"موسی ابن عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مضمون میں اضافہ کیا ہے
مضمون میں اضافہ کیا ہے
سطر 557:
</big>
 
<big>جادوگروں نے آگے بڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا موسیٰ اس قصہ کو چھوڑ اور یہ بتا کہ ابتداء تیری جانب سے ہوگی یا ہماری جانب سے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ ان پر اس تنبیہ کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تو فرمایا کہ ابتداء تم ہی کرو اور اپنے کمال فن کی پوری حسرت نکال لو چنانچہ ساحروں نے اپنی رسیاں ‘ بان اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں جو سانپ اور اژد ہے کی شکل میں دوڑتی نظر آنے لگیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو دل میں خوف و ہراس محسوس کیا کہ کہیں لوگ اس مظاہرہ سے متاثر نہ ہوجائیں اور ساحروں کے سحر کو حقیقت نہ سمجھ لیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ تاثر اور رعب قبول حق کیلئے سد راہ بن جائے گا تب خدائے تعالیٰ نے ان کو مطمئن فرمایا اور وحی کے ذریعہ مطلع کیا کہ موسیٰ خوف نہ کھاؤ ہمارا وعدہ ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈالو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب لاٹھی کو ڈالا تو اژدہا بن کر اس نے ساحروں کے تمام شعبدوں کو نگل لیا اور تھوڑی سی دیر میں سارا میدان صاف ہوگیا اور اس طرح ساحر اپنے سحر میں ناکامیاب رہے۔
 
{ قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی } <ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٦٥ تا ٦٩)</ref>
” (جادوگروں نے) کہا اے موسیٰ تم پہلے اپنی لاٹھی پھینکو گے یا پھر ہماری طرف سے پہل ہو موسیٰ نے کہا نہیں تم ہی پہلے پھینکو چنانچہ انھوں نے اپنا کرتب دکھایا اور اچانک موسیٰ کو ان کے جادو کی وجہ سے ایسا دکھائی دیا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں۔ موسیٰ نے دل میں ہراس محسوس کیا (کہ اس منظر سے لوگ متاثر نہ ہوجائیں) ہم نے کہا اندیشہ نہ کر ‘ تو ہی غالب رہے گا تیرے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے فورا پھینک دے ‘ جادو گروں کی تمام بناوٹیں نگل جائے گی انھوں نے جو کچھ کیا ہے محض جادو گروں کا فریب ہے اور جادو گر کسی راہ سے آئے کبھی کامیابی نہیں پاسکتا۔ “
{ قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ قَالَ اَلْقُوْا فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْھُمْ وَ جَآئُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ فَاِذَا ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِکُوْنَ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ فَغُلِبُوْا ھُنَالِکَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ } <ref>(الاعراف : ٧/١١٥ تا ١١٩)</ref>
” (جادوگروں نے) کہا اے موسیٰ یا تم اپنی لاٹھی پھینکو یا پھر ہم پھینکیں موسیٰ نے کہا تم ہی پہلے پھینکو پھر جب جادو گروں نے جادو کی بنائی ہوئی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکیں تو لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں اور اپنے کرتبوں سے ان میں دہشت پھیلا دی اور بہت بڑا جادو بنا لائے اس وقت ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو جونہی اس نے لاٹھی پھینکی تو اچانک کیا ہوا کہ جو کچھ جھوٹی نمائش جادو گروں کی تھی سب اس نے نگل کر نابود کردی پس حق قائم ہوگیا اور وہ جو عمل کر رہے تھے باطل ہو کر رہ گیا پس اس موقع پر وہ مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہو کر لوٹے۔ “
{ فَلَمَّا جَآئَ السَّحَرَۃُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓی اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ وَ یُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ }
<ref>(یونس : ١٠/٨١‘ ٨٢)</ref>
” جب جادو گر آموجود ہوئے تو موسیٰ نے کہا تمہیں جو کچھ میدان میں ڈالنا ہے ڈال دو جب انھوں نے جادو کی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں تو موسیٰ نے کہا تم جو کچھ بنا کر لائے ہو یہ جادو ہے اور یقیناً اسے اللہ ملیامیٹ کر دے گا ‘ اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ مفسدوں کا کام نہیں سنوارتا ‘ وہ حق کو اپنے احکام کے مطابق ضرور ثابت کر دکھائے گا ‘ اگرچہ مجرموں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ “
جادوگروں نے جو کہ اپنے فن کے ماہر و کامل تھے جب عصاء موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کرشمہ دیکھا تو وہ حقیقت حال سمجھ گئے اور جس کو اس وقت تک فرعون اور اس کے درباری لوگ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے رہے تھے وہ اس کو نہ چھپا سکے اور انھوں نے برسر مجلس یہ اقرار کرلیا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کا یہ عمل جادو سے بالاتر خدا کا معجزہ ہے اس کا سحر سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور پھر فوراً سجدہ میں گرپڑے اور اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون ((علیہا السلام)) کے پروردگار پر ایمان لے آئے کیونکہ وہی رب العٰلمین ہے۔
{ فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی } <ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٧٠)</ref>
” پس سب جادو گر سجدہ میں گرگئے اور کہنے لگے ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ “
{ وَ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ رَبِّ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ }
<ref>(الاعراف : ٧/١٢٠ تا ١٢٢)</ref>
” اور سب جادو گر سجدہ میں گرپڑے کہنے لگے ہم تو جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔ “
فرعون نے جب یہ دیکھا کہ میرا تمام دام فریب تار تار ہوگیا اور موسیٰ ((علیہ السلام)) کو شکست دینے کی جو آخری پناہ تھی وہ بھی منہدم ہوگئی اب کہیں ایسا نہ ہو کہ مصری عوام بھی ہاتھ سے جائیں اور موسیٰ ((علیہ السلام)) اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو اس نے مکرو فریب کا دوسرا طریقہ اختیار کیا اور ساحروں سے کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) تم سب کا استاذ ہے اور تم سب نے آپس میں سازش کر رکھی ہے تب ہی تو میری رعایا ہوتے ہوئے میری اجازت کے بغیر تم نے موسیٰ کے خدا پر ایمان لانے کا اعلان کردیا ‘ اچھا میں تم کو عبرتناک سزا دوں گا تاکہ آئندہ کسی کو ایسی غداری کی جرأت نہ ہو پہلے تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں گا اور پھر سب کو سولی پر چڑھاؤں گا۔
{ قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَ لَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰی } <ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٧١)</ref>
(فرعون نے) کہا ” تم بغیر میرے حکم کے موسیٰ پر ایمان لے آئے ؟ ضرور یہ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے اچھا دیکھو میں کیا کرتا ہوں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں گا اور کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا پھر تمہیں پتہ چلے گا ہم دونوں میں کون سخت عذاب دینے والا ہے اور کس کا عذاب دیرپا ہے۔ “
{ قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ } <ref>(الاعراف : ٧/١٢٣)</ref>
” فرعون نے کہا مجھ سے اجازت لیے بغیر تم موسیٰ پر ایمان لے آئے ؟ ضرور یہ ایک پوشیدہ تدبیر ہے جو تم نے مل جل کر شہر میں کی ہے تاکہ اس کے باشندوں کو اس سے نکال باہر کرو اچھا تھوڑی دیر میں تمہیں اس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا۔ “
مگر سچا ایمان جب کسی کو نصیب ہوجاتا ہے خواہ وہ ایک لمحہ کا ہی کیوں نہ ہو وہ ایسی بےپناہ روحانی قوت پیدا کردیتا ہے کہ کائنات کی کوئی زبردست سے زبردست طاقت بھی اس کو مرعوب نہیں کرسکتی ‘ دیکھئے وہی جادو گر جو فرعون سے تھوڑی دیر پہلے انعام و اکرام اور عزت و جاہ کی آرزوئیں اور التجائیں کر رہے تھے ایمان لانے کے بعد ایسے نڈر اور بےخوف ہوگئے کہ ان کے سامنے سخت سے سخت مصیبت اور دردناک عذاب بھی ہیچ ہو کر رہ گیا اور کوئی دہشت بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکی اور انھوں نے فرعون کی موجودگی ہی میں بےدھڑک اسلام کا اعلان کردیا اور جب انھوں نے فرعون کی ان جابرانہ دھمکیوں کو سنا تو کہنے لگے :
{ قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآئَنَا مِنَ الْبِیّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا اِنَّآاٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَآ اَکْرَھْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ وَ اللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی }
<ref>(سورہ طٰہ : ٢٠/٧٢‘ ٧٣)</ref>
” انھوں نے کہا ہم یہ کبھی نہیں کرسکتے کہ سچائی کے جو روشن دلائل ہمارے سامنے آگئے ہیں اور جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے اس سے منہ موڑ کر تیرا حکم مان لیں تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر گزر ‘ تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کی اس زندگی کا فیصلہ کر دے ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے خصوصاً جادو گری کی خطا کہ جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا ہمارے لیے اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے۔ “
{ قَالُوْا لَا ضَیْرَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَایَانَا اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ }
<ref>(الشعراء : ٢٦/٥٠‘ ٥١)</ref>
