"اویس قرنی" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م خودکار: درستی املا ← رہے \1، 6، 0، نکہت، ہو سکے، کی بجائے، 5، 4، 2، گذرے، کر دیا، ہو گئے، 8، 7، ہو گئی، 1، کر دیں، کر لیا، \1 رہے، 3؛ تزئینی تبدیلیاں
سطر 116:
حضرت اویس ان برگزیدہ وارفتگانِ محبت میں تھے جن کی تخلیق ہی عشق ومحبت کے خمیر سے ہوئی تھی،وہ نادیدہ جمال نبوی کے پروانوں میں تھے کہ:
نہ تنہا عشق ازدیدارخیزد بساکین دولت ازگفتار خیزد</big>
<big>انہوں نے اپنی ہستی کو راہِ خدا میں ایسا گم کردیاکر دیا تھا کہ ظاہر بین نگاہوں میں ان کی شخصیت ہی مشکوک ہوگئیہو گئی اگرچہ اویس عہد رسالت میں موجود تھے،لیکن لقائے ظاہری سے محروم رہے،مگر عالمِ باطن کے قوانین اس دنیا ئے آب وگل کے قوانین سے ماوراء ہیں،وہاں قرب وبعد منزل کا کوئی سوال نہیں،چشم حقیقت نگر لاکھ حجابوں پر بھی محروم تماشا نہیں رہتی،ربط باطن بعد مسافت میں بھی قرب محسوس کرتا ہے،خود اس دنیائے آب وگل میں بھی ظاہری بعد اوردوری ایک بے حقیقت شے ہے ،اصل شے قوتِ تاثیر اورجذب وکشش ہے،آفتاب کروڑوں منزلوں کی مسافت کے باوجود عالم کے ذرے ذرے کومنور کرتا ہے،قطرات شبنم اڑکر آفتاب کی حرارت میں تحلیل ہوجاتے ہیں، موسم گل کی نکہت منزلوں تک کوہ ووادی کو معطر کردیتی ہے، اس لیے اویس بھی بعد مسافت کے باوجود آفتاب نبوت کی کرنوں سے مستنیر اوربہارمدینہ کی نگہتنکہت باریوں سے مست وبیخود تھےاگرچہ وہ یمن میں تھے؛ لیکن ان کی محبت کی لہریں حجاز تک رواں دواں تھیں۔</big>
 
== حضرت عمرؓ سے غائبانہ تعارف اورملاقات ==
<big>حضرت عمرؓ کو اس نادیدہ وارفتۂ محبت کی ایک ایک علامت بتادی تھی صحیح مسلم میں ہے کہ خیر التابعین قبیلہ مراد کا ایک شخص ہے،اس کا نام اویس ہے ،وہ تمہارے پاس یمن کی امداد میں آئے گا،اس کے جسم پر برص کے داغ ہیں،سب مٹ چکے ہیں صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے،اس کی ماں بھی ہے جس کی وہ خدمت کرتا ہے،جب وہ خدا کی قسم کھاتا ہے تو اس کو پوری کرتا ہے اگر تم اس کی دعائے مغفرت حاصل کرسکو تو حاصل کرنا۔</big>
<big>اس کے بعد سے حضرت عمرؓ برابر اویسؓ کی تلاش میں رہے ؛چنانچہ آپ کے عہد خلافت میں جب یمن سے فوجی مدد آئی تو آپ تلاش کرتے کرتے اویس کے پاس پہنچے اورپوچھا تم ہی اویس بن عامر ہو،انہوں نے اثبات میں جواب دیا،حضرت عمرؓ نے سوال کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ! ان علامات کو معلوم کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے پاس اہل یمن کی مدد کے ساتھ قبیلہ مراد اورقرن کا ایک شخص اویس بن عامر آئے گا،جس کے جسم پر برص ہوگا،لیکن ایک درہم کے برابر کے سواسب مٹ چکا ہوگا،اس کے ایک ماں ہوگی جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہوگا ،جب وہ خدا کی قسم کھاتا ہے تو اس کو پوری کرتا ہے،اگر تم اس کی دعائے مغفرت لے سکنا تولینا،اس لیے آپ میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں،یہ سُن کر اویسؓ نے حضرت عمرؓ کے لیے دعا کی،پھر آپ نے ان سے پوچھا اب کہاں کا قصد ہے،انہوں نے کہا کوفہ کا،حضرت عمرؓ نے فرمایا میں آپ کے متعلق وہاں کے عامل کے پاس ہدایت لکھے دیتا ہوں، اویس نے کہا اس کی ضرورت نہیں ،مجھے عوام کے زمرہ میں رہنا زیادہ پسند ہے۔
اس واقعہ کے دوسرے سال کوفہ کا ایک معزز شخص حج کے لیے آیا،حضرت عمرؓ نے اس سے اویس کا حال پوچھا،اس نے بتایا کہ وہ نہایت تنگدستی میں ہیں،ایک بوسیدہ چھونپڑے میں رہتے ہیں،حضرت عمرؓ نے اس سے اویس کے متعلق آنحضرت ﷺ کا ارشاد بیان کیا؛چنانچہ یہ شخص بھی واپس جاکر اویس سے دعائے مغفرت کا طالب ہوا، انہوں نےفرمایا کہ تم ابھی تازہ ایک مقدس سفر سے آرہےآ رہے ہو،اس لیے تم میرے لیے دعا کرو ،پھر پوچھا تم عمرؓ سے ملے تھے،اس نے کہا ہاں اس گفتگو کے بعد اویس نے اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کی۔
<ref>(یہ تمام واقعات مسلم کتاب الفضائل باب فضائل اویس قرنی سے ماخوذ ہیں)</ref></big>
 
