"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 542:
یہ مسئلہ کی علمی حیثیت ہے کہ جس سے معجزہ اور سحر کی حدود قطعاً جدا اور متمائز ہوجاتی ہیں ‘ رہا حس اور مشاہدہ کا معاملہ تو معجزہ اور سحر میں یہ فرق ہے کہ ساحر کی عام زندگی خوف و دہشت ‘ ایذاء رسانی اور بدعملی سے وابستہ ہوتی ہے اور لوگ اس نظر سے ساحر سے خوف کھاتے ہیں یا اس کے سامنے مرعوب ہوجاتے ہیں بخلاف نبی اور رسول کے کہ اس کی تمام زندگی صداقت ‘ خلوص ‘ مخلوق خدا کی ہمدردی و غمگساری ‘ اور تقویٰ و طہارت سے وابستہ ہوتی ہے اور اس کا کریکٹر بےداغ اور صاف اور روشن ہوتا ہے اور وہ معجزہ کو پیشہ نہیں بناتا بلکہ خاص اہم موقع پر صداقت اور حق کی حمایت میں اس کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ ایسے وقت معجزہ دکھاتا ہے جبکہ دشمن بھی اس کی عصمت و صداقت اور کریکٹر کی پاکیزگی کے پہلے سے معترف ہوتے ہیں مگر اس کی دعوت کو یا شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یا جحود و انکار کے نقطہ نظر سے اور پھر اس سے معجزہ کے طالب ہوتے ہیں نیز اگر سحر اور معجزہ کا مقابلہ آن پڑے تو معجزہ غالب رہے گا اور اعلیٰ سے اعلیٰ سحر بھی مغلوب و عاجز اور اس کا عکس محال اور ناممکن ہے چنانچہ ساحرین اور انبیاء و رسل کے مقابلہ کی تاریخ اس کی شاہد عدل ہے۔
الحاصل موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا کے نشانات (معجزہ) اس لیے عطا کئے گئے کہ ان کے زمانے میں مصر سحر اور جادو کا مرکز تھا اور فن سحر شباب پر ‘ اور مصریوں نے تمام دنیا کے مقابلہ میں اس کو اوج کمال تک پہنچا دیا تھا۔</big>
<big>لہٰذا سنت اللّٰہ کا تقاضا تھا کہ ایسے زمانہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے نشانات (معجزات) عطا کئے جائیں جو اسی نوع سے متعلق ہوں تاکہ جب انکار پر اصرار حد سے بڑھ جائے اور معاندین و مخالفین اپنے محیر العقول سحر اور جادو کے ذریعہ ان کے مقابلہ پر آجائیں تو خدا کے نشان (معجزات و آیات اللہ) مخالفوں کو یہ باور کرا دیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جو قوت و طاقت ہے وہ انسانی صنعتوں اور عجوبہ کاریوں سے بلند اور بشری دسترس سے باہر ہے اور اس طرح عوام و خواص کو ان کی صداقت اور ان کے ” من اللّٰہ “ ہونے کا یقین آجائے اور خواہ زبان اقرار کرے یا نہ کرے لیکن ان کا عجز اور ان کی درماندگی علیٰ رؤس الاشہاد ان کے دلوں کے اقرار کی شہادت دینے لگے۔</big>
 
== حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ساحروں کا مقابلہ ==
 
<big>بہرحال یوم جشن آپہنچا میدان جشن میں تمام شاہانہ کرو فر کے ساتھ فرعون تخت نشین ہے اور درباری بھی حسب مراتب بیٹھے ہیں اور لاکھوں انسان حق و باطل کے معرکہ کا نظارہ کرنے کو جمع ہیں ایک جانب مصر کے مشہور جادو گروں کا گروہ اپنے سازو سامان سحر سے لیس کھڑا ہے اور دوسری جانب خدا کے رسول ‘ حق کے پیغامبر ‘ سچائی اور راستی کے پیکر ‘ حضرت موسیٰ و حضرت ہارون (علیہا السلام) کھڑے ہیں فرعون بہت مسرور ہے اور اس یقین پر کہ ساحرین مصر ان دونوں کو جلد ہی شکست دے دیں گے ساحروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے ‘ اگر تم نے موسیٰ کو شکست دے دی تو نہ صرف انعام و اکرام سے مالا مال کئے جاؤ گے بلکہ میرے دربار میں خاص جگہ پاؤ گے ‘ ساحر بھی اپنی کامیابی کے یقین پر فرعون سے اپنے اعزازو اکرام کا وعدہ لے رہے ہیں اور مستقبل کے تصور سے بہت شاداں اور مسرور ہیں۔
