"اویس قرنی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
م خودکار: درستی املا ← رہے \1، 6، 0، نکہت، ہو سکے، کی بجائے، 5، 4، 2، گذرے، کر دیا، ہو گئے، 8، 7، ہو گئی، 1، کر دیں، کر لیا، \1 رہے، 3؛ تزئینی تبدیلیاں |
||
سطر 116:
حضرت اویس ان برگزیدہ وارفتگانِ محبت میں تھے جن کی تخلیق ہی عشق ومحبت کے خمیر سے ہوئی تھی،وہ نادیدہ جمال نبوی کے پروانوں میں تھے کہ:
نہ تنہا عشق ازدیدارخیزد بساکین دولت ازگفتار خیزد</big>
<big>انہوں نے اپنی ہستی کو راہِ خدا میں ایسا گم
== حضرت عمرؓ سے غائبانہ تعارف اورملاقات ==
<big>حضرت عمرؓ کو اس نادیدہ وارفتۂ محبت کی ایک ایک علامت بتادی تھی صحیح مسلم میں ہے کہ خیر التابعین قبیلہ مراد کا ایک شخص ہے،اس کا نام اویس ہے ،وہ تمہارے پاس یمن کی امداد میں آئے گا،اس کے جسم پر برص کے داغ ہیں،سب مٹ چکے ہیں صرف ایک درہم کے برابر باقی ہے،اس کی ماں بھی ہے جس کی وہ خدمت کرتا ہے،جب وہ خدا کی قسم کھاتا ہے تو اس کو پوری کرتا ہے اگر تم اس کی دعائے مغفرت حاصل کرسکو تو حاصل کرنا۔</big>
<big>اس کے بعد سے حضرت عمرؓ برابر اویسؓ کی تلاش میں رہے ؛چنانچہ آپ کے عہد خلافت میں جب یمن سے فوجی مدد آئی تو آپ تلاش کرتے کرتے اویس کے پاس پہنچے اورپوچھا تم ہی اویس بن عامر ہو،انہوں نے اثبات میں جواب دیا،حضرت عمرؓ نے سوال کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ! ان علامات کو معلوم کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے پاس اہل یمن کی مدد کے ساتھ قبیلہ مراد اورقرن کا ایک شخص اویس بن عامر آئے گا،جس کے جسم پر برص ہوگا،لیکن ایک درہم کے برابر کے سواسب مٹ چکا ہوگا،اس کے ایک ماں ہوگی جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہوگا ،جب وہ خدا کی قسم کھاتا ہے تو اس کو پوری کرتا ہے،اگر تم اس کی دعائے مغفرت لے سکنا تولینا،اس لیے آپ میرے لیے دعائے مغفرت فرمائیں،یہ سُن کر اویسؓ نے حضرت عمرؓ کے لیے دعا کی،پھر آپ نے ان سے پوچھا اب کہاں کا قصد ہے،انہوں نے کہا کوفہ کا،حضرت عمرؓ نے فرمایا میں آپ کے متعلق وہاں کے عامل کے پاس ہدایت لکھے دیتا ہوں، اویس نے کہا اس کی ضرورت نہیں ،مجھے عوام کے زمرہ میں رہنا زیادہ پسند ہے۔
اس واقعہ کے دوسرے سال کوفہ کا ایک معزز شخص حج کے لیے آیا،حضرت عمرؓ نے اس سے اویس کا حال پوچھا،اس نے بتایا کہ وہ نہایت تنگدستی میں ہیں،ایک بوسیدہ چھونپڑے میں رہتے ہیں،حضرت عمرؓ نے اس سے اویس کے متعلق آنحضرت ﷺ کا ارشاد بیان کیا؛چنانچہ یہ شخص بھی واپس جاکر اویس سے دعائے مغفرت کا طالب ہوا، انہوں نےفرمایا کہ تم ابھی تازہ ایک مقدس سفر سے
<ref>(یہ تمام واقعات مسلم کتاب الفضائل باب فضائل اویس قرنی سے ماخوذ ہیں)</ref></big>
== ہرم بن حیان اوراویس کی پر اثر ملاقات کے حالات ==
<big>اویس اپنے کو اہل دنیا سے چھپانے کے لیے نہایت خستہ حال رہتے تھے اکثر بدن تک ڈھانپنے کے لیے پورا کپڑا تک نہ ہوتا تھا،لوگ ننگا بدن دیکھ کر کپڑا اوڑھادیتے،ان کی ظاہری حالت پر بے بصر عوام ان کا مذاق اڑاتے اورانہیں پریشان کرتے۔
<ref>(ابن سعد:
لیکن اہل نظر کی نگاہوں سے وہ نہ چھپ سکے،ان کی شمیم روحانیت اہل دل لوگوں کو دور دور سے کھینچ بلاتی تھی،ایک صاحب دل تابعی ہرم بن حبان اوراویس کی ملاقات کے پر تاثیر واقعات خود ہرم بن حیان کی زبان سے سننے کے قابل ہیں ان کا بیان ہے کہ:
میں اویس قرنی کی زیارت کی تمنا میں کوفہ گیا اورتلاش کرتے کرتے فرات کے کنارہ پہنچا،وہاں دیکھا کہ ایک شخص تنہا بیٹھا نصف النہار کے وقت وضو کررہا ہے اورکپڑے دھو رہا ہے میں اویسؓ کے اوصاف سن چکا تھا، اس لیے فوراً پہچان گیا وہ فربہ اندام تھے، رنگ گندم گوں تھا،بدن پر بال زیادہ تھے،سرمنڈا ہوا تھا،داڑھی گھنی تھی،بدن پر ایک صوف کا ازار اورایک صوف کی چادر تھی،چہرہ بہت بڑا اورمہیب تھا، قریب پہنچ کر میں نے سلام کیا،اویس نے جواب دیا اورمیری طرف دیکھ کر کہا خدا تم کو زندہ رکھے، میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا،انہوں نے مصافحہ کرنے سے انکارکیا اورپھر کہا خدا تم کو زندہ رکھے، میں نے کہا اویس تم پر خدا رحمت نازل کرے اورتمہاری مغفرت فرمائے،تمہارا کیا حال ہے،غایت محبت میں ان کی ظاہری حالت پر میرے آنسو نکل آئے، مجھے روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگے اور مجھ سے فرمایا،ہرم بن حیان خدا تم پر رحم کرے،میرے بھائی تم کیسے ہو،تم کو میرا پتہ کس نے بتایا،میں نے کہا خدانے ،اس جواب پر انہوں نے فرمایا لا الہ الا اللہ سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعولاحین سمانی ہرم بن حیان کہتے ہیں کہ اس سے پہلے نہ کبھی میں نے ان کو دیکھا تھا اورنہ انہوں نے مجھے دیکھا تھا،اس لیے میں نے ان سے پوچھا آپ نے میرا اورمیرے باپ کا نام کیسے جان لیا،خدا کی قسم آج سے پہلے کبھی میں نے آپ کو نہ دیکھا تھا،فرمایا علیم خبیر نے مجھے بتایا، جب تمہارے نفس نے میرے نفس سے باتیں کیں،اسی وقت میری روح نے تمہاری روح کو پہچان لیا،زندہ اورچلتے پھرتے لوگوں کی طرح روحوں کے بھی جان ہوتی ہے،مومنین خواہ کبھی آپس میں نہ ملے ہوں اوران میں کوئی تعارف نہ ہو اورنہ ان کو ایک دوسرے سے باتیں کرنے کا اتفاق ہوا ہو، پھر بھی وہ سب ایک دوسرے کوپہچانتے ہیں اورخدا کی روح کے وسیلہ سے باتیں کرتے ہیں ،خواہ وہ ایک دوسرے سے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں۔</big>
<big>میں نے درخواست کی کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنائیے کہ میں آپ کی زبان سے سن کر اس کو یاد کرلوں،فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو پایا اورنہ آپ کی صحبت سے بہرہ ور ہوا البتہ آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے اورتم لوگوں کی طر ح مجھے بھی آپ کی حدیثیں پہنچی ہیں،لیکن میں اپنے لیے دروازہ کھولنا نہیں چاہتا کہ محدث،قاضی یا مفتی بنوں، ہرم بن جیان مجھے خود اپنے نفس کے بہت سے کام ہیں ،یہ جواب سن کر میں نے عرض کیا کہ پھر قرآن ہی کچھ آیات سنادیجئے ،مجھے آپ کی زبان سے قرآن سننے کی خواہش ہے میں خدا کے لیے آپ کو محبوب رکھتا ہوں، میرے لیے دعافرمائیے اورکچھ وصیتیں کیجئے،تاکہ میں ان کو ہمیشہ یاد رکھوں،میری درخواست سُن کر