== ہرم بن حیان اوراویس کی پر اثر ملاقات کے حالات ==
<big>اویس اپنے کو اہل دنیا سے چھپانے کے لیے نہایت خستہ حال رہتے تھے اکثر بدن تک ڈھانپنے کے لیے پورا کپڑا تک نہ ہوتا تھا،لوگ ننگا بدن دیکھ کر کپڑا اوڑھادیتے،ان کی ظاہری حالت پر بے بصر عوام ان کا مذاق اڑاتے اورانہیں پریشان کرتے۔
<ref>(ابن سعد:۶6/۱۱۴،۱۱۵114،115)</ref>
لیکن اہل نظر کی نگاہوں سے وہ نہ چھپ سکے،ان کی شمیم روحانیت اہل دل لوگوں کو دور دور سے کھینچ بلاتی تھی،ایک صاحب دل تابعی ہرم بن حبان اوراویس کی ملاقات کے پر تاثیر واقعات خود ہرم بن حیان کی زبان سے سننے کے قابل ہیں ان کا بیان ہے کہ:
میں اویس قرنی کی زیارت کی تمنا میں کوفہ گیا اورتلاش کرتے کرتے فرات کے کنارہ پہنچا،وہاں دیکھا کہ ایک شخص تنہا بیٹھا نصف النہار کے وقت وضو کررہا ہے اورکپڑے دھو رہا ہے میں اویسؓ کے اوصاف سن چکا تھا، اس لیے فوراً پہچان گیا وہ فربہ اندام تھے، رنگ گندم گوں تھا،بدن پر بال زیادہ تھے،سرمنڈا ہوا تھا،داڑھی گھنی تھی،بدن پر ایک صوف کا ازار اورایک صوف کی چادر تھی،چہرہ بہت بڑا اورمہیب تھا، قریب پہنچ کر میں نے سلام کیا،اویس نے جواب دیا اورمیری طرف دیکھ کر کہا خدا تم کو زندہ رکھے، میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا،انہوں نے مصافحہ کرنے سے انکارکیا اورپھر کہا خدا تم کو زندہ رکھے، میں نے کہا اویس تم پر خدا رحمت نازل کرے اورتمہاری مغفرت فرمائے،تمہارا کیا حال ہے،غایت محبت میں ان کی ظاہری حالت پر میرے آنسو نکل آئے، مجھے روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگے اور مجھ سے فرمایا،ہرم بن حیان خدا تم پر رحم کرے،میرے بھائی تم کیسے ہو،تم کو میرا پتہ کس نے بتایا،میں نے کہا خدانے ،اس جواب پر انہوں نے فرمایا لا الہ الا اللہ سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولاحین سمانی ہرم بن حیان کہتے ہیں کہ اس سے پہلے نہ کبھی میں نے ان کو دیکھا تھا اورنہ انہوں نے مجھے دیکھا تھا،اس لیے میں نے ان سے پوچھا آپ نے میرا اورمیرے باپ کا نام کیسے جان لیا،خدا کی قسم آج سے پہلے کبھی میں نے آپ کو نہ دیکھا تھا،فرمایا علیم خبیر نے مجھے بتایا، جب تمہارے نفس نے میرے نفس سے باتیں کیں،اسی وقت میری روح نے تمہاری روح کو پہچان لیا،زندہ اورچلتے پھرتے لوگوں کی طرح روحوں کے بھی جان ہوتی ہے،مومنین خواہ کبھی آپس میں نہ ملے ہوں اوران میں کوئی تعارف نہ ہو اورنہ ان کو ایک دوسرے سے باتیں کرنے کا اتفاق ہوا ہو، پھر بھی وہ سب ایک دوسرے کوپہچانتے ہیں اورخدا کی روح کے وسیلہ سے باتیں کرتے ہیں ،خواہ وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں۔</big>
 
