تعلیم دینے کا طریقہ نہایت نرم تھا، اگر کبھی کوئی شخص نادانی سے بھی کوئی اعتراض کرتا، توخفا ہونے کےکی بجائے نہایت نرمی سے اس کو سمجھا دیتے ،عبداللہ،عبد اللہ الرقاشی روایت کرتے ہیں کہ:
"میں ایک مرتبہ ابو موسیٰ ؓ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا،وہ قعدہ میں تھے کہ کسی نے زور سے ایک فقرہ کہا جو مسنون دعاؤں میں سے نہ تھا،ابوموسیٰ ؓ نماز ختم کرچکے، تو پوچھا یہ کس نے کہا تھا، لوگ خاموش رہے،پھر پوچھا فلاں بات کس نے کہی تھی ،لوگ پھر چپ رہے، تو بولے حطان شاید تم نے کہا ہوگا، انہوں نے کہا میں نے نہیں کہا، مجھ کو پہلے ہی خطرہ تھا کہ آپ مجھ پر ہی ڈانٹ ڈپٹ کریں گے،اتنے میں ایک شخص نے اقرار کیا کہ میں نے کہا اوراس سے میرا مقصد بدنیتی نہ تھی،بلکہ بھلائی تھی،ابوموسیٰ ؓ نے کسی قسم کی ترش روئی کے بغیر مسنون نماز کا پورا طریقہ بتادیا۔
<ref>(مسلم کتاب الصلوٰۃ باب التشہد فی الصلوٰۃ)</ref></big>