{ وَ جَآئَ السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ }
<ref>(الاعراف : ٧/١١٣‘ ١١٤)</ref>
” اور جادو گر فرعون کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا اگر ہم موسیٰ ((علیہ السلام)) پر غالب آجائیں تو ہمارے لیے انعام و اکرام ہے ؟ فرعون نے کہا ہاں ضرور ‘ اور یہی نہیں بلکہ مقربین بارگاہ شاہی بنو گے۔ “
{ فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ وَقِیْلَ لِلنَّاسِ ہَلْ اَنْتُمْ مُجْتَمِعُوْنَ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنْ کَانُوْا ہُمُ الْغَالِبِیْنَ فَلَمَّا جَائَ السَّحَرَۃُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَئِنَّ لَنَا لاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ } <ref>(الشعراء : ٢٦/٣٨ تا ٤٢)</ref>
” پھر وعدہ کے دن جادو گر جمع ہوگئے اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم (اس میدان میں) جمع ہو گے شاید ہم جادو گروں کی پیروی کریں اگر وہ غالب رہیں ‘ سو جب جادو گر آگئے تو انھوں نے فرعون سے کہا کیا ہمارے لیے انعام ہے اگر ہم غالب رہیں ؟ (فرعون نے) کہا ہاں ‘ اور تم اس صورت میں (ہمارے) مقربین میں سے ہو گے۔ “
جادوگروں نے جب اس طرف سے اطمینان کرلیا تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے مگر قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو چیلنج کریں حضرت موسیٰ نے حق تبلیغ ادا فرماتے ہوئے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا : تمہاری حالت پر سخت افسوس ہے تم کیا کررہے ہو ؟ تم ہم کو جادو گر کہہ کر خدا پر جھوٹا الزام نہ لگاؤ مجھ کو ڈر ہے کہیں وہ تم کو اس بہتان طرازی کی سزا میں عذاب دے کر تم کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکے کیونکہ جس کسی نے بھی بہتان باندھا وہ نامراد ہی رہا لوگوں نے یہ سنا تو آپس میں رد و کد شروع کردی اور سرگوشیاں کرنے لگے اور درباریوں نے یہ حال دیکھا تو جادو گروں کو مخاطب کرکے کہنے لگے یہ دونوں بھائی بلاشبہ جادو گر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ جادو کے زور سے تم کو تمہارے وطن سے نکال دیں اور تم پر غلبہ کرلیں تم اپنا کام شروع کرو اور پرے باندھ کر موسیٰ کے مقابلہ میں ڈٹ جاؤ ‘ آج جو بھی غالب آجائے گا وہی کامیاب ثابت ہوگا۔
{ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰی وَیْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰی قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِھِمَا وَ یَذْھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی }
<ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٦١ تا ٦٤)</ref>
” موسیٰ نے کہا افسوس تم پر دیکھو اللہ پر جھوٹی تہمت نہ لگاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی عذاب بھیج کر تمہاری جڑ اکھاڑ دے جس کسی نے جھوٹ بات بنائی وہ ضرور نامراد ہوا پس لوگ آپس میں ردو کد کرنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں شروع ہوگئیں پھر (درباری) بولے یہ دونوں بھائی ضرور جادو گر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور پھر تمہارے شرف اور تمہاری عظمت کے مالک ہوجائیں پس اپنے سارے داؤ جمع کرو اور پرا باندھ کر ڈٹ جاؤ جو آج بازی لے گیا وہی کامیاب ہوگا۔ “
</big>