<big>میں نے درخواست کی کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنائیے کہ میں آپ کی زبان سے سن کر اس کو یاد کرلوں،فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو پایا اورنہ آپ کی صحبت سے بہرہ ور ہوا البتہ آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے اورتم لوگوں کی طر ح مجھے بھی آپ کی حدیثیں پہنچی ہیں،لیکن میں اپنے لیے دروازہ کھولنا نہیں چاہتا کہ محدث،قاضی یا مفتی بنوں، ہرم بن جیان مجھے خود اپنے نفس کے بہت سے کام ہیں ،یہ جواب سن کر میں نے عرض کیا کہ پھر قرآن ہی کچھ آیات سنادیجئے ،مجھے آپ کی زبان سے قرآن سننے کی خواہش ہے میں خدا کے لیے آپ کو محبوب رکھتا ہوں، میرے لیے دعافرمائیے اورکچھ وصیتیں کیجئے،تاکہ میں ان کو ہمیشہ یاد رکھوں،میری درخواست سُن کر میرا ہاتھ پکڑلیا اور اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پڑھ کر چیخ مار کر رونے لگے اور فرمایا میرے رب کا ذکربلند ہے،سب سے زیادہ حق اس کا قول ہے سب سے زیادہ سچی بات اس کی بات ہے،سب سے زیادہ اچھا کلام اس کا کلام ہے،یہ کلمات فرماکر ماخلقنا السموت والارض سے ھو العزیز الرحیم تک تلاوت کرکے چیخ مارکر ایسے خاموش ہوئے کہ میں سمجھا بے ہوش ہوگئےپھر مجھ سے فرمایا ہرم بن حیان تمہارے باپ مرچکے،عنقریب تم کو بھی مرنا ہے،ابوحیان مرچکے ،ان کے لیے یاجنت ہے یا دوزخ،ابن حیان آدم مرگئے حوامر گئیں،ابن حیان نوح اورابراہیم خلیل الرحمن مرگئے،ابن حیان موسیٰ نجی الرحمان مرگئے،ابن حیان داؤد خلیفہ الرحمان مرگئے،ابن حیان،محمد رسول الرحمان مرگئے، ابن حیان ابوبکرؓ خلیفہ المسلمین مرگئے،ابن حیان میرے بھائی عمرؓ بن الخطاب مرگئے،یہ کہہ کر و عمراہ کا نعرہ لگایا اوران کے لیے رحمت کی دعا کی،عمر فاروقؓ اس وقت تک زندہ تھے اوراُن کی خلافت کا آخری زمانہ تھا،اس لیے میں نے کہا خداآپ پر رحم کرے ،عمرؓ بن الخطاب توزندہ ہیں، فرمایا ہاں ،جو کچھ میں نے کہا ہے،اگر تم اس کو پوری طرح سمجھ لو تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا تمہارا شمار مردوں ہی میں ہے ہونے والی بات ہوچکی ،اس کے بعد رسول اللہ ﷺپر درود بھیجااورچند مختصر دعائیں پڑھ کر کہا ہرم بن حیان کتاب اللہ،صلحائے امت کی ملاقات اورنبی