” (جادوگروں نے) کہا (تیرا یہ عذاب ہمارے لئے) کوئی نقصان کی بات نہیں بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں بیشک ہم اس کے حریص ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو بخش دے کیونکہ ہم ہوگئے مومنوں میں اول۔ “
غرض حق و باطل کی اس کشمکش میں فرعون اور اس کے اعیان و ارکان کو سخت شکست اٹھانی پڑی اور وہ برسر عام ذلیل و رسوا ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر خدا کا وعدہ پورا ہوا اور کامیابی کا سہرا ان ہی کے سر رہا۔
اس صورت حال کو دیکھ کر جادو گروں کے علاوہ اسرائیلی نوجوانوں میں سے بھی ایک مختصر جماعت مسلمان ہوگئی مگر وہ فرعون کے ظلم و ستم کی وجہ سے اعلان نہ کرسکی کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ اس کی عام قاہرانہ ستم کیشیوں اور ظلم پرستیوں کے علاوہ اس وقت کی ذلت نے اس کو اور زیادہ غضبناک بنادیا تھا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تلقین فرمائی کہ اب مومن ہونے کے بعد تمہارا سہارا صرف خدا پر ہونا چاہیے جماعت مومنین نے اس پر لبیک کہا اور وہ خدا کے سامنے گڑ گڑا کر رحمت و مغفرت کی دعائیں اور ظالموں کے عذاب و مصیبت سے محفوظ رہنے کی التجائیں کرنے لگے۔
{ فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَائِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ وَ قَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ } <ref>(یونس : ١٠/٨٣ تا ٨٦)</ref>
” پھر موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دے اور اس میں شک نہیں کہ فرعون سرزمین مصر میں متمردانہ قابض اور ظلم و استبداد میں بالکل چھوٹ تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : لوگو اگر تم فی الحقیقت اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کی فرمان برداری کرنی چاہتے ہو تو چاہیے کہ صرف اسی پر بھروسہ کرو اور فرعون کی طاقت سے نہ ڈرو پس انھوں نے کہا ہم صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم قوم کی آزمائش میں نہ ڈال اور ہم کو اپنی رحمت سے منکروں سے نجات دے۔ “
الحاصل فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی روحانی قوت کا یہ مظاہرہ دیکھ کر بےحد مرعوب ہوگیا اور اگرچہ وہ جادو گروں پر اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار کرتا رہا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس وقت کچھ کہنے کی مطلق ہمت نہ پڑی اور درباریوں اور ارکان سلطنت نے جب یہ احتجاج کیا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کو قتل کیوں نہیں کرا دیتا ‘ کیا اس کو اور اس کی قوم کو یہ موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ مصر میں فساد پھیلائیں اور تجھ کو اور تیرے دیوتاؤں کو ٹھکراتے رہیں ؟ تو کہنے لگا کہ تم گھبراتے کیوں ہو ؟ میں اسرائیلیوں کی طاقت کو بڑھنے نہ دوں گا اور مقابلہ کے قابل ہی نہ رکھوں گا ‘ ابھی یہ حکم جاری کرتا ہوں کہ ان کی اولاد نرینہ کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا کرو اور صرف لڑکیوں کو چاکری کیلئے زندہ رہنے دو۔
{ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَ قَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِھَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآئَھُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآئَھُمْ وَ اِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ } <ref>(الاعراف : ٧/١٢٧)</ref>
” اور فرعون کی قوم میں سے ایک جماعت نے فرعون سے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ وہ زمین (مصر) میں فساد کرتے پھریں اور تجھ کو اور تیرے دیوتاؤں کو ٹھکرائیں۔ فرعون نے کہا ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے اور ان کی لڑکیوں کو (باندیاں بنانے کیلئے) زندہ رکھیں گے اور ہم ان پر ہر طرح غالب ہیں اور وہ ہمارے ہاتھوں میں بےبس ہیں۔ “
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سَاحِرٌ کَذَّابٌ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْا اَبْنَائَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ وَاسْتَحْیُوا نِسَآئَہُمْ وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ } <ref>(مومن : ٤٠/٢٣ تا ٢٥)</ref>
اور بلاشبہ ہم نے فرعون ‘ ہامان اور قارون کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول بنا کر اور واضح نشان دے کر بھیجا پس انھوں نے کہا یہ تو جادو گر ہے جھوٹا پھر جب وہ ہمارے پاس سے ان کے پاس حق لے کر آیا تو کہنے لگے کہ جو لوگ اس (موسیٰ (علیہ السلام)) پر ایمان لے آئے ہیں ان کے لڑکوں کو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو باقی رہنے دو ‘ اور (انجام کار) کافروں کا مکرو فریب باطل و برباد ہو کر رہا۔ “
گویا فرعون کا یہ دوسرا اعلان تھا جو بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل سے متعلق کیا گیا۔</big>