میرا ہاتھ پکڑلیا اور اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پڑھ کر چیخ مار کر رونے لگے اور فرمایا میرے رب کا ذکربلند ہے،سب سے زیادہ حق اس کا قول ہے سب سے زیادہ سچی بات اس کی بات ہے،سب سے زیادہ اچھا کلام اس کا کلام ہے،یہ کلمات فرماکر ماخلقنا السموت والارض سے ھو العزیز الرحیم تک تلاوت کرکے چیخ مارکر ایسے خاموش ہوئے کہ میں سمجھا بے ہوش ہوگئےپھر مجھ سے فرمایا ہرم بن حیان تمہارے باپ مرچکے،عنقریب تم کو بھی مرنا ہے،ابوحیان مرچکے ،ان کے لیے یاجنت ہے یا دوزخ،ابن حیان آدم مرگئے حوامر گئیں،ابن حیان نوح اورابراہیم خلیل الرحمن مرگئے،ابن حیان موسیٰ نجی الرحمان مرگئے،ابن حیان داؤد خلیفہ الرحمان مرگئے،ابن حیان،محمد رسول الرحمان مرگئے، ابن حیان ابوبکرؓ خلیفہ المسلمین مرگئے،ابن حیان میرے بھائی عمرؓ بن الخطاب مرگئے،یہ کہہ کر و عمراہ کا نعرہ لگایا اوران کے لیے رحمت کی دعا کی،عمر فاروقؓ اس وقت تک زندہ تھے اوراُن کی خلافت کا آخری زمانہ تھا،اس لیے میں نے کہا خداآپ پر رحم کرے ،عمرؓ بن الخطاب توزندہ ہیں، فرمایا ہاں ،جو کچھ میں نے کہا ہے،اگر تم اس کو پوری طرح سمجھ لو تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا تمہارا شمار مردوں ہی میں ہے ہونے والی بات ہوچکی ،اس کے بعد رسول اللہ ﷺپر درود بھیجااورچند مختصر دعائیں پڑھ کر کہا ہرم بن حیان کتاب اللہ،صلحائے امت کی ملاقات اورنبی ﷺ پر درود سلام میری وصیت ہے ،میں نے اپنی خبر موت دی اورتمہاری خبر موت دی،آیندہ ہمیشہ موت کو یاد رکھنا اورایک لمحہ کے لیے بھی اسے سے غافل نہ ہونا ،واپس جاکر اپنی قوم کو ڈرانا اوراپنے ہم مذہبوں کو نصیحت کرنا اور اپنے نفس کے لیے کوشش کرنا، خبردار جماعت کا ساتھ نہ چھوڑنا،ایسا نہ ہوکہ بے خبری میں تمہارا دین چھوٹ جائے اورقیامت میں تم کو آتشِ دوزخ کا سامنا ہو،پھر فرمایا ،خدایا اس شخص کا گمان ہے کہ وہ تیرے لیے مجھ سے محبت کرتا ہےاورتیرے لیے مجھ سے ملاقات کی،اس لیے خدایا جنت میں اس کا چہرہ مجھے پہنچوانا اوراپنے گھر دارالسلام میں مجھے اس سے ملانا وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی رہے اس کو اپنے حفظ وامان میں رکھنا،اس کی کھیتی باڑی کو اس کے قبضہ میں رہنے دے،اس کو تھوڑی دنیا پر خوش رکھ اوردنیا سے تو نے جو حصہ اس کو دیا ہے وہ اس کے لیے آسان کر اوراپنے عطایااورنعمتوں پر اس کو شاکر بنا اوراس کو جزائے خیر دے،یہ دعائیں دیکر مجھ سے خطاب فرمایا کہ ہرم بن حیان اب میں تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں اچھا سلام علیک ورحمۃ اللہ اب میں تم کوآج سے نہ دیکھوں میں شہرت ناپسند کرتا ہوں اورتنہائی غم والم میں مبتلا رہوں گا اس لیے آیندہ نہ تم مجھے پوچھنا اورنہ تلاش کرنا،تمہاری یاد میرے دل میں ہمیشہ
<ref>(یہ تمام حالات مستدرک حاکم:
== شہادت ==
<big>اویس کو جب تک ظاہر میں دنیانے نہ پہچانا تھا، اس وقت تک وہ اہل دنیا میں نظر آتے تھے،لیکن جب سے ان کی حقیقت آشکار ہوئی اس وقت سے وہ ایسے روپوش ہوئے کہ پھر کسی نے نہ دیکھا،اس کے بعد جنگ صفین میں ان کی شہادت کا پتہ چلتاہے،اُن کو راہ خدا میں شہادت کی بڑی تمنا تھی اور اس کے لیے وہ دعا کیا کرتے تھے،خدانے جنگ صفین میں یہ آرزو پوری کردی، اورحضرت علیؓ کی حمایت میں شہادت پائی۔ <ref>(اصابہ:
== علم ظاہر ==
<big>اگرچہ اویس سرتاج تابعین ہیں اوران کی ذات جملہ فضائل وکمالات کی جامع تھی ؛لیکن اس کے باوجود علمائے ظاہر کے زمرہ میں ان کا کہیں ذکر نہیں،حتیٰ کہ ان سے کوئی روایت تک مروی نہیں ہے،لیکن اس سے یہ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ علوم ظاہری سے بے گانہ تھےان کی ذات علم باطن کے ساتھ علم ظاہر کی بھی جامع تھی،اس کی دووجہیں تھیں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان کو اپنی اصلاح نفس ،تزکیہ روح اورمجاہدات وریاضات سے اتنی فرصت نہ تھی کہ علم ظاہر کو مشغلہ حیات بناتے اورحجرۂ عبادت سے نکل کر مسندِ علم پر بیٹھتے، دوسرے انہیں شہرت اورنمود سے اتنی نفرت تھی کہ قاضی مفتی اورمحدث کے لقب سے مشہور ہونا بھی پسند نہ کرتے تھے،جیسا کہ انہوں نے خود ایک موقع پر فرمایا ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی احادیث اسی طرح پہنچی ہیں، جس طرح تم کو پہنچی ہیں،لیکن میں اپنے اوپر ان کا دروازہ کھول کر محدث قاضی اورمفتی بننا پسند نہیں کرتا،مجھے خود اپنے تزکیۂ نفس کے بہت سے کام ہیں <ref>(مستدرک حاکم:
== علم باطن ==
<big>آپ کے کمالات کا منبع اورسرچشمہ کاغذ کے اوراق
<ref>(انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ شاہ ولی اللہؒ)</ref></big>
== عبادت وریاضت ==
<big>آپ نے راہ سلوک میں بڑے بڑے مجاہدات کیے،ساری ساری رات پلک سے پلک نہ ملتی تھی،معمول تھا کہ ایک شب قیام میں گزار تے تھے،دوسری رکوع میں اور تیسری سجدہ میں <ref>(عساکر:
<ref>(ابن عساکر:
ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اکثر ایسا ہوتا تھا کہ افطار کے لیے کچھ میسر نہ آتا تو کھجور کی گھٹلیاں چن کر بیچتے اور اس کی قیمت سے قوت لا یموت حاصل کرتے، اگر خشک خرمامل جاتا تو اس کو افطار کے لیے رکھ لیتے اگرزیادہ مقدار میں مل جاتا تو گھٹلیاں بیچ کر اس کی قیمت خیرات کردیتے۔
<ref>(تذکرہ الاولیاء:
== حلقہ ذکر ==
<big>کوفہ میں ذکر و شغل کا ایک حلقہ تھا جس میں بہت سے سالکین جمع ہوتے تھے ،اویس بھی اس حلقہ میں شرکت کرتے تھے،اسیر بن جابر کا بیان ہے کہ ہم چند لوگ کوفہ میں ذکر و شغل کے ایک حلقہ میں جمع ہوتے تھے،اویس بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے ، اس حلقہ میں دلوں پر سب سے زیادہ اویس کے ذکر کا اثر پڑتا تھا <ref>(مستدرک حاکم:
== زہد عن الدنیا ==
<big>زہد کا یہ عالم تھا کہ گھر بار ،لباس اورکھانے پینے وغیرہ جملہ علائق دنیاوی سے ہمیشہ آزاد رہے ،ایک نہایت بوسیدہ اور شکستہ مکان میں رہتے تھے <ref>(ابن سعد:
<ref>(مستدرک حاکم:
<big>آپ کی اس مجذوبانہ شان کی وجہ سے ظاہر بیں عوام آپ کو راہ چلتے پریشان کرتے ایک مرتبہ آپ کپڑا نہ میسر ہونے کی وجہ سے حلقہ ذکر سے غیر حاضر
== شہرت سے اجتناب ==