ﷺ پر درود سلام میری وصیت ہے ،میں نے اپنی خبر موت دی اورتمہاری خبر موت دی،آیندہ ہمیشہ موت کو یاد رکھنا اورایک لمحہ کے لیے بھی اسے سے غافل نہ ہونا ،واپس جاکر اپنی قوم کو ڈرانا اوراپنے ہم مذہبوں کو نصیحت کرنا اور اپنے نفس کے لیے کوشش کرنا، خبردار جماعت کا ساتھ نہ چھوڑنا،ایسا نہ ہوکہ بے خبری میں تمہارا دین چھوٹ جائے اورقیامت میں تم کو آتشِ دوزخ کا سامنا ہو،پھر فرمایا ،خدایا اس شخص کا گمان ہے کہ وہ تیرے لیے مجھ سے محبت کرتا ہےاورتیرے لیے مجھ سے ملاقات کی،اس لیے خدایا جنت میں اس کا چہرہ مجھے پہنچوانا اوراپنے گھر دارالسلام میں مجھے اس سے ملانا وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی رہے اس کو اپنے حفظ وامان میں رکھنا،اس کی کھیتی باڑی کو اس کے قبضہ میں رہنے دے،اس کو تھوڑی دنیا پر خوش رکھ اوردنیا سے تو نے جو حصہ اس کو دیا ہے وہ اس کے لیے آسان کر اوراپنے عطایااورنعمتوں پر اس کو شاکر بنا اوراس کو جزائے خیر دے،یہ دعائیں دیکر مجھ سے خطاب فرمایا کہ ہرم بن حیان اب میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اچھا سلام علیک ورحمۃ اللہ اب میں تم کوآج سے نہ دیکھوں میں شہرت ناپسند کرتا ہوں اورتنہائی غم والم میں مبتلا رہوں گا اس لیے آیندہ نہ تم مجھے پوچھنا اورنہ تلاش کرنا،تمہاری یاد میرے دل میں ہمیشہ رہےگی،لیکنرہے گی،لیکن اس کے بعد نہ میں تم کو دیکھوں گا اورنہ تم مجھے دیکھ سکو گے مجھے یاد کرتے رہنا اورمیرے لیے دعائے خیر کرنا میں بھی ان شاء اللہ تم کو یاد اورتمہارے لیے دعائے خیر کرتا رہوں گا،یہ کہہ کر وہ ایک سمت چلے میں بھی ساتھ ہولیا؛کہ ایک ہی ساعت اورساتھ ہوجائے؛لیکن اس پر بھی وہ راضی نہ ہوئے اور ہم دونوں روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئےہو گئے ،میں حد نظر تک دیکھتا رہا تاآنکہ وہ ایک گلی میں چلے گئے،اس کے بعد میں نے اُن کوبہت تلاش کیا،اورلوگوں سے پوچھا؛ لیکن کسی سے کچھ سراغ نہ ملا،خداان پر رحمت نازل کرے اوراُن کی مغفرت فرمائے،اس ملاقات کے بعد سے کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ میں ان کو ایک دو مرتبہ خواب میں نہ دیکھتا ہوں۔
<ref>(یہ تمام حالات مستدرک حاکم:۳3/۴۰۶،۴۰۷406،407)</ref></big>
 
== شہادت ==
<big>اویس کو جب تک ظاہر میں دنیانے نہ پہچانا تھا، اس وقت تک وہ اہل دنیا میں نظر آتے تھے،لیکن جب سے ان کی حقیقت آشکار ہوئی اس وقت سے وہ ایسے روپوش ہوئے کہ پھر کسی نے نہ دیکھا،اس کے بعد جنگ صفین میں ان کی شہادت کا پتہ چلتاہے،اُن کو راہ خدا میں شہادت کی بڑی تمنا تھی اور اس کے لیے وہ دعا کیا کرتے تھے،خدانے جنگ صفین میں یہ آرزو پوری کردی، اورحضرت علیؓ کی حمایت میں شہادت پائی۔ <ref>(اصابہ:۱1/۱۲۰120)</ref></big>
 
== علم ظاہر ==
<big>اگرچہ اویس سرتاج تابعین ہیں اوران کی ذات جملہ فضائل وکمالات کی جامع تھی ؛لیکن اس کے باوجود علمائے ظاہر کے زمرہ میں ان کا کہیں ذکر نہیں،حتیٰ کہ ان سے کوئی روایت تک مروی نہیں ہے،لیکن اس سے یہ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ علوم ظاہری سے بے گانہ تھےان کی ذات علم باطن کے ساتھ علم ظاہر کی بھی جامع تھی،اس کی دووجہیں تھیں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان کو اپنی اصلاح نفس ،تزکیہ روح اورمجاہدات وریاضات سے اتنی فرصت نہ تھی کہ علم ظاہر کو مشغلہ حیات بناتے اورحجرۂ عبادت سے نکل کر مسندِ علم پر بیٹھتے، دوسرے انہیں شہرت اورنمود سے اتنی نفرت تھی کہ قاضی مفتی اورمحدث کے لقب سے مشہور ہونا بھی پسند نہ کرتے تھے،جیسا کہ انہوں نے خود ایک موقع پر فرمایا ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی احادیث اسی طرح پہنچی ہیں، جس طرح تم کو پہنچی ہیں،لیکن میں اپنے اوپر ان کا دروازہ کھول کر محدث قاضی اورمفتی بننا پسند نہیں کرتا،مجھے خود اپنے تزکیۂ نفس کے بہت سے کام ہیں <ref>(مستدرک حاکم:۳3/۷7)</ref> اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میں شہرت ناپسند کرتا ہوں اورتنہائی اور عزلت کو دوست رکھتا ہوں اور مسند علم پر بیٹھنے کے بعد نہ وہ شہرت سے بچ سکتے تھے اورنہ ان کی عزلت نشینی قائم رہ سکتی تھی،اس لیے انہوں نے سرے سے اس دروازہ ہی کو بند رکھا۔</big>
 
== علم باطن ==
<big>آپ کے کمالات کا منبع اورسرچشمہ کاغذ کے اوراق کےکی بجائے صحیفۂ قلب تھا،آپ کی ذات گرامی علوم باطن کا سرچشمہ تھی اورتابعین میں خواجہ حسن بصری کے بعد آپ ہی کی ذات تصوف کا مرجع ہے اورصوفیائے کرام کے بہت سے سلاسل آپ کی ذات تک منتہی ہوتےہیں۔
<ref>(انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ شاہ ولی اللہؒ)</ref></big>
 
== عبادت وریاضت ==
<big>آپ نے راہ سلوک میں بڑے بڑے مجاہدات کیے،ساری ساری رات پلک سے پلک نہ ملتی تھی،معمول تھا کہ ایک شب قیام میں گزار تے تھے،دوسری رکوع میں اور تیسری سجدہ میں <ref>(عساکر:۳3/۷۳،73، اوتذکرہ اولیاء ضرید الدین عطارج اول)</ref> اکثر رات کے ساتھ دن بھی عبادت ہی میں گزرجاتا تھا،ربیع بن خثیم کا بیان ہے کہ ایک دن میں اویس سے ملنے گیا،دیکھا کہ وہ فجر کی نماز میں مشغول ہیں ،میں اس خیال سے کہ ان کی تسبیح و تہلیل میں حارج نہ ہوں اس سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا،وہ ظہر کی نماز تک برابر مشغول رہے،پھر ظہر سے عصر تک اورعصر سے مغرب تک یہی حال رہا ،میں نے خیال کیا کہ مغرب کے بعد شاید افطار کے لیے جائیں،لیکن وہ برابر عشاء تک مشغول رہے،پھر عشاءسے صبح تک یہی کیفیت رہی ،دوسرے دن نماز فجر کے بعد کچھ نیند کا غلبہ ہوا،لیکن پھر فوراً متنبہ ہوگئےہو گئے اور دعا کی کہ خدایا میں سونے والی آنکھ اورنہ بھرنے والے پیٹ سے پناہ مانگتا ہوں، یہ حال دیکھ کر میں نے کہا جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس قدر کافی ہے۔
<ref>(ابن عساکر:۳3/۱۷۳173)</ref>
ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ افطار کے لیے کچھ میسر نہ آتا تو کھجور کی گھٹلیاں چن کر بیچتے اور اس کی قیمت سے قوت لا یموت حاصل کرتے، اگر خشک خرمامل جاتا تو اس کو افطار کے لیے رکھ لیتے اگرزیادہ مقدار میں مل جاتا تو گھٹلیاں بیچ کر اس کی قیمت خیرات کردیتے۔
<ref>(تذکرہ الاولیاء:۱1/۲۳23)</ref></big>
 