<big>آپ فنا کے اس درجہ پر تھے،جہاں شہرت،نموداور اہل دنیا سے اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں اس لیے شہرت اورناموری سے بہت بھاگتے تھے <ref>(ایضاً:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا <ref>(الاسراء:
اور ہم وہ قرآن نازل
== امر بالمعروف ==
<big>لیکن اس عزلت پسندی اورتنہا نشینی کے باوجود امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکے فریضہ سے کبھی غافل نہ رہے،اوراس کی ادائیگی میں لوگ ان کے دشمن ہوجاتے تھے۔
ابوالاحوص روایت کرتے ہیں کہ میرے ایک ساتھی کا بیان ہے کہ قبیلہ مراد کا ایک شخص اویس کے پاس گیا اور سلام کے بعد پوچھا کہ اویس تمہارا کیا حال ہے،فرمایا الحمد للہ،پھر پوچھا زمانہ کا تمہارے ساتھ کیا طرز عمل ہے،فرمایا،یہ سوال اس شخص سے کرتے ہو،جس کو شام کے بعد صبح ملنے کا یقین نہیں اور صبح کو شام کے ملنے کی امید نہیں،میرے مرادی بھائی موت نے کسی شخص کے لیے خوشی کا محل باقی ہی نہیں رکھا،مرادی بھائی خدا کے عرفان میں مومن کے لیے چاندی سونے کی کوئی قیمت باقی نہیں رکھی،مرادی بھائی خدا کے کاموں میں مومن کے فرض کی ادائیگی نے ان کا کوئی دوست باقی نہیں چھوڑا ہے،خدا کی قسم چونکہ ہم لوگ لوگوں کو اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں،اس لیے انہوں نے ہم کو اپنا دشمن سمجھ لیا ہے اور اس میں اُن کے فاسق مدد گار مل گئے ہیں جو ہم پر تہمتیں رکھتے ہیں،لیکن خدا کی قسم ان کا یہ رویہ مجھ کو حق بات کہنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔
<ref>(مستدرک حاکم:
== شرف جہاد ==
<big>اگرچہ آپ گمنامی کی خاطر گوشہ عزلت سے بہت کم قدم نکالتے تھے؛ لیکن جہاد کے شرف کے حصول کے لیے کبھی کبھی وہ گوشہ عزلت کو چھوڑتے تھے،اگرچہ صحیح مسلم میں اس کی تصریح نہیں ؛لیکن قیاس ؛بلکہ یقین یہ ہے کہ حضرت عمرؓ سے آپ سے یمن کی جس امداد میں ملاقات ہوئی تھی وہ یقیناً جنگی سلسلہ میں آئی ہوگی،اس کے علاوہ اصابہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ آذربائیجان کے معرکہ میں شریک تھے۔
<ref>(اصابہ:
== ماں کی خدمت ==
<big>دنیاوی تعلقات میں اویس کے لے دے کر ایک تنہا ماں تھیں،ان کی خدمت کو سب سے بڑی سعادت اور عبادت سمجھتے تھے ؛چنانچہ جب تک وہ زندہ رہیں اُن کی تنہائی کے خیال سے حج نہیں کیا اور ان ہی کی وجہ سے وہ جمالِ نبوی کے دیدار سے محروم رہے،ان کی وفات کے بعد فریضہ حج ادا کرنے کا موقع ملا؛لیکن ان کے پاس کیا تھا چند لوگوں نے سامانِ سفر پیش کیا،اُس وقت وہ فریضہ حج سے فارغ
<ref>(مستدرک حاکم:
== بعض اقوال ==
<big>فرماتے تھے خدا کے کاموں میں ایسے رہو گویا تم نے تمام انسانوں کو قتل
<ref>(صفوۃ الصفوہ:
سطر 193:
ان کی وفات جنگ صفین میں سن 37 ہجری میں ہوئی ہے کہ انہوں نے [[علی بن ابی طالب]] کے ساتھ مل کر جنگ لڑی اور وہیں پر آپ شہید ہوئے، اس موقف کومستدرک حاکم نے <ref>"مستدرک"(3/460</ref> میں شریک بن عبد اللہ اور عبد الرحمن بن ابی لیلی وغیرہ سے با سند بیان کیا ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے آذربائیجان کی جنگوں میں شرکت کی اور وہیں پر شہید ہوئے، <ref>" حلیۃ الأولياء " (2/83</ref>
#
*
|