== حلقہ ذکر ==
<big>کوفہ میں ذکر و شغل کا ایک حلقہ تھا جس میں بہت سے سالکین جمع ہوتے تھے ،اویس بھی اس حلقہ میں شرکت کرتے تھے،اسیر بن جابر کا بیان ہے کہ ہم چند لوگ کوفہ میں ذکر و شغل کے ایک حلقہ میں جمع ہوتے تھے،اویس بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے ، اس حلقہ میں دلوں پر سب سے زیادہ اویس کے ذکر کا اثر پڑتا تھا <ref>(مستدرک حاکم:۳3/۴۰۴404)</ref> بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذکر وہ شغل نماز اور تلاوت قرآن تھی۔ <ref>(ایضاً:۴۰۸408)</ref></big>
 
== زہد عن الدنیا ==
<big>زہد کا یہ عالم تھا کہ گھر بار ،لباس اورکھانے پینے وغیرہ جملہ علائق دنیاوی سے ہمیشہ آزاد رہے ،ایک نہایت بوسیدہ اور شکستہ مکان میں رہتے تھے <ref>(ابن سعد:۶6/۱۷۳173)</ref>کھانے پینے کا یہ حال تھا کہ کبھی اونٹ چرا کر اورکبھی کھجور کی گٹھلیاں بیچ کر قوتِ لایموت حاصل کرتے تھے (تذکرہ الاولیاء فرید الدین عطارحالات اویس)حضرت عمرؓ نے سلوک کرنا چاہا مگر انکار کردیاکر دیا <ref>(ابن سعد:۶6/۱۱۳113)</ref> لباس میں ایک صوف کی ایک چادر اورایک صوف کا ازار ہوتا تھا<ref>(مستدرک حاکم:۲2/۴۰۶406)</ref>اور اکثر وہ بھی میسر نہ آتا تھا،لوگ ننگے بدن دیکھ کر چادر دیتے <ref>(ابن سعد:۶6/۱۱۳113)</ref> پیٹ کے کھانے اوربدن کے کپڑے کے علاوہ کوئی چیز پاس نہ رکھتے تھے ،فرمایا کرتے تھے خدایا میں تجھ سےبھوکے جگر اورننگے بدن کی معذرت چاہتا ہوں، لباس جو میرے جسم پر اور غذا جو میرے پیٹ میں ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
<ref>(مستدرک حاکم:۲2/۴۰40)</ref></big>
 
<big>آپ کی اس مجذوبانہ شان کی وجہ سے ظاہر بیں عوام آپ کو راہ چلتے پریشان کرتے ایک مرتبہ آپ کپڑا نہ میسر ہونے کی وجہ سے حلقہ ذکر سے غیر حاضر ہوگئے،ہو گئے، آپ کے شریک حلقہ اسیر بن جابر یہ سمجھ کر کہ آپ بیمار ہو گئے ہیں، آپ کے گھر پہنچے اور کہا خدا تم پر رحم کرے تم نے ہمیں چھوڑکیوں دیا،آپ نے جواب دیا میرے پاس چادر نہیں تھی اس لیے میں نہ آسکا،اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ یہ سُن کر میں نے اپنی چادر ان کو دے دی ،انہوں نے واپس کردی میں نے اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں چادر اوڑھ لوں اور میرے ہم قوم مجھے دیکھ لیں تو کہیں گے اس ریاکار کو دیکھو ایک آدمی کے ساتھ لگ گیا اوردھوکا دے کر اس کی چادر لے لی؛ لیکن میں نے اصرار کرکے چادر انہیں دے دی اور کہا ہمارے ساتھ چلو دیکھو وہ لوگ کیا کہتے ہیں؛چنانچہ وہ چادر اوڑھ کر ہمارے ساتھ ہولیے، جیسے ہی ایک مجمع کے سامنے سے گزرےگذرے مجمع نے کہا ذرا اس ریا کار کو دیکھو ایک شخص کے ساتھ چمٹا رہا اوردھوکا دیکر اس کی چادر لے لی،یہ الفاظ سن کر میں نے ان لوگوں سے کہا تم کو شرم نہیں آتی،خدا کی قسم میں نے جب انہیں چادر دینا چاہی تو انہوں نے انکار کردیاکر دیا تھا<ref>(مستدرک حاکم:۲2/۴۰۵405)</ref> غرض وہ اپنی ظاہری حالت کی وجہ سے ہر قسم کے تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنتے تھے اوراس کو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے تھے اور اسی عالم میں مست رہتے۔</big>
 
== شہرت سے اجتناب ==
<big>آپ فنا کے اس درجہ پر تھے،جہاں شہرت،نموداور اہل دنیا سے اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں اس لیے شہرت اورناموری سے بہت بھاگتے تھے <ref>(ایضاً:۴۰۷407)</ref> حضرت عمرؓ نے چاہا کہ والی کوفہ کے نام خط لکھ کر آپ کا تعارف کرائے آپ کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کردیںکر دیں مگر آپ نے منظور نہ کیا اور جواب دیاکہ میں زمرہ ٔ عوام میں رہنا پسند کرتا ہوں(مسلم کتاب الفضائل فضائل اویس قرنی) لوگوں کے ساتھ ملنے جلنےسے بہت گھبراتے؛ لیکن آپ کی عزلت پسندی زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی،آپ کی شمیم روحانیت نے خلق اللہ کو خود اپنی طرف متوجہ کرلیاکر لیا اور لوگوں کا رجحان آپ کی طرف بڑھنے لگا،اسیر بن جابر بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک ساتھی مجھے اویس کے پاس لے گئے وہ دوررکعت نماز تمام کرنے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا،آپ لوگوں کا بھی میرے ساتھ عجیب معاملہ ہے، آپ لوگ میرے پیچھے پیچھے کیوں چلتے ہیں، میں ایک ضعیف انسان ہوں،میری بہت سی ضروریات ہیں،جنہیں میں آپ کی وجہ سے پوری نہیں کرسکتا،آپ لوگ ایسا نہ کیجئے،خدا آپ پررحم کرے، اگر کسی کو مجھ سے کوئی ضرورت ہو تو وہ عشا کے وقت مل لیا کرے،اس مجلس میں تین قسم کے لوگ آتے ہیں،سمجھ دارمومن،بے سمجھ مومن،اور منافق،ان تینوں کی مثال درخت اور بارش کی سی ہے،اگر سر سبز وشاداب اور پھل دار درخت پر پانی برستا ہے تو اس کی تراوٹ وشادابی اورحسن وخوبصورتی میں اورزیادہ اضافہ ہوتا ہے اور اگر شاداب مگر بے پھل والے درخت پر برستا ہے تو اس کے پتوں میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور وہ پھل دینے لگتا ہے اوراگر خشک گھاس اور کمزورشاخ پر برستا ہے تو اسے توڑ پھوڑ ڈالتا ہے،یہ مثال دے کر یہ آیت پڑھی:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا <ref>(الاسراء:۸۱81)</ref>
اور ہم وہ قرآن نازل کررہےکر رہے ہیں جو مؤمنوں کے لیے شفاء اور رحمت کا سامان ہے،البتہ ظالموں کے حصہ میں اُس سے نقصان کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔</big>
 
== امر بالمعروف ==
<big>لیکن اس عزلت پسندی اورتنہا نشینی کے باوجود امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکے فریضہ سے کبھی غافل نہ رہے،اوراس کی ادائیگی میں لوگ ان کے دشمن ہوجاتے تھے۔
ابوالاحوص روایت کرتے ہیں کہ میرے ایک ساتھی کا بیان ہے کہ قبیلہ مراد کا ایک شخص اویس کے پاس گیا اور سلام کے بعد پوچھا کہ اویس تمہارا کیا حال ہے،فرمایا الحمد للہ،پھر پوچھا زمانہ کا تمہارے ساتھ کیا طرز عمل ہے،فرمایا،یہ سوال اس شخص سے کرتے ہو،جس کو شام کے بعد صبح ملنے کا یقین نہیں اور صبح کو شام کے ملنے کی امید نہیں،میرے مرادی بھائی موت نے کسی شخص کے لیے خوشی کا محل باقی ہی نہیں رکھا،مرادی بھائی خدا کے عرفان میں مومن کے لیے چاندی سونے کی کوئی قیمت باقی نہیں رکھی،مرادی بھائی خدا کے کاموں میں مومن کے فرض کی ادائیگی نے ان کا کوئی دوست باقی نہیں چھوڑا ہے،خدا کی قسم چونکہ ہم لوگ لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں،اس لیے انہوں نے ہم کو اپنا دشمن سمجھ لیا ہے اور اس میں اُن کے فاسق مدد گار مل گئے ہیں جو ہم پر تہمتیں رکھتے ہیں،لیکن خدا کی قسم ان کا یہ رویہ مجھ کو حق بات کہنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔
<ref>(مستدرک حاکم:۳3/۴۰۶406)</ref></big>
 
== شرف جہاد ==
<big>اگرچہ آپ گمنامی کی خاطر گوشہ عزلت سے بہت کم قدم نکالتے تھے؛ لیکن جہاد کے شرف کے حصول کے لیے کبھی کبھی وہ گوشہ عزلت کو چھوڑتے تھے،اگرچہ صحیح مسلم میں اس کی تصریح نہیں ؛لیکن قیاس ؛بلکہ یقین یہ ہے کہ حضرت عمرؓ سے آپ سے یمن کی جس امداد میں ملاقات ہوئی تھی وہ یقیناً جنگی سلسلہ میں آئی ہوگی،اس کے علاوہ اصابہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آذربائیجان کے معرکہ میں شریک تھے۔
<ref>(اصابہ:۱1/۱۲۰120)</ref></big>
 
== ماں کی خدمت ==
<big>دنیاوی تعلقات میں اویس کے لے دے کر ایک تنہا ماں تھیں،ان کی خدمت کو سب سے بڑی سعادت اور عبادت سمجھتے تھے ؛چنانچہ جب تک وہ زندہ رہیں اُن کی تنہائی کے خیال سے حج نہیں کیا اور ان ہی کی وجہ سے وہ جمالِ نبوی کے دیدار سے محروم رہے،ان کی وفات کے بعد فریضہ حج ادا کرنے کا موقع ملا؛لیکن ان کے پاس کیا تھا چند لوگوں نے سامانِ سفر پیش کیا،اُس وقت وہ فریضہ حج سے فارغ ہوسکے۔ہو سکے۔
<ref>(مستدرک حاکم:۳3/۴۰۵405)</ref></big>
 
== بعض اقوال ==
<big>فرماتے تھے خدا کے کاموں میں ایسے رہو گویا تم نے تمام انسانوں کو قتل کردیاکر دیا ہے <ref>(ایضاً:۴۰۵405)</ref> لوگوں کے لیے غائبانہ دعا کرنا ان کی ملاقات سے بہتر ہے؛کیونکہ اس میں کبھی نمائش اورریاء پیدا ہوجاتا ہے۔
<ref>(صفوۃ الصفوہ:۲۳۷237)</ref></big>
 
 
سطر 193:
ان کی وفات جنگ صفین میں سن 37 ہجری میں ہوئی ہے کہ انہوں نے [[علی بن ابی طالب]] کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور وہیں پر آپ شہید ہوئے، اس موقف کومستدرک حاکم نے <ref>"مستدرک"(3/460</ref> میں شریک بن عبد اللہ اور عبد الرحمن بن ابی لیلی وغیرہ سے با سند بیان کیا ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے آذربائیجان کی جنگوں میں شرکت کی اور وہیں پر شہید ہوئے، <ref>" حلیۃ الأولياء " (2/83</ref>
#
*